نوکر و ملازم
کے حقوق از ام الخیر، فیضان عائشہ صدیقہ مظفر پور سیالکوٹ
اللہ پاک نے اس دنیا کا نظام ہی اس طرح بنایا ہے کہ
ایک شخص متبوع head
ہوتا ہے اور دوسرا اس کے تابع، ایک شخص مالدار ہوتا ہے اور دوسرا فقیر، ہر شخص ایک
دوسرے کا محتاج ہوتا ہے اگر دنیا میں صرف صاحبِ ثروت ہوتے تو ان کی خدمت کون کرتا
اگر دنیا میں صرف غریب ہوتے تو ان کی معاشی ضرویات کیسے پوری ہوتیں، اس لیے مالکان
اور دوسرے ملازم کہلاتے ہیں مالک اور ملازم کا ایک ایسا رشتہ ہے جس کی تاریخ قدیم
ہوتی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نےبھی حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس آٹھ یا دس
سال تک ملازمت کی، جب یہ رشتہ اس قدر اہم ہے اور جانبین کے ہاں اس کی حقیقت مسلم
ہے تو ضروری ہے کہ یہ تعلق جتنا خوشگوار ہوگا اتنا ہی فریقین کی حاجات کی تکمیل
ہوگی۔
حقوق:
1۔ عزت وتکریم کا معاملہ کرنا: کمپنی اور
ادارے کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ اپنے ملازم کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کرے کسی
بھی قسم کی بے عزتی سے گریز کرے، عزت نفس کو مجروح نہ کرے کیونکہ انسان ایک قابل
احترام ذات ہے۔
2۔ کام کے لیے مطلوب ماحول فراہم کرنا: ملازم
کو دوران ملازمت ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اس کے کام کی نوعیت کے حساب سے بھی
مناسب ہو اور صحت بھی متاثر نہ ہو، مثلاً کمروں کا ماحول ہوا دار ہو، روشنی کا
معقول انتظام ہو، تحقیق و سرچ کا کام ہو تو خاموشی کا ماحول ہو وغیرہ۔ اس سے
کارگردگی کافی حد تک بڑھ جائے گی۔
اللہ کریم ہمیں احسن انداز میں ہر ایک کے حقوق ادا
کرنے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین