شرفِ انسانیت یہ ہے
کہ انسان ادب کے زیور سے آراستہ ہو، جس انسان میں ادب کا جوہر نہ ہو وہ انسان نما
حیوان ہوا کرتا ہے۔ اصلاحی تعلیمات مکمل طور پر ادب ہی پر مبنی ہیں او رادب ہی کی
تعلیم و تلقین کرتی ہیں۔
اس کارخانہ قدرت میں
جس کسی کو جو نعمتیں ملیں ادب ہی کی بنا پر ملی ہیں اور جو ادب سے محروم ہے حقیقتا
ایسا شخص ہر نعمت سے محروم ہے، شاید اسی لیے کسی دانش مند نے کہا ہے کہ ”باادب
بانصیب اور بے ادب بے نصیب “
عرض یہ کہ ادب ہی ایک
ایسی نعمت ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے۔
جس طرح ریت کے ذروں میں موتی اپنی چمک اور اہمیت نہیں کھوتا اسی طرح مودب شخص
انسانوں کے جم غفیر میں اپنی شناخت کو قائم و دائم رکھتا ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ
اصحابِ کہف اللہ والوں سے محبت کرنے
کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کتے کو
انسانی شکل میں جنت میں داخل فرمائے گا اب دیکھیں اللہ والوں سے محبت کرے، اگر نجس جانور وہ تو وہ جنت میں داخل
ہوجائے اور بلعم بن باعورا جس نے نبی کی بے ادبی کی حضرتِ موسیٰ علیہ
السلام کی شان میں گستاخی کی ، انسان ہونے کے باوجود فرمایا کہ
گستاخی کی وجہ سے یہ جہنم میں کتے کی شکل میں جائے گا۔
انسان اگر بے ادب ہو
جہنمی ہوجائے اگر کتے جیسا نجس جانور با ادب ہو اور اللہ کے نیک بندوں کا ادب کرنے والا ہو ان سے محبت کرنے والا ہو
تو اللہ تعالیٰ اسے جنتی
بنادے ۔
حضرت سیدنا موسیٰ کلیم
اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام جب اللہ
تعالیٰ کے حکم سے فرعون کو دعوتِ ایمان دینے کے لئے تشریف لے گئے
تو فرعون نے آپ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھ
کر آپ علیہ السلام پر ایمان لانے کے
بجائے آپ کے مقابلے کے لیے اپنی سلطنت کے جادو گروں کو جمع کیا، جب مقابلےکا وقت
ہوا تو ان کے جادوگروں نے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا اے موسی یا تو آپ اپنا اعصا ڈالیں یا ہم اپنے جادو کی
لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکیں، ان کا یہ کہنا حضرت سیدنا موسیٰ علیہ
السلام کے ادب کے لیے تھا کہ وہ بغیر آپ کی اجازت کے اپنے عمل میں
مشغول نہ ہوئے، حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، تم پہلے ڈالو جب انہوں نے
اپنا سامان ڈالا جس میں بڑے بڑے رسے اور لکڑیاں تھیں تو وہ اژدھے نظر آنے لگے اور
میدان ان سے بھرا ہوا معلوم ہونے لگا، پھر اللہ کے حکم سے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا Stap ڈالا تو وہ ایک عظیم الشان اژدھا
بن گیا، اور جادو گروں کی سحر کاریوں کو ایک ایک کرکے نگل گیا، پھر جب موسیٰ علیہ
السلام نے اپنے دست مبارک میں لیا تو ہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ یہ
معجزہ دیکھ کر ان جادوگروں پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار ’’اٰمنا برب العالمین ‘‘ یعنی ہم
تمام جہانوں کے ر ب پر ایمان لائے کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے، جادو گروں نے حضرت موسیٰ
علیہ السلام کا ادب کیا کہ آپ کو مقدم کیا اور آپ کی اجازت کے بغیر
اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے اس ادب کا عوض انہیں یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان او رہدایت کی دولت سے سرفراز فرمادیا۔
گہرا بہت ہے رشتہ ادب
اور نصیب کا
جس طرح بھوک پر ہے حق
غریب کا
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں