آج کل جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی سا فعل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ مذموم امر ہے اور قرآن وحدیث میں بھی اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔

تفسیر: یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (تفسیر مدارک، ص623) ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی مُمانعت کی گئی ہے۔ (تفسیرقرطبی، 5 / 187)

آئیے کچھ احادیث ملاحظہ کیجئے اور اس مذموم صفت سے خود کو بچائیے:

احادیث مبارکہ:

1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابنِ ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)

2۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)

3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر) جہنم (کا عذاب) واجب کر لیا۔ (معجم کبیر، 11/ 172، حدیث: 11541)

4۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبریٰ، 6/ 136، حدیث: 11444)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں جھوٹی گواہی سے بچنے اور احکاماتِ اسلامیہ کے مطابق شب و روز بسر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ