آج کل سود عام ہوگیا ہے،سودی قرضہ لینے دینے کا رواج آج کل عام ہوگیا ہے گویا کہ یہ لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہے،حالانکہ اس میں دنیاوی و اخروی نقصان ہوتا ہے۔

سود کی تعریف:عقد معاوضہ یعنی لین دین کے معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل (یعنی بدلے میں) دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے اسی طرح قرض دینے والے کو جو قرض پر نفع اور فائدہ شامل ہو وہ سب بھی سود ہے۔

سود کا حکم:سود حرام قطعی اور گناہ کبیرہ ہے اس کی حرمت کا انکار کرنے والا کافر ہے،جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے،اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط یعنی پاگل بنا دیا ہو۔(پ 3،البقرۃ:275)اس کے بارے میں تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ سود خور قیامت میں ایسے مخبوط الحواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے جیسے دنیا میں وہ شخص جس پر بھوت سوار ہو کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کے لیے بھوت بنا ہوا تھا،آج کل سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مہذب ہے، اچھے اچھے ناموں سے اور خوش کن ترغیبات سے دیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد قرض دینے والوں کی خوش اخلاقی اور ملنساری اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہو جاتی ہے اور اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے کہ وہ گالیاں دے رہا ہے،دکان،مکان،فیکٹری سب پر قبضہ کر کے فقیر و کنگال اور محتاج کر کے بے گھر اور بے زر کر دیا ہوتا ہے۔(صراط الجنان، 1/413)

احادیث مبارکہ میں بھی سود کی مذمت بیان کی گئی ہے،آئیے اس کے بارے میں فرامین مصطفیٰ ملاحظہ کیجیے،

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:آج رات میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (یعنی بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے،یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا گیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتاہے کنارہ والا منہ میں پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ شخص کون ہے؟کہا:یہ شخص جو نہر میں ہے سود خور ہے۔(بخاری،2/14-15،حدیث:2085)

2۔رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1597)

3۔سود کا گناہ ستر حصہ ہے ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ،3/72،حدیث: 2274)

4۔فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں، میں نے پوچھا: اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ،3/76،حدیث: 2273)

5۔سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(سنن ابن ماجہ،3/73،حدیث:2276)

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ نے سود لینے اور دینے کی سخت مذمت بیان کی اگر ہم ان وعیدوں سےبچنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہوں،اللہ ہمیں اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے دین اسلام کےاحکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سود جیسے حرام اور کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے۔آمین