باادب با نصیب

Wed, 23 Sep , 2020
3 years ago

ادب ایسے وصف کا نام ہے جس کے ذریعے انسان اچھی باتوں کی پہچان حاصل کرتاہے، یا اچھے اخلاق اپناتا ہے۔

حضرت سیدنا ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیر ی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ادب کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان بارگاہِ الہی میں حضوری کا خیال رکھے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا ترجمہ کنزالایمان ۔ اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ۔(پارہ ۲۸، سورہ التحریم آیت۶)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:مطلب یہ ہے کہ اپنے گھر والوں کو دین اور آداب سکھاؤ۔

مزید فرماتے ہیں حقیقت ادب یہ ہے کہ انسان میں اچھی عادات جمع ہوجائیں اور حضرت سیدنا عبداللہ بن مبار ک علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :ہمیں زیادہ علم کے مقابلے میں تھوڑے ادب کی زیادہ ضر ورت ہے۔(رسالہ قشیریہ باب الادب ص ۳۱۵)

شریعت مطہرہ میں ادب کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنے اخلاق و آداب کو استوار کرنے کی کوشش کرے، ہر مسلمان اپنی زندگی میں ایسے عمدہ و بہترین نمونے کا محتاج ہے، جس کے سانچے میں زندگی ڈھال كر اپنے اخلاق و آداب کو شریعت کے مطابق بناسکے۔

حضور صلی اللہ تعالٰیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے میرے رب نے اچھا ادب سکھایا۔‘‘ (الجامع الصغیر سیوطی ، باب الھمزہ الحدیث، ۳۱۰)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ادب سیکھنے اور سکھانے کا حکم دیا، اور ہمیں چاہیے کہ خود بھی اخلاق و ادب سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تعلیم دیں، زندگی کے ہر شعبہ میں ادب لازمی ہے وہ چاہے علم حاصل کرنا ہو یا دنیا یا دین کے کسی بھی شعبہ میں ہو، اخلاق و آداب لازمی ہیں۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں،:ولادین لمن لا ادب لہ ترجمہ : یعنی جو باادب نہیں اس کا کوئی دین نہیں، (فتاویٰ رضویہ ج ۲۸،ص ۱۵۹)

دین کے آداب کا بہت بڑا حصہ ہے اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

آداب کے متعلق امام محمد بن محمد غزالی علیہ الرحمۃ کا بہت ہی خوبصورت رسالہ ہے جس کا نام الادب فی الدین ہے یہ رسالہ عربی میں ہے اس کا ترجمہ دعوت اسلامی کے شعبے المدینہ العلمیہ نے کیا ہے جس کا نام آداب دین رکھا ہے، اس کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاق و آداب سیکھنے اور سکھانے کی توفیق دے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں