انسان اور جانور میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ہے ادب ہے ۔ یہ وہ
تحفۂ آسمانی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ
نے انسان کو بطورِ خاص عطا فرمایا۔
ادب وآداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرۂ امتیاز ہے گو کہ دیگر
اقوام یا مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی اپنی عافیت
جانی مگر اس کا تمام تر سہرا اسلام ہی کے سر جاتا ہے جس نے ادب و آداب اور حسن
اخلاق کو باقاعدہ رائج کیا اور اسے انسانیت کا اولین درجہ دیا۔
یہی وجہ ہے کہ یہ بات
کی جاتی ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں زبان (یعنی اخلاق) سے پھیلا۔ حسنِ اخلاق اور
ادب پر لاتعداد احادیث مبارکہ ہیں کہ چھوٹے ہوں یا بڑے‘ سب کے ساتھ کس طرح ادب سے
پیش آنے کی تلقین اور ہدایت فرمائی گئی ادب اور اخلاق کسی معاشرے کی بنیادی حیثیت
کا درجہ رکھتا ہے جو معاشرے کو بلند تر کر دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا
ہے۔ادب سے عاری انسان اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ باادب بامراد اور بے ادب بے مراد
ہوتا ہے۔ سید ابو بکر غزنوی زندگی بھر خلوص اور گرم جوشی سے سیرت طیبہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ان شفاف چشموں سے لوگوں کو سیراب کرنے کے لیے
کوشاں رہے۔ ان کے لیکچرز، خطبات اور تحریریں اسلامی آداب، شائستگی اور قرینوں کی
تعلیم کے پاکیزہ اور جانفزا جھونکوں سے بھر پور ہوتے۔ ۔ یہی آداب ہیں جنہیں اخلاق
بھی کہا جاتاہے اور اخلاق ہی میزان عمل کاسب سے وزنی اثاثہ ہے
ادب کی مثالوں میں مشہور ترین مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ہے جنہوں نے اپنے والد حضرت ابراہیم
کے حکم پر اپنی جان کا تحفہ موت کی طشتری میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا۔ بقولِ شاعر:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
ہاں اس میں کوئی
شبہ نہیں کہ بھوک اور مفلسی انسان کی نفیس حسوں کی قاتل ہے۔’’
چنانچہ اگر کوئی قوم دنیا میں عزت پانا چاہتی ہے تو پہلے وہ
اپنے لیے بانصیب افراد ڈھونڈ کے لائے۔ اگر بانصیب لوگ چاہییں تو پہلے باادب لوگ
لاؤ ! اگر باادب لوگ چاہییں تو پہلے قوم سے بھوک ، افلاس اور غربت کو دور کرو۔
آج اگر ہم قعرِ مذلت میں گرے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ
ہم ادب کرنا بھول گئے ہیں۔
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی
ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں