قرآن مجید میں نیکی کے کاموں پر مدد کرنے کا حکم:قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ترجمہ کنزالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔(پ 6،المائدہ 2)

یہ انتہائی جامع آیتِ مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ میں ان کی تمام اَنواع واَقسام داخل ہیں۔

1۔علم دین سیکھانا: علم دین سکھانا بھی نیکی کے کاموں میں مدد کرنا ہے۔ایک حدیث شریف میں ہے: جس شخص نے کتاب اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک باب سکھایا، تو اللہ پاک اس کے ثواب کو قِیامت تک کے لئے جاری فرما دے گا۔( تاریخ دمشق لابن عساکر، 59 /290)

2۔ضرورت مند کی مدد کرنا: ضرورت مند مسلمان بھائی کی قرض کے ذریعےبھی مدد کی جا سکتی ہےچُنانچہ اللہ کریم کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے مؤمنوں کو اجازت ہو گی کہ وہ جنت کے جس دروازے سے چاہیں داخل ہوجائیں اوران کاجنتی حُور کے ساتھ نکاح کیا جائے گا۔ ان میں سے ایک حاجت مند کو پوشیدہ قرض دینے والا بھی ہے۔(مسند ابی یعلیٰ،2/196، حدیث: 1788، ملخصاً)

3۔بھوکے کو کھانا کھلانا: حدیث میں بھوکے مسلمان کوکھانا کھلانے والے کیلئے جنّتی نعمتیں عطا کئےجانے کی بشارت ہے،چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: جو مسلمان کسی بھوکےمسلمان کو کھانا کھلائےگاتواللہ پاک اسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جو کسی پیاسے مسلمان کو سیراب کرے گاتو اللہ پاک اسے پاکیزہ شراب پلائے گا۔(ابو داؤد،2/180، حدیث:1682)

4۔مال کے ذریعے مدد کرنا:ہم میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی پونچی ایسی جگہ لگائے جہاں سے اسے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو اس میں کیا شک ہے کہ جس سرمایہ کاری کو اللہ پاک بہترین فرما دیں وہ ہی بہترین ہے ۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہیں:اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌۙ(۱۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے وہ تمہارے لئے اس کے دونے کردے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ قدر فرمانے والا حلم والا ہے۔ (پ 28، التغابن:17)

5۔نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں تعاون کرنا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے اچھا کون ہے تو فرمایا لوگوں میں سے وہ شخص سب سے اچھا ہے جو کثرت سے قراٰنِ کریم کی تِلاوت کرے، زیادہ مُتقی ہو، سب سے زیادہ نیکی کا حکم دینے اور بُرائی سے مَنع کرنے والا ہو اور سب سے زیادہ صِلَۂ رِحمی (یعنی رشتے داروں کے ساتھ اچّھا برتاؤ) کرنے والا ہو۔

6۔غمخواری کرنا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو کسی غمزدہ شخص سے غمخواری کرے گا اللہ پاک اسے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحو ں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے غمخواری کرےگا اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے عطا کرےگا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،ص: 235)

7۔کسی نیک کام میں راہنمائی کرنا:حدیث شریف میں فرمایا گیا :الدال علی الخير كفاعله نیکی کے کام پر راہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔

8۔مشورہ دینا:قرآن مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے معاملات میں مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ

9۔روزہ افطار کروانا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے حَلال کھانے یا پانی سےکسی روزہ دار کوروزہ اِفْطَار کروایا،فرشتے ماہِ رمضان کے اَوْقات میں اُس کے لئے اِسْتِغفَار کرتے ہیں اور جبرِیل امین علیہ السَّلام شبِ قَدْر میں اُس کےلئے اِسْتِغفَارکرتے ہیں۔(معجمِ کبیر، 6/261 ،حدیث:6162)

10۔پریشانی دور کرنا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جوکسی مسلمان کی پریشانی دور کرے گااللہ پاک قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دورفرمائے گا۔ (مسلم، ص1069، حدیث:6578)


وَ  لْتَكُنْ  مِّنْكُمْ  اُمَّةٌ  یَّدْعُوْنَ  اِلَى  الْخَیْرِ  :اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں۔ آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان ایک ہی کام میں لگ جائیں لیکن اتنا ضرور ہونا چاہیئے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے، انہیں نیکی کی دعوت دے، اچھی بات کا حکم کرے اور بری بات سے منع کرے۔

تبلیغِ دین کا حکم :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے مصنفین کا تصنیف کرنا، مقررین کا تقریر کرنا، مبلغین کا بیان کرنا، انفرادی طور پر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ، یہ سب کام تبلیغِ دین کے زمرے میں آتے ہیں اور بقدرِ اخلاص ہر ایک کو اس کی فضیلت ملتی ہے۔ تبلیغ قَولی بھی ہوتی ہے اور عملی بھی اور بسااوقات عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے زیادہ مُؤثّر ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین ہوجاتا ہے۔

تبلیغِ دین سے متعلق کچھ احاديث:

(1) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، تم یا تو ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا قریب ہے کہ اللہ پاک اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیجے، پھر تم اس سے دعا مانگو گے مگر تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، 4/ 69، الحدیث: 2176)

(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا اللہ پاک تم پر تم ہی میں سے برے لوگوں کو مُسلَّط کر دے گا،پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو وہ قبول نہیں کی جائے گی۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، 1 / 377، الحدیث: 1379)

(3) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’جو شخص کسی مقام پر کھڑے ہو کر حق بات کہہ سکتا ہے تو اس کیلئے درست نہیں کہ حق بات نہ کہے کیونکہ حق بات کہنا ا س کی موت کو مقدم کر سکتا ہے نہ اس کے لکھے ہوئے رزق سے اسے محروم کر سکتا ہے۔(شعب الایمان، الثانی والخمسون من شعب الایمان، 6 / 92، الحدیث: 7579)

ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل وانصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل وانصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اوراسی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ قوم تباہی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اس حقیقت کو درج ذیل حدیث میں انتہائی احسن انداز کے ساتھ سمجھایا گیا ہے ،چنانچہ

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ پاک کی حدود میں مداہنت کرنے والے (یعنی خلافِ شرع چیز دیکھ کر قدرت کے باوجود منع نہ کرنے والے) اور حدودُ اللہ میں واقع ہونے والے کی مثال یہ ہے کہ ایک قوم نے جہاز کے بارے میں قرعہ ڈالا، بعض اوپر کے حصہ میں رہے بعض نیچے کے حصہ میں ، نیچے والے پانی لینے اوپر جاتے اور پانی لے کر ان کے پاس سے گزرتے توان کو تکلیف ہوتی (انہوں نے اس کی شکایت کی تو) نیچے والے نے کلہاڑی لے کر نیچے کا تختہ کاٹنا شروع کر دیا۔ اوپر والوں نے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے کہ تختہ توڑ رہے ہو؟اس نے کہا میں پانی لینے جاتا ہوں تو تم کو تکلیف ہوتی ہے اور پانی لینا مجھے ضروری ہے۔

گناہوں بھری زندگی پر ندامت:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج کل چاروں طرف گناہ ہی گناہ کئے جا رہے ہیں حتّٰی کہ بظاہر کسی نیک نظر آنے والے شخص کے قریب جائیں تو وہ بھی بسا اوقات عقیدے کی خرابیوں ، زَبان کی بے احتیاطیوں ، بدنگاہیوں اور بد اَخلاقیوں کی آفتوں میں مبتَلا نظر آتا ہے ، آہ! ہر سَمت گناہ گناہ اور بس گناہ ہی نظر آ رہے ہیں! نیک بندے بے شک موجود ہیں مگر ان کی تعداد کافی کم ہو چکی ہے۔ آپ کی ترغیب و تحریص کیلئے ایک مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کرتا ہوں چُنانچِہ بابُ المدینہ (کراچی) کے عَلاقہ کیماڑی میں مُقیم ایک اسلامی بھائی کے بیان کا لُبِّ لُباب ہے: عرصۂ درازسے میں گناہوں کے مَرَض میں مبتلا تھا، بات بات پر گالی گلوچ ، لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد جیسی ناپسندیدہ حرکتیں میری عادت میں شامل ہو چکی تھیں اور فلمیں ڈرامے دیکھنے ، گانے باجے سننے کا شوق توجُنُون کی حد تک تھا۔

میری توبہ کی سبیل (یعنی راہ)کچھ اس طرح بنی کہ میں ایک بنگلے پر بطورِ ڈرائیور مُلازَمت کرتا تھا،ایک دن کام سے فارِغ ہوکرT.V.روم میں بیٹھ گیا۔ وہاں مجھے بذریعۂ مَدَنی چینل سنّتوں بھرا بیان سننے کی سعادت حاصل ہوئی ، بیان نے مجھے سرتاپا ہِلا کر رکھ دیا، مجھے اپنی گناہوں بھری زندَگی پر ندامت ہونے لگی ،میں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے سچّے دل سے توبہ کی اورراہِ سنّت اپنا لی۔جب مَدَنی چینل پر رَمَضانُ المبارَک کے 30دن کے تربیّتی اعتکاف کی رغبت دلائی گئی تو لَبَّیک کہتے ہوئے میں نے 30دن کے تربیتی اعتکاف کی نیَّت کرلی۔ تادمِ تحریر الحمد للہ اس نیَّت کوعملی جامہ پہناتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے عالَمی مَدَنی مرکزفیضانِ مدینہ بابُ المدینہ(کراچی) میں اعتکاف کی بَرَکتیں حاصِل کر رہا ہوں۔ ان شاء اللہ اعتِکاف سے فارِغ ہوتے ہی میں ہاتھوں ہاتھ یکمشت 12ماہ کے مَدَنی قافِلے میں بھی کیا۔(کتاب نیکی کی دعوت)

یانبی! ”نیکی کی دعوتکی تڑپ

ہوکسی صورت نہ کم چشمِ کرم