باادب بانصیب

Thu, 17 Sep , 2020
3 years ago

اسلام ایک روشن دین ہے، اس نے ہمیں ایک دوسرے کو پہچاننے اور ایک دوسرے کا ادب واحترام کرنے کا درس دیا ہے، اور ہمیں اپنے والدین، پیرو مرشد ، اساتذہ اور اسی طرح مقدس ہستیوں اور مقدس مقامات کی تعظیم کا درس دیا ہے، اور جو کوئی بھی ان ہستیوں کا ادب و احترام بجالایا وہ دنیا میں بھی سرخرو اور شادو آباد ہے اور آخرت میں بھی بلند درجوں  پر فائز ہوگا۔اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

آیت ِ مبارکہ :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ۔ تَرجَمۂ کنز الایمان: ۔ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔( سورہ حجرات پارہ ۲۶، آیت نمبر ۱،۔۲ )

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی معاملے میں سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے پیش قدمی نہ کرو اور اس جملے میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب اور فرمانبرداری کی طرف اشارہ ہے۔

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب چند شخصوں نے عید الاضحی کے دن سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں(حوالہ تفسیر عطائین)

اسی طرح متعدد احادیث میں ادب و احترام کے بارے میں روایات درج ہیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا۔

حدیث مبارکہ:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:برکت تمہارے اکابرین کے ساتھ ہے۔

اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ سفید بالوں والے مسلمان اور قرآن کے عالم کا احترام کیا جائے جو قرآن کے بارے میں غلو نہ کرتا ہو اور اس سے اعراض بھی نہ کرتا ہو نیز انصاف کرنے والے حکمران کا احترام کیا جائے۔( حوالہ الترغیب والترہیب جلد ۱)

اس حدیث مبارکہ میں بوڑھے مسلمان قرآن کے عالم اور انصاف کرنے والے حکمران کا ادب اور احترام کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ان کی تعظیم گویا اللہ عزوجل کی تعظیم ہے۔ادب اور احترام کے بارے میں بہت سارے اسلاف کرام کے واقعات موجود ہیں ، وہ ادب ہی کی وجہ سے ولایت کے اعلیٰ مقاموں پر فائز ہوئے۔

حضرتِ سیدنا بشر حافی رحمة اللہ علیہ توبہ سے قبل بہت بڑے شرابی تھے آپ ایک مر تبہ شراب کے نشے میں دھت کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک کاغذ پر نظر پڑی جس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا، آپ نے تعظیما اٹھالیا اور عطر لگا کر ایک بلند جگہ پر ادب سے رکھ دیا اسی رات ایک بزرگ نے خواب میں سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے جاؤ!بشر سے کہہ دو کہ تم نے میرے نام کو معطر کیا اور تعظیم کی ہم بھی تمہیں پاک کریں گے اسی طرح اس بزرگ نے ۳ ر ات یہی خواب دیکھا اور یہ بھی سنا کہ یہ پیغام بشر ہی کی طرف ہے جاؤ انہیں ہمارا پیغام دو، وہ بزرگ نکلے بشر حافی شراب کی محفل میں تھے، بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کو فرمانے لگے کہ: اللہ عزوجل کا پیغام لایا ہوں جب آپ کو یہ بات بتائی گئی تو اٹھے فورا ننگے پاؤں باہر تشریف لے آئے پیغام حق سن کر سچے دل سے توبہ کی اور بلند مقام پر پہنچے آپ مشاہدہ حق کے غلبہ سے ننگے پاؤں چلا کر تے اسی لیے حافی کے لقب سے مشہور ہوگئے۔(حوالہ تذکرہ الاولیا جز۱، ص ۴)

کروڑوں مالکیوں کے عظیم پیشوا حضرت سیدنا امام مالک علیہ الرحمۃ زبردست عاشق رسول تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ مدینہ پاک کی گلیوں میں ننگے پاؤں چلا کرتے تھے۔( الطبقات الکبریٰ الشعرنی جز ء اول)

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ گھوڑے پر نہیں چلتے مدینے شریف میں مدینہ کی گلیوں کی تعظیم کرتے اور فرماتے کہ اس مبارک زمین کو گھوڑے کے قدموں تلے روندوں جس میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں یعنی روضہ مبارکہ ہے۔

ہاں ہاں رہِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ

او پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے

اسی تعظیم اور عشق کا صلہ تھا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی رات ایسی نہیں گزری جس میں میں نے سرکار علیہ السلام کی زیارت نہ کی ہو۔ اور اللہ عزوجل نے آپ کو وقت کا بڑا محدث اور امام بنادیا۔(حوالہ ، عاشقانِ رسول کی 130حکایات)

حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں آواز بلند کرنے پر سختی سے منع کیا گیا ہے ۔ اللہ عزوجل نے پست آواز والوں کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ لہذا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے والدین پیرو مرشد اساتذہ کرام اور قرآن مجید سمیت دیگر دینی کتب کا ادب و احترام کرنا ضروری ہے، اسی ادب نے گناہگاروں کو ولایت کے مرتبے پرفائز کیا ہے۔

دعا ہے اللہ عزوجل ہمیں باداب بانصیب بنائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ادب استاد دینی کا مجھے آقا عطا کردو

دل و جان سے کروں ان کی اطاعت یارسول اللہ

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں