خود غرضی ایک
ایسی منفی صفت ہے جو نہ صرف انسان کی شخصیت کو داغدار کرتی ہے بلکہ اس کے تعلقات
اور سماجی حیثیت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ خود غرض انسان صرف اپنے مفاد کو مقدم رکھتا
ہے اور دوسروں کے احساسات، مشکلات یا حقوق کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ ہر بات میں
اپنا فائدہ تلاش کرتا ہے چاہے اس کی قیمت کسی دوسرے کے نقصان کی صورت میں کیوں نہ
چکانی پڑے۔
ایسے لوگ وقتی
طور پر کامیاب نظر آ سکتے ہیں مگر دیرپا کامیابی اور حقیقی خوشی ان کے نصیب میں
نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو رشتے صرف مفاد پر مبنی ہوں، وہ جلد یا بدیر ٹوٹ جاتے ہیں۔
معاشرہ ایسے افراد کو خود سے الگ کر دیتا ہے، اور وہ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
خود غرضی سے
بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان دوسروں کے لیے بھی وہی سوچے جو وہ اپنے لیے
پسند کرتا ہے۔ قربانی، ایثار، اور ہمدردی جیسے جذبات کو اپنانا ہی ایک خوشحال اور
متوازن زندگی کی بنیاد ہے۔
انسان فطری
طور پر سماجی مخلوق ہے جس کی زندگی رشتوں، تعلقات اور باہمی تعاون پر قائم ہوتی
ہے۔ لیکن جب خود غرضی دل میں گھر کر لیتی ہےتو یہی خوبصورت رشتے مفادات کی بھینٹ
چڑھ جاتے ہیں۔ خود غرضی وہ زہر ہے جو محبت، خلوص اور ایثار جیسے جذبات کو آہستہ
آہستہ ختم کر دیتا ہے۔
خود غرض شخص
صرف اپنی سوچتا ہے۔ اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کے فیصلے یا اعمال دوسروں
پر کیا اثر ڈالیں گے۔ وہ دوسروں کے جذبات کو کچل کر آگے بڑھنے میں فخر محسوس کرتا
ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ یہ راستہ آخرکار تنہائی، ندامت اور بے سکونی کی طرف جاتا
ہے۔
معاشرے میں
خود غرضی مختلف وجوہات کی وجہ سے ہو سکتی ہے جیسے کہ عدم تحفظ،کمزور خود اعتمادی
یا دوسروں کے ساتھ ناقص تعلقات وغیرہ۔تاہم یہ ایک منفی کیفیت ہے جو تعلقات کو
نقصان پہنچاتی ہے اور معاشرے میں عدم استحکام پیدا کرتی ہے۔
اسلامی
تعلیمات میں ایثار و قربانی کی بہت اہمیت ہے۔ قرآن و حدیث میں بار بار دوسرے
انسانوں کا خیال رکھنے ان کی مدد کرنے اور اپنے مفاد پر دوسروں کو ترجیح دینے کی
تلقین کی گئی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب
تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(بخاری، 1/16، حدیث: 13)
لہٰذا اگر ہم
ایک بہتر، پرامن اور محبت بھرا معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں خود غرضی کو ترک کر کے
ایثار، ہمدردی اور خلوص کو اپنانا ہوگا۔ یہی وہ روشنی ہے جو اندھیروں میں بھی
راستہ دکھاتی ہے۔
خود غرض لوگ
دوسروں کی پرواہ نہیں کرتے اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جو ان کے
تعلقات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
خود غرضی ایک
ایسا لفظ جو بظاہر مختصر ہے مگر اپنے اندر ایک دنیا سمائے ہوئے ہے۔ یہ وہ خاموش
وبا ہے جو آہستہ آہستہ دلوں کو تنگ کر دیتی ہے، رشتوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے اور
سماج کی بنیادوں میں دراڑیں ڈال دیتی ہے۔ خود غرضی انسان کی فطری خوبیوں جیسے
ہمدردی، محبت، اور خلوص کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
آج کا انسان چاند پر پہنچ چکا ہے مگر دل کی وسعت
میں تنگ دلی کا شکار ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بے خبر
ہیں۔ ہم دوسروں کی مسکراہٹوں میں خوشی تلاش کرنے کے بجائے صرف اپنی کامیابی کو ہی
سب کچھ سمجھنے لگے ہیں، یہی خود غرضی ہے۔ جب ہم دوسروں کی تکلیف کو نظرانداز کر کے
صرف اپنے فائدے کی فکر کرتے ہیں۔
خود غرضی کے
پیچھے اکثر خوف، عدمِ تحفظ یا خواہشات کی شدت چھپی ہوتی ہے۔ مگر انسان کو یہ یاد
رکھنا چاہیے کہ وقتی فائدہ دیرپا سکون کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ وہ شخص جو صرف
اپنا سوچتا ہے وہ شاید دنیا جیت لے مگر دل ہار دیتا ہے۔
جب انسان
دوسروں کے لیے جیتا ہے تب ہی اصل زندگی کا مزہ ہے۔ ایثار، قربانی اور ہمدردی سے
جُڑی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ اگر ہر فرد دوسروں کی بھلائی کا سوچے تو یہ دنیا جنت
کا منظر پیش کرے۔
تو آئیے خود
غرضی کے اندھیروں سے نکل کر انسانیت کے اُجالوں کی طرف بڑھیں۔ کیونکہ سچی خوشی
دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے میں ہے۔
اللہ سے دعا
ہے کہ ہمیں خود غرضی جیسی مہلک بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین