با ادب با نصیب

Tue, 22 Sep , 2020
3 years ago

حكایت:

امام بخار ی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی شہرت اورقدر و منزلت سے طلبا خوب واقف ہیں، جب امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ جوامام ربانی (از آئمہ احناف) کے نام سے مشہور ہیں کی خدمت میں تعلیم کے لیے حاضر ہوئے تو آپ علیہ الرحمۃ کی طبیعت کو استاذ مکرم نے دیکھ کر فیصلہ فرمایا کہ بخاری تم بجائے فقہ، حدیث کا متن سیکھو، با ادب شاگرد با ادب سر جھکاتے ہوئے فقہ چھوڑ کر حدیث شریف پڑھنے لگ گئے، امام زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ استاد صاحب کے فرمان پر چلنے کی برکت ہے کہ آج امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی کتاب قرآن مجید کے بعد اول درجہ رکھتی ہے۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم ص ۵۵)

اس کارخانہ قدرت میں جس کو جو نعمتیں ملی آدب کی بنا پر ملی ہیں اور جو ادب سے محروم ہے حقیقتاً ایسا شخص ہر نعمت سے محروم ہے، کسی شاعر نے کہا:

ما وصل من وصل الابالحرمة وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ

یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب ، طالبِ علم کون، صفحہ ۵۵) شاید اسی وجہ سے یہ بات مشہور ہے کہ ”باادب بانصیب بے ادب بے نصیب“

استاد کا احترام کر نے کی برکت:

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایک مدرسے میں تشریف فرما تھے ، شاگرد بیٹھے ہوئے تھے سلسلہ درس و تدریس جاری تھا ،نہ جانے کیا خیال آیا کہ حکم دیا ایک اونٹ لایا جائے جب اونٹ آگیا شاگردوں سے فرمایا اسے کوٹھے(چھت) پرپہنچادو ، عجیب و غریب حکم سن کر طلبا ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ، بھلا اونٹ چھت پر کیسے چڑھ سکتا ہے؟سب سوچتے رہے لیکن دو طالبِ علم جن میں ایک کا نام یوسف اور دوسرے کا نام محمد ہے آگے بڑھے اونٹ کو رسیوں سے باندھ کر کھینچنا شروع کردیا۔

امام علیہ الرحمۃ نے دیکھا تو فرمایا بس اب چھوڑ دو اونٹ کو چھت پر چڑھانا مقصود نہیں تھا بلکہ میں تمہاری فرمانبرداری کا امتحان لینا چاہتا تھا۔شاباش ہے تمہاری ہمت پر اور آفرین ہے اس اطاعت اور فرمانبرداری پر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں اس اطاعت و فرمانبرداری کے بدلے علم و عزت عطا فرمائے اور پھر استاد کی دعا قبول ہوئی آج دنیا ان طالبِ علموں کو امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ (آداب استاد و شاگرد صفحہ۹)

ادب استاد ینی کا مجھے سرکار عطا کردو

دلوں جاں سے کروں ان کی اطاعت یارسول اللہ

(وسائل بخشش )

اطاعت سے بہتر کیا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ الحر مة خیر من الطاعة یعنی ادب و احترام کرنا اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔(راہِ علم ص ۲۹)

غرض یہ کہ ادب ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے، شرف انسانیت یہ ہے کہ انسان ادب کے زیور سے آراستہ ہو جس انسان میں ادب کا جوہر نہیں وہ انسان نما حیوان ہے۔

ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے پیارے بیٹے کوئی بھی عمل کرو وہ عمل ادب کے ساتھ کرو، اور اس انداز سے کرو کہ عمل آٹے میں نمک کے برابر ہو اور ادب آٹے جتنا ہو۔

(اسلامی آداب، صفحہ ۵۲)

جو ہے باادب وہ بڑا بانصیب ہے

جو ہے بے ادب وہ نہایت برا ہے

(وسائل بخشش مترجم، ص ۴۵۴)

طلبائے کرام کو چاہیے وہ ہر صورت میں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام بجالائیں اور ان تمام باتوں سے بچنے کی کوشش کریں جن سے بے ادبی کا اندیشہ ہو، یاد رکھیے جوطالبِ علم استاد کی بے ادبیاں کر تا ہے وہ کبھی بھی علم کی روح کو نہیں پاسکتا، اگر وہ بظاہر بہت بڑا عالم بن جائے تب بھی ایسی خطائیں کرجاتا ہے کہ وہ خود حیران رہ جاتا ہے کہ مجھ سے یہ خطائیں کیسے ہوگئیں، یہ سب استاد کی بے ادبی کا نتیجہ ہوتا ہے، جو طالب علم اپنے استاد اور دینی کتب کا ادب و احترام نہیں کرتا وہ علم کی روح سے محروم ہوجاتا ہے۔(حافظہ کمزور ہونے کی وجوہات ص ۱۹)

محفوظ س دا رکھنا شہا بے ادبوں سے

اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

اللہ عزوجل ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (وسائل بخشش مترجم )

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں