آج تک جس نے جو کچھ
بھی پایا وہ صرف ادب ہی کی وجہ سےپایا اور جو کچھ بھی کھویا وہ بے ادبی کی وجہ سے
ہی کھویا، شاید اسی وجہ سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ ”باادب با نصیب بے ادب بے نصیب“
شیطان نے بھی بے ادبی کی تھی یعنی حضرت آدم علیہ
السلام کی بے ادبی کی جب کہ یہ معلم الملکوت تھا یعنی فرشتوں کا
سردار ، یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس
قدر مقرب تھا مگر حکم الہی کی نافرمانی کی تو اس کی برسوں کی عبادت ختم ہوگئی اورہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوگیا
ہمیں بھی شیطان کے اس برے انجام سے ڈر جانا چاہیے اور جن جن کی اللہ پاک نے ادب کر نے کا حکم دیا ادب کرنا چاہیے، اور ادب کرنے سے تو ایمان جیسی
دولت بھی مل جاتی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ادب کرنے سے جادو گروں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی،
ہمیں انبیا کرام کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کی بھی عزت کرنی چاہیے۔
علما ہی تو دین اسلام
لوگوں تک پہنچاتے ہیں، بدقسمتی سے آج کل
ان کی عزت لوگوں کے دلوں سے ختم کی جارہی ہے یاد رکھیے علما ہی انبیا کے وارث ہیں،
ادب کرنے کی وجہ سے ہی ولایت کا درجہ بھی مل جاتا ہے۔
حضرت بشر حافی جو کہ
ولایت سے پہلے ایک شرابی تھے ، بس انہوں نے اللہ پاک کے نام کی یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تعظیم کی جس کی وجہ سے اللہ پاک نے ولایت کا
ایسا درجہ عطا فرمایا کہ جانور بھی آپ کی تعظیم کی خاطر راستے میں گوبر نہ کرتے
کیونکہ آپ رحمۃ اللہ
علیہ ننگے پاؤں ہوا کرتے تھے بزرگان دین کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان کی زندگیاں ادب سے بھری ہوتی ہیں،
اعلیٰ حضرت سادات کرام کا بے حد ادب فرماتے جب بھی سادات کرام کو کچھ پیش کرنا
ہوتا ڈبل حصہ عطا فرماتے، ہمیں بھی ان کی زندگی سے سیکھنا چاہیے ۔
اسلام میں مسجد کے آداب بھی سکھانا ہے ملفوظات
اعلیٰ حضرت میں مسجد کے اداب بیان کیے چند ایک
پیشِ خدمت ہے۔
مسجد میں دوڑنا یا
زور سے پاؤں رکھنا جس سے دھمک پیدا ہو،
منع ہے ۔
مسجد میں چھینک آئے تو
کوشش کریں آؤاز نہ نکلے حدیث پاک ہیں ہے ۔
مفہوم حدیث: اللہ
عزوجل کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد میں زور سے چھینک کو ناپسند فرماتے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں