آج کل سود معاشرے میں بہت عام ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ یہ ایک سخت کبیرہ گناہ اور اللہ پاک کی ناراضگی کا باعث ہے جس کی مذمت قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی اور اگر یہ کہیں تو شاید جھوٹ نہ ہو کہ شرک کے بعد جس گناہ کی اتنی مذمت بیان کی گئی ہے وہ سود ہی ہے اور اتنے سخت احکامات کسی گناہ کے بھی نہیں بیان ہوئے، قرآن پاک میں اللہ پاک نے سود سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو اس سے بچو اور اگر تم اس سے باز نہ آؤ تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کا یقین کر لو۔

بے شک یہ بات تو ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے کہ جس سے اللہ اور اس کا رسول جنگ کریں تو وہ تباہ برباد ہی ہوگا، اتنے سخت احکام جس چیز کے بارے میں آئے آئیے اس کی تعریف بھی جان لیتے ہیں، سود کا مطلب ہے ایک چیز دے کر اس سے زیادہ وصول کرنا۔ آئیے سود کے بارے میں پانچ فرامین مصطفیٰ سن لیتے ہیں:

1۔ سود خور پر لعنت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود دینے والے، لینے والے اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت اور فرمایا وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1598)

2۔ سود زنا سے بھی سخت ہے: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔(مسند امام احمد، 8/223، حدیث: 62016)

3۔ شک و شبہ والی بات: سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(سنن ابن ماجہ، حدیث: 2276)

4۔ سود خور کا عذاب: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں، میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود خوار ہیں۔(ابن ماجہ، حدیث: 2273)

سود معاشرے کو تباہ کرنے والا گناہ ہے سود کی وجہ سے کاروبار ختم ہو جاتے ہیں، سود اللہ کی لعنت اور حضور ﷺ کی ناراضگی کا باعث ہے، لہٰذا ہمیں اس سے بچنا اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ نے قرآن پاک میں بارہا اس سے منع فرمایا ہے۔


سود کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔اللہ کی ناراضی کا سبب ہے۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اعلانِ جنگ ہے۔اللہ پاک  نے سود کو حرام قرار دیا ہے۔ جب ایک چیز جس کو اللہ پاک نے حرام قرار دیا ہے تو اس میں کس قدر نقصانات ہوں گے! سود کی مذمت اور حرمت قرآن و حدیث دونوں سے صراحتاً ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہوپھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کرلو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کااور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں”رِبا“ کہتے ہیں، جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا،پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے اور شرحِ سود (Interest Rate) سے مراد قرض کی رقم کا کرایا ہے جو قرض لینے والا ایک مقررہ مدت کے بعد قرض دینے والے کو بطورِ سود ادا کرنے کاپابند ہوتا ہے ۔اسے عام طور پر فیصد میں بیان کیا جاتا ہے۔ فقہا نے لکھا ہے:سود اس اضافے کو کہتے ہیں جو دو فریقوں میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ اور عوض سے خالی نہ ہو۔ (ہدایہ)

سود کی مذمت احادیث ِمبارکہ کی روشنی میں:کثیر احادیثِ مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے۔چنانچہ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

1-آپ ﷺ نے سود کو ہلاکت خیز عمل قرار دیا ہے: شہنشاہِ مدینہ،سرورِ قلب و سینہ ﷺ کا فرمانِ باقرینہ ہے:سات چیزوں سے بچو جو تباہ و برباد کرنے والی ہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ! وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:شرک کرنا،جادو کرنا،اُسے ناحق قتل کرنا جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا،سود کھانا،یتیم کا مال کھانا،جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن، شادی شدہ، مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔(بخاری،2/242، حدیث: 2766)

2- سود سے ساری بستی ہلاک ہوجاتی ہے:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ احمد مجتبیٰ،محمد مصطفٰے ﷺ نے فرمایا: جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص69)

3- سود سے پاگل پن پھیلتا ہے:نبیوں کے سلطان،سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے ۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص69)

4- سودخور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے آقا،شفیعِ روزِ شمار،دو عالم کے مالک و مختار، باذنِ پروردگار ﷺ فرماتے ہیں:شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے تھے)،جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔( ابنِ ماجہ،3،حدیث: 2273)

5- سودی کاروبار میں شرکت باعث لعنت ہے:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا:یہ سب (گناہ میں) میں برابر ہیں۔

(مسلم، ص862، حدیث:1598)

سود کے معاشرتی نقصانات:سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ کر دیتی ہے اور دولت و ثروت کے ارتکاز کا سبب بنتی ہے۔ کیونکہ اس سے ایک طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے اور تمام تر نقصانات دوسرے طبقے کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ یہ جو ہم سنتی ہیں کہ امیر غریب ملکوں میں دن بدن فاصلہ بڑھ رہا ہے تو اس کی ایک اہم وجہ سود ہے۔ آج کل یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ کاروبار میں ترقی نہیں ہورہی، دن بدن خسارے اور نقصان کا سامنا ہے، گھریلو اخراجات پورے نہیں ہو رہے،قرض پہ قرض لے کر گزارا ہو رہا ہے، اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے معاشی بحران کا سب سے بڑا سبب سود ہے ۔لوگ شعوری اور لاشعوری طور پر سودی معاملے کا شکار ہو کر دنیا میں معاشی تنزلی اور آخرت کے بدترین عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔

یقیناً مال اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعے انسان اللہ پاک کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجود خالقِ کائنات اللہ پاک اور تمام نبیوں کے سردار ﷺ نے مال کو متعدد مرتبہ فتنہ، دھوکے کا سامان اور محض زینت کی چیز قرار دیا ہے کہ روزِ قیامت ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ پاک کو جواب دینا ہو گا کہ کہاں سے کمایا؟ یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی؟خالقِ کائنات سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب کو مال کی محبت سے پاک رکھے اور ہمیں جائز اور حلال طریقے سے مال و دولت کے حصول کے لیے کوشش کرنے اور سود جیسے بدترین گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


سود کی تعریف:قرض پر نفع لینا سود ہے۔فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں: قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نِرا حرام ہے۔حدیث میں ہے: رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔(فتاویٰ رضویہ،17/713)

آج مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے مسلمانوں کو مختلف لالچ دے کر شرحِ سود کم کر کے سود پر قرض لینے پر اُکسایا جا رہا ہے۔ سود کی درخواست داخل کرنے پر قرعہ اندازی اور انعامات کا لالچ دیا جا رہا ہے۔لالچ نے لوگوں کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ وہ سودی لین دین اور سودی کاروبار میں پڑ گئے ہیں۔اگر اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ ناراض ہو گئے تو ایسے لوگ کیا کریں گے؟ قیامت کا عذاب کیسے برداشت کریں گے؟آئیے !سود کے بارے میں پیارے آقا ﷺ کے فرامین سنیے اور خود کو قبر و حشر کے عذاب سے ڈرایئے۔

1) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور سیدُ المرسلین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا:یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص862،حدیث: 1599)

2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا گناہ 73 درجے ہے، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ (مستدرک،2 /338، حدیث:2306)

3) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار بدکاری کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان،4 /395، حدیث:5523)

4)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص69)

5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سودخور ہیں۔( ابی ماجہ، 3/72،حدیث:2273)

آج ہمارے پیٹ میں اگر معمولی سا کیڑا چلا جائے تو طبیعت میں بَھو نچال آ جاتا ہے۔قیامت کا یہ سخت عذاب کیسے برداشت کریں گی؟ سود کھانے والے لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے کہ اس میں سانپ بھرے ہوں گے۔ کس قدر بھیانک عذاب ہے۔ اللہ پاک ہمیں سود کی آفت سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ النبی الامین 


سود کی تعریف:سود کو انگریزی میں intrest کہتے ہیں اور یہ معاشیات میں وہ ادائیگی intrest ہے جو قرض دار یا کوئی جمع بند کا مالیاتی ادارہ اصلی رقم پر بڑھا کر دے ۔معاشرتی برائیوں میں سے ایک عظیم تر بُرائی سود بھی ہے۔ہمارے معاشرے میں جس طرح دوسری خرافات کو فروغ ملا، اس طرح سودبھی عام ہو چکا ہے ۔یہ ایک بھیانک بُرائی ہے جو ہمارے معاشرے میں پھیلی جارہی ہے۔

قرآنِ کریم میں سود کی حرمت کابیان :سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مر دود الشہادۃ ہے(یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔)

اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں اس کی بھر پور مذمت فرمائی ہے۔چنانچہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 275 میں ہے:اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللہ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-ترجمہ کنز الایمان :وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیاہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے۔

کثیر احادیثِ مبارکہ میں بھی سود کی حرمت و بھر پور مذمت فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ

ہلاکت خیز سات چیزیں:شہنشاہِ مدینہ ، سرورِ قلب و سینہ ﷺ کا فرمانِ باقرینہ ہے:سات چیزوں سے بچو جو تباہ و برباد کرنے والی ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی:یا رسول الله ﷺ! وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:شرک کرنا ،جادو کرنا، اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا ہے،سود کھانا،یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن ، شادی شدہ، مومن عور توں پر تہمت لگانا۔ (بخاری،2/242 ،حدیث:2766 )

سودسے ساری بستی ہلاک ہو جاتی ہے:حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الكبائر للذهبی، ص69)

سود سے پاگل پن پھیلتا ہے:نبیوں کے سلطان ، سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے :جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔) کتاب الکبائر للذهبی،ص 70)

سود خور کے پیٹ میں سانپ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے آقا ﷺ فرماتے ہیں: شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا، جن کے پیٹ کمروں کی طرح ( بڑے بڑے) تھے،جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جارہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے عرض کی : یہ سود خور ہیں۔(ابنِ ماجہ، 3/72، حدیث: 2273)

آ ہ!صد کروڑ آہ! آج ہمارے پیٹ میں اگر معمولی سا کیڑا چلا جائے تو طبیعت میں بھونچال آ جاتا ہے۔قیامت کا یہ سخت عذاب کیسے برداشت کریں گی ؟ سود کھانے والے لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے جیسا کہ کسی مکان کے کمرے ہوں۔ان میں سانپ ہوں گے۔کس قدر بھیانک عذاب ہے۔اللہ پاک ہم سب کو سود کی آفت سے محفوظ فرمائے۔

سودی کاروبار میں شرکت باعثِ لعنت ہے:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ا للہ کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے ،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: یہ سب ( گناہ میں ) برابر ہیں۔(ابنِ ماجہ،3/72، حدیث:2273)

اے سودی کھاتے لکھنے اور سود پر گواہ بننے والو ! دیکھو کس قدر وعید مروی ہے۔سود کھانا اپنی ماں سے بدکاری کرنے جیسا ہے۔نعوذ بااللہ۔ اللہ پاک ہمیں اس بھیانک بُرائی سے محفوظ فرمائے ۔آمین


آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرضِ حسن جو بغیر سود کے ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے۔دولت والے کسی کو بغیر نفع کے روپیہ دینا نہیں چاہتے اور اہلِ حاجت اپنی حاجت کے سامنے اِس کا لحاظ نہیں کرتے کہ سود لینے میں آخرت میں کتنا بڑا عذاب ہے۔شریعتِ مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا اِسی طرح سود دینا بھی حرام کیا ہے۔حدیثوں میں دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ دونوں برابر ہیں۔قرآنِ کریم میں بھی سود کی حرمت پر بہت سی آیات وارد ہوئی ہیں۔

سود کی تعریف:لین دَین کے کسی مُعَامَلے میں جب دونوں طرف مال ہو۔ایک طرف زیادتی ہو اور اُس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو تو یہ سُود ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات،ص83)پارہ03،سورۂ بقرہ،آیت نمبر 275میں اللہ پاک فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔

فرامینِ مصطفٰے:

1)رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے،سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا:وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں ۔(مسلم، حدیث:1599)

2)سود کا ایک درہم جو آدمی کو مِلتا ہے اُس کے 36بار بدکاری کرنے سے زیادہ بُرا ہے ۔(شعب الایمان،حدیث:5523)

3)سود سے اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہو گیا۔(مسندامام احمد ،حدیث: 3754)

4)سود کا گناہ 73درجے ہے اُن میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔(مستدرک، حدیث:2304)

5)اللہ پاک سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے،نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتےداروں سے حُسنِ سلوک۔(تفسیر قرطبی،الجزء الثالث، 2/274)

سود کے معاشرتی نقصانات: احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سود کس قدر تباہ کن ہے کہ سود لینے اور دینے والا اللہ پاک ،اس کے فرشتوں،اس کے نبیوں اور اس کے نیک بندوں کی لعنتوں میں گرفتار ہو جاتا ہے اور رسوائیوں ،ناکامیوں اور ذلتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

سود سے بچنے کا درس:سود ایک بُری صفت ہے اور ہلاکت کا باعث ہے ۔ہمیں ہر حال میں اس سے بچتے رہنا چاہیے۔سود کے عذابات اور دنیاوی نقصانات کو پڑھتے،سنتے رہنا چاہیے ۔بعض اوقات سود سے بچنے کا ذہن بھی ہوتا ہے ،مگر علمِ دین کی کمی کی وجہ سے آدمی سود میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس لیے سود سے متعلق مزید معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ سود اور اس کا علاج کا مطالعہ فرمائیے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ سود سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی بُرائیوں میں سےایک بُرائی سود بھی ہے۔سود انتہائی مذموم چیز ہے۔ اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ مگر افسوس!سود کا لین دین ہمارے معاشرے میں عام ہے۔

سود کی تعریف:عقد ِمعاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف کچھ نہ ہو تو یہ سود ہے۔ (بہارِ شریعت ،2/769،حصہ:11) مثلاً جو چیز ناپ تول سے بکتی ہو جب اس کو اپنی جنس سے بدلا جائے مثلاًگندم کے بدلے میں گندم اور ایک طرف زیادہ ہو تو حرام ہے۔

قرآنِ پاک کی روشنی میں :

لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ: دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ۔ اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔(تفسیر صراط الجنان،2/51)

سود سے متعلق فرامینِ مصطفٰے:

1-سود سے پاگل پن پھیلتا ہے:جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتاہے۔(کتاب الکبائرللذہبی ، ص70)

2-پیٹوں میں سانپ: ️شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر کی طرح(بڑے بڑے)ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔میں نےپوچھا:جبریل!یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے کہا:یہ سود خور ہیں۔(ابنِ ماجہ،3/72،حدیث: 2273)

3-سود لینے دینے والے پر لعنت:️آپﷺ️ نے سود لینے والے اور دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا:وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔(مسلم،ص 862، حدیث:١٥٩٧)

4-سود سے ساری بستی ہلاک:جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی، ص69)

5-بروزِ قیامت سود خور کی حالت:️قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ مَخْبُوطُ الْحَوَاس ہوگا۔(معجم کبیر،1 /60،حدیث: 110)یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہوکر اُسے دیوانہ کردے۔

سود کے چند معاشرتی نقصانات:سود کی وجہ سے انڈسٹری برباد ہوجاتی اور تجارت ختم ہوجاتی ہے ۔جس کی وجہ سے بیروزگاری بڑھتی اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔سود ادا نہ کرنے کی صورت میں ذلت کا سامنا کرنا پڑتا۔غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے ۔

توبہ کرلیجئے:اے عاشقانِ رسول !️ ان وعیدوں سے ڈر جائیے اور اگر کبھی سود کا معاملہ کیا ہے تو سانس بعد میں لیجیئے پہلے توبہ کرلیجیئے اور توبہ کے تقاضے پورے کیجیے۔ اللہ پاک ہمیں سود سمیت تمام ظاہری و باطنی گناہوں سے محفوظ فرمائے ۔آمین

نوٹ: سود سے متعلق معلومات کے لیے رسالہ ”سود اور اس کا علاج“ کا مطالعہ فرمائیے۔


سود ایک بہت بُرا کام ہے کہ اس کے ہر معاملے میں یعنی دینے والا، لینے والا، دلوانے والا، لکھ کر دینے والا ، حتی کہ ساتھ جانے والا سب کے  سخت عذاب کے حق دار ہیں اور ان یعنی سودیوں پر ہمارے پیارے آخری نبی ﷺ نے لعنت بھی کی ہے۔جو سود کے کسی بھی معاملے میں شریک ہوں وہ سخت عذابِ نار کے حق دار ہے۔ سود جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔سود سے وقتی طور پرتو مال بڑھتا ہے لیکن اصل میں وہ اللہ (پاک ) کے نزدیک کسی کام کا نہیں ہوتا اوراُس مال کی الله کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔لہٰذا ہمیں ہر موقع پر سود لینے دینے سے بچنا چاہیے۔ سود کا گناہ بدکاری کرنے سے بھی بدتر ہے، بلکہ اس کا ستر حصہ گناہ ہے، سب سے کم درجہ گناہ ماں سے بدکاری کرنا ہے۔ قرآنِ پاک کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 275اور 276 میں ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔

ایک اور جگہ ارشاد باری ہے: وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(۳۹) (پ 21، الروم:39)ترجمہ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انہیں کے دونے ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سود کا مال کس قدر ناقابلِ استعمال ہے کہ اس سے جو کاروبار کیا جاتا ہے وہ بھی کسی فائدے کا حامل نہیں ہوتا بلکہ اُلٹا عذاب کا باعث بنتا ہے۔ اگر سود کے مال سے کسی نے زکوٰۃ ادا کر بھی دی تو وہ مال کو ضائع کرنا ہے۔ کیوں کہ سود کا مال حرام ہوتا ہے اور حرام مال سے صدقہ و خیرات ، زکوٰۃ وغیرہ ادا نہیں ہوتے۔ اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی سود کے متعلق و عدیں آئی ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:

حدیثِ مبارکہ: امام احمد ودارقطنی عبد الله بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ سے روای ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا : سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔(مسند امام احمد، 8 / 223 ، حدیث:22)ایک اور حدیثِ مبارکہ: ابنِ ماجہ و بیہقی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی کہ نبی پاکﷺ نے فرمایا: سود کا گناہ ستر حصہ ہے،ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے۔( ابنِ ماجہ،3 / 72،حدیث : 2274)

حدیثِ مبارکہ: مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ہمارے نبی ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کا غذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا: وہ سب(گناہ میں) برابر ہیں ۔(مسلم، ص 862، حدیث : 1597)

استغفر الله !سود لینے دینے والے پر کس قدر عذاب الٰہی ہوگا۔ یہاں سود یوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اُن کے لیے نصیحت بھی ہے کہ سودیوں پر ہمارے پیارے آقاﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔یقیناً سود حرامِ قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادہ ہے۔آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرضِ حسن یعنی بغیرنفع روپیہ نہیں دینا چاہتے اور اہلِ حاجت اپنی حاجت کے سامنے اس کا لحاظ بھی نہیں کرتے کہ سودی روپیہ لینے میں آخرت کا کتنا بڑا عذاب ہے۔ اس سےبچنے کی کوشش کی جائے ۔

سود کی تعریف : فقہا نے لکھا کہ سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔ (ہدایہ)ہمیں اللہ پاک سے عافیت کی دعا کرنی چاہیے اور سودی روپے سے خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس سے بچانا چاہیے ۔ یقیناً سود بہت بُری چیز اور جہنم میں لے جانے کا باعث بھی ہے ۔


سود حرامِ قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر یعنی حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔

سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف سے زیادتی ہو کہ اس کے مقابل یعنی بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔ اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو فائدہ حاصل ہو وہ بھی سود ہے۔ (بہارِ شریعت، 2 / 769،حصہ:11)

1-فرمانِ مصطفٰے ﷺ :آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمینِ مقدس میں لے گئے ۔پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے۔ یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر اس زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا۔ پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے،لیکن کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہی لوٹا دیتا ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ کہا: یہ شخص جو نہر میں ہے سودخور ہے۔(بخاری، ص 543، حدیث: 2085)

2-امام احمد، ابو داؤد، نسائی ،ابنِ ماجہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے یعنی سود دے گا یا اس کی گواہی دے گا، دستاویز لکھے گا یا سودی روپیہ کسی کو دلانے کی کوشش کرے گا یا سود خور کے یہاں دعوت کھائے گا یا اس کا ہدیہ قبول کرے گا۔(ابو داؤد، 2/ 331، حدیث: 3331)

3-امام احمد ،ابنِ ماجہ،بیہقی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(بخاری، 2 / 14-15، حدیث: 2080)

4-حضور ﷺ نے فرمایا :اُدھارمیں سود ہے۔ایک روایت میں ہے:دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو۔(مسلم، حدیث:1584)

5-امام احمد و دارِقطنی عبداللہ بن حنظلہ غسیلُ الملائکہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے ۔ (مسندامام احمد، حدیث: 22016)

دینِ اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے خلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- (پ 3، البقرۃ: 275)ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود۔لہٰذا مسلمانوں کو سود سے بچنا چاہیے ۔مال کی حرص اور فضول خرچی کی وجہ سے لوگ سود جیسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔انہیں اس سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کرنی چاہیے اور لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کر کے موت کو کثرت سے یاد کرنا چاہیے۔سود کے عذابات اور اس کے دنیاوی نقصانات کو پڑھنا چاہیے۔ بے شک دنیا اور آخرت سود کی وجہ سے برباد ہوتے ہیں۔ اللہ پاک سب مسلمانوں کو اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


سود ایک حرام کام ہے۔ لوگ چند پیسوں کی خاطر اپنی دنیاو آخرت تباہ کر بیٹھتے ہیں۔قرآن وحدیث میں سود کی مذمت کے بارے میں واضع طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ سود سے منع کیا گیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس حرام کام سے بچیں ۔ جو اس کی حرمت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ سود دینے والا اور لینے والے دونوں جہنم کے حق دار ہوں گے۔سود کی مذمت کے بارے میں قرآنِ مجید میں آیتِ مبارکہ ہے ۔الله پاک  ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: جو کچھ تم نے سود پر دیا کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے ، وہ الله پاک کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو کچھ تم نے زکوٰۃ دی جس سے اللہ پاک کی خوشنودی چاہتے ہو، وہ اپنا مال دونا کرنے والے ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتی ہیں کہ جو ہم اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں بظاہر وه مال بڑھتا ہے،لیکن اللہ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ کیونکہ سود کا مال حرام ہوتا ہے۔دنیا میں تو اس مال کا فائدہ ملتا ہے لیکن آخرت میں وہی مال عذاب کا باعث بنے گا۔

سود کے متعلق فرامینِ مصطفٰے:

1-امام بخاری اپنی صحیح میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے راوی، حضور اقدس ﷺ نےفرمایا : آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمینِ مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے۔پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے۔ یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے ۔ یہ کنارےکی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ا س زور سے اس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا ۔پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ میں پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے ۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : یہ کون شخص ہے؟ کہا :یہ شخص جو نہر میں ہے ،سود خوار ہے۔(بخاری،حدیث:2085)

2- مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اُس کی گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا :وہ سب (گناہ میں)برابر ہیں۔(مسلم ، ص955، حدیث:4093)

3-امام احمدودارقطنی عبدالله بن حنظلہ غسیلُ الملائکہ رضی الله عنہ سے راوی کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے ۔ (مسند احمد،حدیث: 22016)

4-ابنِ ماجہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا : سود کا گناہ ستر حصہ ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔(ابنِ ماجہ،حدیث: 2274)

5-امام احمد و ابنِ ماجہ و بیہقی عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:( سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا ۔(مسند احمد،2/50،حدیث:3754)


سود کی مذمت:سود حرامِ قطعی ہے۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہےاور جو کوئی حرام سمجھ کر اس کا مرتکب ہے فاسق و مردودالشھادة ہے۔

سود کی تعریف:لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہارشریعت،حصہ:2،ص769)

سود کی مذمت پر احادیث:

1-نبیِ کریمﷺنے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح(بڑے بڑے)ہیں۔ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔میں نے پوچھا :اے جبرائیل!یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے کہا:یہ سود خور ہیں۔ (بہارِشریعت،حصہ2،ص768)

2-رسول اللہﷺنے فرمایا:جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائرللذہبی ،ص69)

3-رسول اللہﷺنے فرمایا:سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے سخت ہے۔ (مسندامام احمد، 8/223 ، رقم:22016)

4-مسلم شریف میں حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہﷺنے سود لینے والےاور سود دینے والےاور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔(بہارِ شریعت،حصہ2،ص767)

5-رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ سود کا گناہ ستر حصے ہے ،ان میں سب سے کم درجہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔( بہارِ شریعت ، حصہ 2 ، ص 767)

سود کے چند معاشرتی نقصانات:سود خوار لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہےاور دھوکے باز کہلاتا ہے۔ لوگ ایسے انسان سے کنارہ کشی کرتے ہیں ۔ اس کی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی تباہی کی طرف چلی جا رہی ہوتی ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:سود سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کی جائے۔لمبی اُمیدوں سے کنارہ کشی کی جائے۔ سود کے دنیاوی اور اُخروی نقصانات کی طرف نظر کریں اور اللہ پاک سے رزقِ حلال کی دعا کیا کریں۔ اللہ پاک ہمیں سود جیسے گناہ اور اس کے تباہ کن نتائج سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنا فرمانبردار بنائے۔ آمین


سود حرامِ قطعی ہے۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہے۔ جو شخص اس کو حرام سمجھتے ہوئے اس حرام کام کا ارتکاب کرے تو وہ فاسق ہے۔ سود کا لین دین حرام ہے ۔انسان چند پیسوں کی خاطر اپنی دنیا و آخرت تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی مذمت کا بیان ہے ۔

سود کی تعریف: عقدِ معاوضہ(یعنی لین دین کے کسی مُعَامَلے) میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل (بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہارِ شریعت، 2/769، حصہ: 11)

سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفٰے:

1- حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار بدکاری کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، 4/395 ،حدیث: 5523)

2- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اللہ پاک سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے،نہ حج،نہ جہاد،نہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک ۔ (تفسیرِ قرطبی)

3-حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا گناہ 73 درجے ہے۔ ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ (مستدرک، حدیث: 2304)

4-رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو،مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہو گا۔(مسند،2/50،حدیث: 3754)

5- مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے سود دینے والے،لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا :وہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔ (مسلم ،حدیث: 1598)

سود کے چند معاشرتی نقصان:

آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرضِ حسن جو بغیر سودی ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے۔ لوگ اپنی وسعت سے زیادہ خرچ کرنا چاہتے اور سود کی آفت میں خود کو مبتلا کرتے ہیں۔ مال کا لالچ اور فضول خرچی جیسی آفات معاشرے میں سود کی بدولت ہی ہیں۔

سود سے بچنے کی ترغیب: شریعتِ مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا ،سود دینا بھی حرام فرمایا اور فرمایا کہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ ہر مسلمان کو اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ پر ایمان رکھتے ہوئے حرام کاموں سے بچنا چاہیے۔ سود کے عذابات پر غور کرنا چاہیے کہ یہ کس قدر تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے رسول ﷺ کے صدقے ان حرام کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین


 سود کی مذمت: آج کل لوگ چند پیسوں کی خاطر سود جیسے حرام فعل کو فخر سے اپناتے ہیں،جبکہ سود جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ اللہ نے بہت سی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، انہی میں ایک سود ہے۔ الله پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کی تعریف: عقد ِمعاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اورایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو سود ہے ۔ (بہارِ شریعت، 2 / 768، حصہ 11)

سود کا حکم:ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے۔ اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق، مردود الشہادہ ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں سود کی مذمت :احادیثِ مبارکہ میں بھی سود کی مذمت بیان کی گئی ہے۔جن میں سے چند احادیثِ مبارکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں:

1- ابنِ ماجہ و دارمی امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ فرمایا :سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کا شبہ ہو ، اُسے بھی چھوڑ دو۔

2-مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سودکا کاغذ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب (گناہ میں)برابر ہیں۔

3- امام احمد وابنِ ماجہ وبیہقی عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:(سود سے بظاہر)اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔

4-ابنِ ماجہ و بیہقی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی: رسول الله ﷺ نے فرمایا: سود کا گناہ سترحصہ ہے ،ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے۔

5-صحیحین میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ، نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اُدھار میں سود ہے۔ایک روایت میں ہے:دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو ۔(بہارِ شریعت، جلد2،حصہ: 11)