بلاشبہ سود اسلام میں قطعی حرام ہے، کیونکہ یہ ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال،مفت خوری،حرص و طمع،خود غرضی،تنگ دستی،سنگ دلی،مفاد پرستی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں،بلکہ معاشی و اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے۔آج کل معاشرے میں سود کی مختلف صورتیں مختلف ناموں سے رائج ہیں، شرعی احکام سے ناواقف آدمی کسی نہ کسی درجہ میں ان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جو لوگ ممانعت کے با وجود بھی سود جیسا قبیح عمل کرتے ہیں تو ان کے لیے اس عمل پر قہر و غضب کے اظہار کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے اعلان جنگ کیا ہے۔

سود کی تعریف: سود کو عربی زبان میں "ربا" کہتے ہیں جس کا لغوی معنی ہے بڑھانا،اضافہ ہونا،بلند ہونا۔ اور شرعی اصطلاح میں سود کی تعریف یہ ہےکہ قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی (ناپ کر بیچی جانے والی) یا وزنی (تول کر بیچی جانے والی) چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو،مثلا رقم کے عوض رقم لینا،جیسے سو روپے کسی کو قرض دیا اور دیتے وقت یہ شرط لگائی کہ سو سے زائد مثلا دو سو روپے دینے ہوں گے یا قرض دے کر اس سے مزید کوئی فائدہ لینا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب کسی بستی میں زنا اور سودپھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69)

2۔ حضور سید المرسلین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1599)

3۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/395، حدیث: 5523)

4۔ سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)

5۔ ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے ہیں۔(ابن ماجہ،3/71، حدیث: 2273)

سود کے معاشرتی نقصانات: یہ سود ہی کی نحوست ہے کہ ملک سے تجارت کا دیوالیہ نکل جاتا ہے، ظاہر ہے کہ دولت چند اداروں ہی میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور تجارت جس دولت کے ذریعے ہوتی ہے جب چند اداروں ہی تک محدود ہو جائے گی تو معیشت کی گاڑی کا پہیہ بھی رک جائے گا۔ سود کی نحوست سے جب انڈسٹری برباد ہو جاتی ہے تو تجارت ختم ہو جاتی ہے اور اس طرح بے روزگاری بڑھتی ہے جب بے روزگاری بڑھتی ہے تو جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے، کارخانے تو بند ہو جاتے ہیں مگر لوگوں کی ضرورتیں بند نہیں ہوتیں بلکہ وہ اب بھی ان سے لگی ہوتی ہیں۔ سود خور کو لوگ برا جانتے ہیں اسے فاسق و فاجر کہتے ہیں، اس کے پاس اپنی امانتیں نہیں رکھواتے، سود خور کے ہاتھوں جو غربا و فقرا برباد ہوتے ہیں اور جن سے سود وصول کرنے میں یہ سختی کرتا ہے یقینا ان کی بد دعاؤں کا شکار ہو جاتا ہے، سود خور گھر کے گھر تباہ و برباد کرتا ہے، سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے اور مال کی محبت میں دیوانہ وار گھومتا ہے، صدقہ و خیرات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تاکہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔

سود سے بچنے کی ترغیب: قرآنی آیات اور بے شمار احادیث میں سود کے متعلق وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ اے کاش! ہمارے پیش نظر موت کا تصور ہو جائے اور اس دنیا کی عارضی زندگی میں ہمیں مدنی سوچ نصیب ہو جائے۔ اے کاش مال جمع کرنے کی ہوس ہم سب کے دلوں سے نکل جائے، اس مال و دنیا کی محبت نے ہمیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور ہمارا معاشرہ اس مال کی محبت میں سود جیسی لعنت میں مبتلا ہو گیا ہے اور اس میں یقیناً نقصان ہی نقصان ہے، جہاں تک ہو سکے سودی کاروبار سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ سود کا یہی بڑا علاج ہے کہ موت کو ہر دم یاد رکھا جائے۔

ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے

یاد رکھ ہر آن آخر موت ہے بن تو مت انجان آخر موت ہے

مرتے جاتے ہیں ہزاروں آدمی عاقل و نادان آخر موت ہے


آج کل جس طرح حرام روزی اور سود کا ارتکاب کیا جاتا ہے کسی پر پوشیدہ نہیں، سود قطعی حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (البقرۃ: 276) ترجمہ کنز الایمان: اللہ پاک ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔

تفسیر: اللہ پاک سود کو مٹاتا ہے اور سود خور کو برکت سے محروم کرتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک۔(صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ: 276)

سود کی تعریف: سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا اور شرعی اصطلاح میں ربا یعنی سود کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا۔

حدیث مبارکہ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔

سود کا حکم: سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی)

احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت:

کثیر احادیث مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے، چنانچہ

1۔سود سے ساری بستی ہلاک ہو جاتی ہے: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 15)

2۔ سودی کاروبار میں شرکت باعث لعنت ہے: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ (گناہ میں) برابر ہیں۔(سود اور اس کا علاج،ص 17)

3۔ سود خوری سے پاگل پن پھیلتا ہے: نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 16)

4۔ سود کھانا اپنی ماں سے زنا کرنا: آقا ﷺ کا فرمان ہے: بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ ایک روایت میں سرکار دو عالم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سود اور اس کا علاج، ص 17-18)

5۔سود خور کے پیٹ میں سانپ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جارہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔(سود اور اس کا علاج، ص 16)

یہ سود ہی کی نحوست ہے کہ ملک سے تجارت کا دیوالیہ نکل جاتا ہے، ظاہر ہے کہ دولت چند اداروں ہی میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور تجارت جس دولت کے ذریعے ہوتی ہے جب چند اداروں ہی تک محدود ہو جائے گی تو معیشت کی گاڑی کا پہیہ بھی رک جائے گا۔

جرائم کا اضافہ: سود کی نحوست سے انڈسٹری ختم ہو جاتی ہے اور اس طرح بے روزگاری بڑھتی ہے، جب بے روزگاری بڑھتی ہے تو جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے، کارخانے تو بند ہو جاتے ہیں مگر لوگوں کی ضرورتیں بند نہیں ہوتی، بلکہ وہ اب بھی ان سے لگی ہوتی ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) (پ 3، البقرۃ: 278) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو۔

اللہ سے ڈرو: اس آیت میں ایمان والے کہہ کر مخاطب کیا اور ایمان کے ایک اہم تقاضے یعنی تقویٰ کا حکم دیا پھر تقویٰ کی روح یعنی حرام سے بچنے کا فرمایا اور حرام سے بچنے میں ایک کبیرہ گناہ سود کا تذکرہ کیا۔(تفسیر صراط الجنان)


آج کل سود عام ہوگیا ہے،سودی قرضہ لینے دینے کا رواج آج کل عام ہوگیا ہے گویا کہ یہ لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہے،حالانکہ اس میں دنیاوی و اخروی نقصان ہوتا ہے۔

سود کی تعریف:عقد معاوضہ یعنی لین دین کے معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل (یعنی بدلے میں) دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے اسی طرح قرض دینے والے کو جو قرض پر نفع اور فائدہ شامل ہو وہ سب بھی سود ہے۔

سود کا حکم:سود حرام قطعی اور گناہ کبیرہ ہے اس کی حرمت کا انکار کرنے والا کافر ہے،جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے،اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط یعنی پاگل بنا دیا ہو۔(پ 3،البقرۃ:275)اس کے بارے میں تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ سود خور قیامت میں ایسے مخبوط الحواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے جیسے دنیا میں وہ شخص جس پر بھوت سوار ہو کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کے لیے بھوت بنا ہوا تھا،آج کل سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مہذب ہے، اچھے اچھے ناموں سے اور خوش کن ترغیبات سے دیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد قرض دینے والوں کی خوش اخلاقی اور ملنساری اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہو جاتی ہے اور اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے کہ وہ گالیاں دے رہا ہے،دکان،مکان،فیکٹری سب پر قبضہ کر کے فقیر و کنگال اور محتاج کر کے بے گھر اور بے زر کر دیا ہوتا ہے۔(صراط الجنان، 1/413)

احادیث مبارکہ میں بھی سود کی مذمت بیان کی گئی ہے،آئیے اس کے بارے میں فرامین مصطفیٰ ملاحظہ کیجیے،

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:آج رات میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (یعنی بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے،یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا گیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتاہے کنارہ والا منہ میں پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ شخص کون ہے؟کہا:یہ شخص جو نہر میں ہے سود خور ہے۔(بخاری،2/14-15،حدیث:2085)

2۔رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1597)

3۔سود کا گناہ ستر حصہ ہے ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ،3/72،حدیث: 2274)

4۔فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں، میں نے پوچھا: اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ،3/76،حدیث: 2273)

5۔سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(سنن ابن ماجہ،3/73،حدیث:2276)

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ نے سود لینے اور دینے کی سخت مذمت بیان کی اگر ہم ان وعیدوں سےبچنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہوں،اللہ ہمیں اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے دین اسلام کےاحکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سود جیسے حرام اور کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے۔آمین


بلاشبہ اسلام میں سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے،سود بدترین تجارتی و معاشرتی برائی ہے اور اخلاقی پستی کی ذمہ دار ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے معاشرہ میں مختلف طریقوں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے،معاشی استحصال، مفت خوری،حرص و طمع،خود غرضی، سنگ دلی، مفاد پرستی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید میں سود سے منع کیا گیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کے لغوی معنی ہے زیادتی، بڑھنا،اضافہ ہونا،بلند ہونا، شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کسی چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو،مثلا رقم کے عوض رقم زیادہ لینا جیسے سو روپے دے کر شرط لگانا کہ دو سو روپے دینے ہوں گے یا قرض دے کر اس سے مزید کوئی فائدہ لینا۔

سود اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ ہے، جو لوگ سود کی ممانعت کے باوجود بھی سود جیسے قبیح عمل میں مصروف رہتے ہیں ان کے اس عمل پر قہر و غضب کے اظہار کے لیے اللہ پاک نے اس عمل کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہے: فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 279) ترجمہ: اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔

جہاں قرآن پاک میں اللہ پاک نے سود کی ممانعت فرمائی ہے وہیں سرور کائنات ﷺ نے بھی سود کی مذمت فرمائی ہے، چنانچہ

فرامین مصطفیٰ:

1۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث:2356)

اس حدیث مبارکہ میں ماں سے زنا کو تشبیہ دے کر سود کو غلیظ ترین عمل کہا گیا ہے یقیناً ایک ذی شعور اور غیور شخص کبھی بھی یہ فعل بد انجام نہیں دے گا۔

2۔جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ بدکاری کے ساتھ ساتھ سود بھی گناہ کبیرہ اور اللہ کی سخت ناراضی کا باعث ہے، یہ دونوں گناہ انسان کو انتہائی پستی میں پھینک دیتے ہیں اور انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتے ہیں۔

3۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند کشادہ اور بڑے تھے جس میں سانپ تھے جو پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا: سود کھانے والے ہیں۔(سنن ابن ماجہ،حدیث: 2273)

4۔ سود کا ایک درہم یہ جاننے کے باوجود کہ یہ سود ہے کھانا 36 بار زنا کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔(مسند امام احمد،8/223،حدیث: 22016)

5۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اللہ پاک اس قوم پر پاگل پن مسلط کر دیتا ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 4/437)

مذکورہ احادیث میں بیان کردہ وعیدیں اور عذابات آج ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں غور یہ کرنا ہے کہ کہیں یہ سب سود کی وجہ سے تو نہیں؟ سود اجتماعی خیر خواہی کا قاتل ہے اس میں سارا نقصان سود لینے والے کو برداشت کرنا پڑتا ہے،سودی معاملات کرنے والے کا دل سخت ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں برے خیالات جنم لے کر اس کو برے کاموں پر ابھارتے ہیں، سود سے بچنے کے لیے حلال کمائیں اور اچھی نیتوں کے ساتھ روزگار حاصل کریں، کیونکہ حلال میں برکت ہے، کفایت شعاری سے کا م لیں، فضول خرچوں سے بچیں تاکہ قرضہ لینے کی ضرورت نہ پڑے، کیونکہ سود کی ابتدا قرض سے ہی ہوتی ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے حبیب ﷺ کے صدقے میں سود جیسے موذی مرض سے تا قیامت نجات دے۔آمین


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے وہ سود ہے۔فتاویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کل قرض جر منفعۃ فھو ربا قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔

سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔اللہ پاک نے قرآن کریم میں اس کی بھرپور مذمت فرمائی،چنانچہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 275 تا 278 میں ارشاد ہوتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۷۷) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار،بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ان کا نیگ ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم،اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو۔

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں کچھ یوں فرماتے ہیں:یہ آیت ان اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جو سود کی حرمت نازل ہونے سے پہلے سودی لین دین کرتے تھے اور ان کی گراں قدر سودی رقمیں دوسروں کے ذمے باقی تھیں۔

سود کے متعلق چند فرامین مصطفیٰ:

1۔بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔

2۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔

3۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب بہار شریعت میں صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شریعت مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا سود دینا بھی حرام کیا ہے۔

حدیثوں میں دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ دونوں برابر ہیں، جو مرد حضرات دنیا کی آسائشوں کے لیے سود لیتے ہیں یا دیتے ہیں وہ پڑھیں، مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب قرۃ العیون میں ہے:مرد سے تعلق رکھنے والوں میں پہلے اس کی زوجہ اور اس کی اولاد ہے،یہ سب یعنی بیوی بچے قیامت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کریں گے:اے ہمارے رب! ہمیں اس شخص سے ہمارا حق لے کے دے،کیونکہ اس نے کبھی ہمیں دینی امور کی تعلیم نہیں دی اور یہ ہمیں حرام کھلاتا تھا جس کا ہمیں علم نہ تھا، پھر اس شخص کو حرام کھانے پر اس قدر مارا جائے گا کہ اس کا گوشت جھڑ جائے گا پھر اس کو میزان کے پاس لایا جائے گا فرشتے پہاڑ کے برابر اس کی نیکیاں لائیں گے اور اس کے عیال میں سے ایک شخص آکر کہے گا میری نیکیاں کم ہیں تو وہ اس کی نیکیوں میں سے لے لے گا، اسی طرح گھر والے اس کی سب نیکیاں لے جائیں گے اور وہ اپنے اہل و عیال کی طرف حسرت و یاس سے دیکھ کر کہے گا"اب میری گردن پر وہ گناہ و مظالم رہ گئے جو میں نے تمہارے لیے کئے تھے" اس وقت فرشتے کہیں گے یہ وہ بد نصیب شخص ہے جس کی نیکیاں اس کے گھر والے لے گئے اور یہ ان کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا۔

کیا اب بھی ہم حرام روزی سے باز نہیں آئیں گے! اللہ پاک کو ناراض کرکے کہاں جائیں گے؟ دنیا فانی ہے،دنیا کی وقتی لذتوں کو حاصل کرنے کے لیے اللہ پاک کو ناراض کر کے ہم جہنم سے کیسے بچ پائیں گے! سود لینے اور دینے والا دنیا میں بھی پریشان رہتا ہے،ہمارے معاشرے میں اس وجہ سے کتنے ہی لوگ بربادی کا شکار ہیں اس کی وجہ علم دین سے دوری ہے،دعوت اسلامی کا مشکبار مدنی ماحول ہمیں رب سے قریب کرتا ہے،رب کو ناراض کرنے والے کاموں سے بچنے کا ذہن دیتا ہے،عشق رسول کے جام گھول گھول کر پلائے جاتے ہیں، اللہ پاک ہمیں اور ہماری نسلوں کو سدا مدنی ماحول سے وابستہ فرمائے اور ہمیں بے حساب بخش دے۔آمین


سود حرام قطعی ہے اس کا انکار کرنے والا کافر ہے،اس کا لین دین حرام ہے،قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا:ترجمہ:یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہے اللہ نے حلال کیا بیع کو حرام کیا سود کو۔

تعریف:لین دین کے معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے دوسری طرف کچھ نہ ہو سود ہے۔ سود کی مختلف صورتیں ہیں جس قدر ممکن ہو اس سے بچا جائے،سود میں زیادتی لی جاتی ہے یہ نا انصافی سود میں ہماری دنیا اور آخرت کو برباد کر دیتی ہے،اس کے متعلق ہمیں ضروری احکام سیکھنے سکھانے چاہئیں تاکہ بچا جا سکے،آئیے اس کی مذمت پر حدیث مبارکہ پڑھیے،

فرامین مصطفیٰ:

1۔حضور اکرم ﷺ نے سود کھانے،سود کھلانے والے،سود کی تحریر لکھنے والے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1598)

2۔سودکا گناہ 70 حصے ہے ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ،3/82،حدیث: 2284)

3۔جس شخص نے حلال مال کمایا پھر اس کی کمائی سے لباس پہنا اور اپنے علاوہ اللہ کی مخلوق کو کھلایا اور پہنایا تو اس کا یہ عمل اس کے لیے برکت پاکیزگی ہے۔(ابن ماجہ،4/218،حدیث:4222)

4۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر کی طرح بڑے تھے ان پیٹوں میں سانپ تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے،میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟جواب دیا:یہ سود خور ہیں۔(ابن ماجہ، 3/82،حدیث:2283)

5۔جو گوشت سے اُگا ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا کہ اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔(ابن ماجہ، 5/64،حدیث:4448)

نقصان:سود کے بہت سے معاشرتی اور اخروی نقصان ہیں،سود خور معاشرے میں ذلیل خوار ہوتا ہے اور ایسا شخص حاسد بن جاتا ہے،ہر وقت مال کی حرص میں لگا رہتا ہے اور آخرت میں بھی سزا کا مستحق ہوتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:ہر وقت اپنی موت کو یاد رکھیے،جو مال پاس موجود ہو اسی پر اللہ کا شکر ادا کیجیے،سود کے دنیاوی اور اخروی نقصان کو سامنے رکھیے،ان شاء اللہ سود سے بچنے کی سعادت ملے گی۔


اسلام میں سود قطعی طور پر حرام ہے،کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے معاشی استحصال،مفت خوری، خود غرضی، حرص و طمع،تنگ دستی،تنگ دلی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا،پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے۔شرعی اصطلاح میں سود کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت کچھ زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 120 روپے لے گا،مہلت کے عوض یہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے ہیں یہ سود ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔حضور ﷺ نے سود لینے والوں،سود دینے والوں،سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔(مسلم شریف)

2۔سود میں 70 گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسا ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ)

3۔سود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھائے اس کا گناہ 36 بار زنا کرنے سے زیادہ ہے۔(احمد،دار قطنی،مشکوٰۃ)

4۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں،میں نے پوچھا:اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود خور ہیں۔(مسند احمد،ابن ماجہ)

5۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی کو ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے۔(ابن ماجہ)

سود کے نقصانات:سود خوری کی وجہ سے وہ قومیں جو دیکھتی ہیں کہ ان کا سرمایہ سود کے نام پر دوسری قوم کی جیب میں جا رہا ہے ایک خالص بغض و کینہ اور نفرت سے قوم کو دیکھیں گی،سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالتی ہے،سود خوری کی وجہ سے افراد اور قوموں کے درمیان اجتماعی تعاون ڈھیلا پڑ جاتا ہے،سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ و برباد کر دیتی ہے،سود دلوں میں کینے اور دشمنی کا بیج بوتی ہے،سود خوری کی وجہ سے مقروض خود کشی کر لیتا ہے اور کبھی شدید کرب سے دو چار ہو کر سود خوار کو خطرناک طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اس کی حرمت کا منکر یعنی اس کے حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادۃ ہے۔

اللہ پاک نے مسلمانوں پر سود کو حرام قرار دیا ہے اور جو بد نصیب یہ جاننے کے باوجود بھی سودی لین دین جاری رکھے تو گویا وہ اللہ پاک اور کے رسول ﷺ سے جنگ کرنے والا کام ہے،زندگی بے حد مختصر ہے،اس کا کوئی بھروسا نہیں تو آئیے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے نیک اعمال کر لیں اور ان تمام برائیوں سے معافی مانگ لیں،موت کو کثرت سے یاد کریں،ہم سب کے لیے اسی میں فائدہ ہے کہ اللہ و رسول کے فرامین کی پیروی کریں اور موت کو کثرت سے یاد کریں۔

اللہ پاک ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور برے اور حرام کاموں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھے۔آمین


سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے،اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی سود کی مذمت فرمائی ہے اور عذابات بیان کئے ہیں اور اللہ پاک سود کو ہلاک کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

کثیر احادیث مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے۔

1۔شہنشاہ مدینہ ﷺؑ نے فرمایا:سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ و برباد کرنے والی ہیں،صحابۂ کرام نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ارشاد فرمایا: شرک کرنا،جادو کرنا،اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا،سود کھانا،یتیم کا مال کھانا،جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن و شادی شدہ مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔(صحیح بخاری،2/242،حدیث:2766)

2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69)

3۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

4۔سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(شعب الایمان،4/394،حدیث: 5520)

5۔نبی کریم ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(صحیح مسلم،ص 862،حدیث:1598)

یہ بات حقیقت ہے کہ سود خور کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے اور سود خور بے رحم ہو جاتا ہے اور سود کمانے والے کا مال اسے کوئی نفع نہیں دیتا اور سود سے معیشت برباد ہو جاتی ہے،حرام کھانے سے دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔اللہ کی پکڑ بہت شدید ہے،لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم سود سے بچیں اور قرآن و حدیث کے فرامین پر عمل کر کے جنت میں جانے کا ذخیرہ کریں۔


مال اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اللہ کے حکم سے اپنی دنیاوی نعمتوں کو پورا کرتا ہے لیکن شریعتِ اسلامیہ نے اس بات کی تلقین کی ہے کہ صرف جائز و حلال طریقے سے مال کمائے کیونکہ کل قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ پاک کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اگر ہمارے مال میں سود ہوگا تو کل بروز قیامت اللہ پاک کو کیا منہ دکھائیں گے اور اللہ کے عذاب سے کیسے چھٹکارا پائیں گے، سود ایک حرام کردہ مال ہے جس سے ہم تھوڑے عرصے کے لیے تو نفع حاصل کر لیتے ہیں لیکن بعد میں دنیا میں بھی رسوائی اور کل بروز قیامت بھی رسوائی ہوگی۔

قرآن پاک کی روشنی میں سود کی مذمت:بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے، اسی وجہ سے قرآن مجید میں سود سے منع کیا گیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کی وجہ سے اگرچہ بظاہر مال میں اضافہ ہوتا ہے لیکن در حقیقت وہ مال میں نقصان، بے برکتی اور ناگہانی آفات کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ 3، البقرۃ: 276)ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور نا شکرے گنہگار کو اللہ دوست نہیں رکھتا۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں سود کی مذمت:

1۔آپ ﷺ نے سود کو ہلاک خیز عمل قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو، لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جادو کرنا اور اس جان کو ناحق مارنا جس کو اللہ نے حرام کیا ہے اور سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور جہاد سے فرار (یعنی بھاگنا) اور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔

2۔جس بستی میں سود پھیلتا ہے وہ بستی سود کی وجہ سے ہلاک و برباد ہو جاتی ہے، حدیث پاک میں ہے:جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)

3۔ سود کا گناہ ماں سے زنا کرنے سے بھی بد تر ہے، حدیث پاک میں ہے: سود میں 70 گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ، 2/763، حدیث: 2274)


یوں تو معاشرے میں بہت سی برائیاں پائی جاتی ہیں، مگر سود بہت بڑی معاشرتی بیماری ہے جو بہت سی دوسری برائیوں کے دروازے کھولتی ہے۔ اللہ کریم ہمارے معاشرے کو سود سے پاک فرمائے۔

سود کی تعریف: عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل یعنی بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔

اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ حاصل ہو وہ سب بھی سود ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔ فرمان مصطفیٰ: رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ کہا: یہ شخص جو نہر میں ہے سود خوار (یعنی سود کھانے والا) ہے۔(بخاری، ص 543، حدیث: 2085)

2۔ رسول کریم ﷺ نے سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔

3۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)

4۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی:یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ،3/71، حدیث: 2273)

5۔ اللہ تعالیٰ سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے، نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتے داروں سے حسن سلوک۔

سود کے چند معاشرتی نقصان: سود کا رواج تجارتوں کو خراب اور کم کر دیتا ہے، سود کے رواج سے باہمی محبت کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے، سود خور اپنے مقروض کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں۔

سود سے بچنے کا درس: ہمیں سود سے بچنا چاہیے، سود کے عذابات اور نقصانات کو ذہن نشین فرما کر عذابِ الٰہی سے ڈرنا چاہیے۔ اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔ اس آیت میں سود کو حرام قرار دیا گیا، چنانچہ فرمایا: اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے ہوئے سودی لین دین چھوڑ دو کہ اس کا ثواب پا کر آخرت میں کامیاب ہو جاؤ۔

سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں سود سے بچائے اور حلال مال حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔

سود کی تعریف:فقہا نے لکھا کہ سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔(ہدایہ)

احادیث مبارکہ:

1۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69)

2۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

3۔سرکار ﷺ فرماتے ہیں:شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے،میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے عرض کی یہ سود خور ہیں۔(ابن ماجہ،3/72)

4۔اللہ کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1598)

5۔بےشک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (معجم اوسط،5/27، حدیث:7151)

سود کے بہت سے معاشرتی نقصانات بھی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں کہ سود سے معیشت برباد ہوجاتی ہے، سود کی نحوست سے جب انڈسٹری کو نقصان پہنچتا ہے تو تجارت میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس طرح بے روزگاری بڑھتی ہے اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! سود حرام ہے اور ہم نے احادیث میں بھی اس کی مذمت ملاحظہ کی ہمیں چاہیے کہ ہم اس سے بچیں،اپنے دل سے دنیا کے مال و دولت کی محبت کو نکالیں کیونکہ اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ حقیقی دولت تقویٰ و پرہیزگاری ہے،خوف خدا اورعشق رسول ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو سود جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔آمین



فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہے،آئیے سود کا شرعی حکم جانتے ہیں کہ سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے،جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔ سود کی تعریف ملاحظہ ہو:

سود کی تعریف:سود کا لفظی معنی اضافہ کرنا ہے،عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود ہے۔ آئیے سود کی مذمت پر 5 فرامین مصطفیٰ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں

فرامین مصطفیٰ:

1۔سات گناہوں سے بچتے رہو؛اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنا،جادو کرنا،اس جان کو قتل کرنا جس کا قتل اللہ پاک نے حرام قرار دیا ہے سوائے حق کے،سود خوری،یتیم کا مال کھانا،کافروں سے مقابلے کے دن بھاگ جانا،پاک دامن اور بھولی بھالی مسلمان عورت پر بد کاری کی تہمت لگانا۔(بخاری،2/719،حدیث:2766)

2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)

3۔جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔(مستدرک، 2/339،حدیث: 2308)

4۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس شب مجھے معراج میں سیر کروائی گئی میں نے ایک جماعت دیکھی جس کے پیٹ کمروں کے مانند تھے ان میں بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے،میں نے کہا جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟کہا کہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ،3/72،حدیث:2273)

5۔رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے پوچھا:یہ کون شخص ہے؟کہا یہ شخص جو نہر میں ہے سود خور ہے۔(بخاری،ص 543،حدیث:2085)

سود کے معاشرتی نقصانات:سود خور حاسد بن جاتا ہے جس سے معاشرے میں حسد جیسا گناہ بھی عام ہو جائے گا،سود خور بے رحم ہو جاتا ہے اسے کسی پر ترس نہیں آتا کیونکہ سود نے اس کے قلب کو کالا کر دیا ہے،سود خور مال کا حریص ہو جاتا ہے اور گھر کے گھر برباد کرتا ہے سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے۔

بچنے کی ترغیب:یاد رکھیے! آخرت میں ایک ایک ذرے کا حساب ہوگا اور اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے تو جہاں تک ممکن ہو سکے سودی کاروبار وغیرہ سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے،کاش ہمارے پیش نظر موت کا تصور ہو جائے اور اس دنیا کی عارضی زندگی میں مدنی سوچ نصیب ہو جائے،اے کاش مال جمع کرنے کی ہوس ہم سب کے دلوں سے نکل جائے،سود کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ کے رسالہ سود اور اس کا علاج کا مطالعہ فرمائیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں سود جیسے گناہ سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔آمین