باادب بانصیب

Wed, 23 Sep , 2020
3 years ago

یہ بات حقیقت ہے کہ ادب کے سبب انسان  ترقی وعروج پاتا ہے ،اسی ادب کی بدولت انسان دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہو تا او ر بے ادبی کے سبب ذلت و رسوائی کے عمیق گھڑے میں گر سکتا ہے ۔ ،اسی ادب کی بدولت موسی علیہ السلام کے مقابلے میں آنے والے جادوگروں کو کلمہ نصیب ہوا۔اسی لئے کہا جاتاہے ”با ادب با نصیب “مزید چند واقعات ملاحظہ فرمائیں ۔

بسم اللہ شریف کے ادب کی برکت:

حضرتِ سیِّدُنا مَنْصُور بن عَماّر رحمۃ اللہ علیہ کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہواکاغذ رکھنے کی کوئی مناسب جگہ نہ پائی تو نگل گئے ۔رات کو خواب میں کسی نے کہا: مُقَدَّس کاغذ کے اِحتِرام کی بَرَکت سے اﷲ پاک نےتجھ پر حِکمت کے دروازے کھول دیئے۔(الرسالۃ القشیریۃ ص48)

منقول ہے کہ ایک نیک شخص کے شَرابی بھائی کا انتقال نشے کی حالت میں ہوا خواب میں اسے دکھا گیا اور پوچھا تجھے جنت کیسے ملی ؟کہا کہ ایک کاغذدیکھاجس پر بِسْمِ اﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم تَحریرتھا،میں نے اُسے اُٹھایا اورنِگل لیا۔(پھر انتقال ہو گیا )جب قَبْرمیں پہنچا تو مُنْکَرنکَیرکے سُوالات پرمیں نے عرض کیا : آپ مُجھ سے سُوالات فر ما رہے ہیں، حالانکہ میرے پیارے پَروَرْدگار کاپاک نام میرے پیٹ میں موجودہے ۔ کسی نِدادینے والے نے نِدا دی: صَدَق عَبْدِی قَدْغَفَرْتُ لَہٗ یعنی میرابندہ سچ کہتاہے بے شک مَیں نے اِسے بخش دیا۔''

(نزہۃ المجالس1/41)

اساتذہ کا ادب:

جو اپنے اساتذہ کا ادب کرتا ہے اور ان کی چاہت کو پورا کرتا ہےوہ کامیابی کی منزلیں طے کرتا ہے اور جو ان کا دِل دکھاتا ہے، ان کی غیبت کرتا ، ان کی بیٹھنے کی جگہ کی بےادبی کرتا یا بلاوجہ ان سے بغض رکھتا ہےوہ نہ صرف علم کی مٹھاس سے محروم رہتا ہےبلکہ اسے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑتاہے۔ہمارے بڑے بڑے اَئمہ و فقہاء جن کا چہار سو شہرہ ہے،جن کا کلام بطورِ دلیل پیش کیا جاتا ہےاور جن کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہےان کی سیرت میں استاد کے ادب کا پہلو بہت نمایاں نظر آتا ہے۔

جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی،وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔

(فتاویٰ رضویہ،10/96،97)

اپنے اُستاذ کا ادب کریں:

کسی عربی شاعر نے کہا ہے : مَاوَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاَّ بِالْحُرْمَۃِ وَمَاسَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلَّا بِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ، یعنی جس نے جو کچھ پایا اَدب واحترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ اَدب واحترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا ۔

حضرت سہل بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سےکوئی سوال کیا جاتا، تو آپ پہلو تہی فرمالیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ فرمایا: آج جو کچھ پوچھنا چاہو،مجھ سے پوچھ لو۔''لوگوں نے عرض کی، ''حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟'' فرمایا،''جب تک میرے اُستاد حضرت ذوالنون مصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حیات تھے،ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیاکرتا تھا۔''

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے آگے بڑھ کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سواری کی رکاب تھام لی۔یہ دیکھ کر حضرت زیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا،''اے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمَ کے چچا کے بیٹے!آپ ہٹ جائیں۔'' اس پر حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا،''علما واکابرکی اسی طرح عزت کرنی چاہیئے۔''(جامع بیان العلم وفضلہ،ص 116)

کتابوں کا ادب:

شيخ امام حلوانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ميں نے علم کے خزانوں کو تعظيم و تکريم کرنے کے سبب حاصل کيا وہ اس طرح کہ ميں نے کبھی بھی بغيروضو کاغذ کو ہاتھ نہيں لگايا۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم ،ص 52)

ایک مرتبہ شيخ شمس الائمہ امام سرخسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا پیٹ خراب ہو گيا۔ آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مباحثہ کيا کرتے تھے ۔ ایک رات پيٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو17 بار وضو کرنا پڑا کیونکہ آپ بغير وضو تکرار نہيں کيا کرتے تھے۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص52)

“باادب با نصیب ”کے مقولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی کتابوں ، قلم، اور کاپیوں کی تعظیم کریں ۔ انہیں اونچی جگہ پر رکھئے ۔ دورانِ مطالعہ ان کا تقدس برقرار رکھئے۔ کتابیں اُوپر تلے رکھنے کی حاجت ہوتو ترتیب کچھ یوں ہونی چاہے ، سب سے اُوپر قرآنِ حکیم ، اس کے نیچے تفاسیر ، پھر کتبِ حدیث ، پھر کتبِ فقہ ، پھر دیگر کتب ِ صرف ونحو وغیرہ ۔ کتاب کے اوپر بلاضرورت کوئی دوسری چیز مثلاً پتھر اور موبائل وغیرہ نہ رکھیں ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں