جو چیز ماپ تول سے بکتی ہو جب اس کو اپنی جنس سے بدلا جائے مثال کے طور پر گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو لئے اور ایک طرف زیادہ ہیں تو یہ سود ہے جو کہ حرام ہے اور اس کی حرمت کا منکر کافر ہے۔

سود کی تعریف: سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا، پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے اور شرعی اصطلاح میں سود کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا۔ عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے، اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ حاصل ہو وہ سب بھی سود ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔ رسول کریم ﷺ نے سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(ابن ماجہ، 3/71، حدیث: 2273)

2۔ حضور ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 276، 2/274)

3۔ ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے ہیں۔(ابن ماجہ،3/71، حدیث: 2273)

4۔ جس نے سود کھایا اگرچہ ایک درہم ہو تو گویا اس نے اسلام میں اپنی ماں سے زنا کیا۔(نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں، ص 46)

5۔ سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/390، حدیث: 5523)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: سودی قرضوں کا دائمی رجحان یہ ہے کہ وہ مالداروں کو فائدہ اور عام آدمیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، یہ پیدائشِ دولت، وسائل کی تخصیص اور تقسیم دولت پر بھی منفی اثرات لاتے ہیں، لین دین کے معاملے میں سود سے دوسرے کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، اس کا حق مارا جاتا ہے جس کی وجہ سے آپس میں نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، قرض لینے کے کچھ ہی عرصے بعد قرض دینے والوں کی خوش اخلاقی، ملنساری اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہو جاتی اور اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے جو گالیاں دے رہا ہوتا ہے، غنڈے بھیج کر مار پیٹ کروا رہا ہوتا ہے، گھر کے باہر کھڑے ہو کر ذلیل و رسوا کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ سود خوروں کی ملمع کاریوں اور خوش کن ترغیبات سے بچیں اور خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے سود پر قرض کے لین دین سے دور رہیں۔

سود سے بچنے کی ترغیب: قناعت اختیار کریں، لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کریں اور موت کو کثرت سے یاد کریں ان شاء اللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کرنے کا ذہن بنے گا، سود کے عذابات اور اس کے دنیوی نقصانات کو پڑھیے اور سنیے اور غور کیجیے کہ یہ کس قدر تباہی و بربادی کا سبب ہے۔


عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابلے یعنی بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے، اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ حاصل ہو وہ سب بھی سود ہے۔ سود لینا شدید حرام ہے جو لوگ سود لیتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ سود لینے سے منع کیا گیا ہے۔

آیت مبارکہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔

احادیث مبارکہ:

1۔حضور سید المرسلین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1099)

2۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سے سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)

3۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/395، حدیث: 5523)

4۔ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے ہیں۔(ابن ماجہ،3/71، حدیث: 2173)

5۔ سرکار دو عالم ﷺ نے رشوت لینے والے، دینے والے اور ان کے مابین لین دین میں مدد کرنے والے پر لعنت فرمائی۔(مسند امام احمد، 8/327، حدیث: 22462)

سود کے معاشرتی نقصانات: سود ایک حرام کام ہے، لوگ چند پیسوں کی خاطر اپنی آخرت تباہ کر دیتے ہیں، قرآن و حدیث میں بھی سود کے بارے میں واضح طور پر منع کیا گیا ہے، ہمیں چاہیے کہ سود سے بچیں جو اس کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ اللہ ہمیں حلال رزق کمانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس طرح کے بے جا ناجائز کاموں سے بچائے۔ آمین


سود حرام قطعی ہے، اس کی حرمت کا منکر یعنی انکار کرنے والا کافر ہے، جس طرح سود لینا حرام ہے سود دینا بھی حرام ہے اور یہ بہت ہی سخت گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا عمل بد ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- (پ 3،البقرۃ:275) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط (پاگل) بنا دیا ہو۔

سود کی تعریف:عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابلے یعنی بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے، اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ حاصل ہو وہ سب بھی سود ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔حضور سید المرسلین ﷺ نے سود کھانے والے اور کھلانے والے اور سود لکھنے والے اور سود کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، حدیث: 1598)

2۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شب معراج میں مجھے ایک ایسی قوم کے پاس سیر کرائی گئی کہ ان کے پیٹ کوٹھریوں کے مثل تھے جن میں سانپ بھرے تھے جو پیٹوں کے باہر سے نظر آرہے تھے تو میں نے پوچھا کہ اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ سود کھانے والے ہیں۔(سنن ابن ماجہ، حدیث: 2273)

3۔سود کا ایک درہم جان بوجھ کر کھانا 36 مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت اور بڑا گناہ ہے۔(مسند امام احمد، حدیث: 22016)

4۔ ضرور ضرور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کوئی ایسا باقی نہ رہے گا جو سود خور نہ ہو اور اگر سود نہ کھائے گا تو سود کا دھواں ہی اسے پہنچے گا۔(سنن ابی داود، حدیث: 3331)

5۔ بیشک سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر اس کا انجام مال کی کمی ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث:2827)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: سود ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے ایک شخص کو معاشرے میں بھی طرح طرح کے نقصان پہنچتے ہیں مثلا لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے، اللہ پاک اور اس کے فرشتوں اور اس کے نبیوں اور اس کے نیک بندوں کی لعنتوں میں گرفتار ہو جاتا ہے، سود کھانے والے شخص سے شرم و غیرت جاتی رہتی ہے، ہر طرف سے ذلتوں اور رسوائیوں اور ناکامیوں کا ہجوم ہو جاتا ہے۔(جنتی زیور، ص 94-95)

سود سے بچنے کی ترغیب: سود سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کیجیے، لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجیے اور موت کو کثرت سے یاد کیجیے، ان شاء اللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کرنے کا ذہن بنے گا، سود کے عذابات اور اس کے دنیوی نقصانات کو پڑھیے سنئے اور غور کیجیے کہ یہ کس قدر تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں سود جیسی بری نحوست سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


سود کے بارے میں اللہ پاک فرماتا ہے: وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- (پ 3، البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود۔ سود کو حلال سمجھ کر کھانے والا کافر ہے، کیونکہ یہ حرام قطعی ہے اور کسی بھی حرام قطعی کو حلال جاننے والا کافر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

سود کی تعریف: لین دین کے معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے، اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع، جو فائدہ حاصل ہو وہ سب بھی سود ہے۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ حضور ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(تفسیر صراط الجنان)

2۔ سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(صراط الجنان)

3۔ سود کا ایک درہم جو آدمی کوملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/360، حدیث: 5523)

4۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے حضرت جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، حدیث: 2273)

5۔ اللہ پاک سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتے داروں سے حسن سلوک۔(تفسیر قرطبی)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: سود کے ذریعے لوگوں میں فساد ہو رہے ہیں، مال میں برکت کی کمی پیدا ہوتی ہے، مال میں اضافہ ہونے کے بجائے مال میں کمی پیدا ہوتی ہے، جو لوگ سود کا مال کھاتے ہیں ان کا مال بہت زیادہ ضائع ہو جاتا ہے، بہت سا مال بیماریوں پر خرچ ہوتا ہے، لوگوں کو سود کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال کو حرام کر دیتے ہیں، لہٰذا سود سے بچنے کے لیے اوپر کی روایتوں کو غور سے پڑھیے اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔

سود سے بچنے کی ترغیب: بعض اوقات سود سے بچنے کا ذہن بھی ہوتا ہے مگر معلومات نہ ہونے کی وجہ سے آدمی اس کے لین دین میں مبتلا ہو جاتا ہے، سود سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کریں، لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کریں اور موت کو کثرت سے یاد کریں، ان شاء اللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کا ذہن بنے گا۔آپس میں اتفاق پیدا کریں کیونکہ اتفاق میں برکت ہوتی ہے، جب برکت ہوتی ہے تو مال اولاد اور علم وغیرہ میں برکت ہوتی ہے، اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں، توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں، ان شاء اللہ بہت بڑا فائدہ حاصل ہوگا، نمازوں کی ادائیگی کریں اور اپنے مالِ حلال سے زکوٰۃ ادا کریں اس کی برکت سے مال میں برکت ہوگی اور اپنی اولاد اور اپنے اہل و عیال وغیرہ کو حلال رزق کھلائیں۔


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے،سود ایک کبیرہ اور ہلاک کر دینے والا گناہ ہے، سود لینے سے ہمارا اسلام منع فرماتا ہے اور قرآن و احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، اللہ پاک پارہ 3 سورۂ بقرہ آیت نمبر 275 میں ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275) ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔آیت نمبر 276 میں ہے: یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ 3، البقرۃ: 276)ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور نا شکرے گنہگار کو اللہ دوست نہیں رکھتا۔

سود کی تعریف: عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت، 2/769، حصہ: 11)اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع فائدہ حاصل ہو وہ سب سود ہے۔

سود کے متعلق مختلف احکام: سود حرام قطعی ہے، اس کی حرمت کا منکر یعنی حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر ہے، جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔(گناہوں کے عذابات: ص 37)

فرامین مصطفیٰ:

1۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سے سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث: 2356)

2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر،ص 69)

3۔حضور رحمۃ للعالمین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1599)

4۔سود کا ایک درہم جان بوجھ کر کھانا 36 مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت اور بڑاگناہ ہے۔(مسند امام احمد، حدیث: 22016)

5۔ فرمان مصطفیٰ: رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے ہر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ کہا: یہ شخص جو نہر میں ہے سود خوار (یعنی سود کھانے والا) ہے۔(بخاری، ص 543، حدیث: 2085)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: سود ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے ایک شخص کو معاشرے میں بھی طرح طرح کے نقصانات پہنچتے ہیں مثلاً لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے اللہ پاک اور اس کے فرشتوں اور اس کے نبیوں اور اس کے نیک بندوں کی لعنتوں میں گرفتار ہو جاتا ہے، سود والے شخص سے شرم و غیرت جاتی رہتی ہے، ہر طرف سے ذلتوں اور رسوائیوں اور ناکامیوں کا ہجوم ہو جاتا ہے۔(جنتی زیور، ص 94-95)

سود سے بچنے کی ترغیب:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ پاک سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے، نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک۔(تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 276، 2/274) لہٰذا سود بہت زیادہ ہلاکت کا باعث ہے اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے سود سے بچنے کے لیے قناعت پسند بنیے کہ اس سے انسان حرص و لالچ کا شکار نہیں ہوتا۔

بے جا مال کی محبت سے چھٹکارا پانے اور قناعت کی دولت اپنانے کے لیے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے نیک اعمال پر عمل کیجیے اور سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کو اپنا معمول بنا لیجیے۔ اللہ کریم ہمیں عافیت و امان کے ساتھ سود کی آفتوں سے محفوظ فرمائے۔آمین


سود سے مراد وہ عقد معاوضہ جس میں دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل یعنی بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔ بہت سی احادیث و آیات میں سود کی مذمت کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اس کے متعلق کچھ احادیث ملاحظہ کیجیے۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو، صحابۂ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ وہ کون سے گناہ ہیں؟ ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا،ناحق کسی جان کو قتل کرنا، یتیم کا مال کھانا،سود کھانا، میدان جہاد سے بھاگ جانا، پاک دامن عورت کو زنا کی تہمت لگانا۔(مسلم، ص 65، حدیث: 89)

2۔ اللہ پاک نے سود لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔(76 کبیرہ گناہ، ص 48)

3۔ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت کی۔(صراط الجنان، 1/412)

4۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے،میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے عرض کی:یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ،ص 72،حدیث:2273)

5۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے سعد! اپنی خوراک پاک کرو مستجاب الدعوات ہو جاؤگے، اس ذات پاک کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو 40 دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لیے آگ بہتر ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے،میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے عرض کی:یہ سود خور ہیں۔(صراط الجنان، 1/268)

آئیے اب قرآن پاک سے سود کی مذمت ملاحظہ کیجیے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) (پ 3، البقرۃ: 278) ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔ایک اور جگہ فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔

بچنے کی ترغیب: سود سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کریں، لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کریں اور موت کو کثرت سے یاد کریں ان شاء اللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کا ذہن بنے گا اور سود کے عذابات کا مطالعہ کیجیے۔

معاشرتی نقصان: سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے اس سے باہمی محبت کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے، سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے، سود خور کا کسی کو قرض حسن سے امداد پہنچنا گوارا نہیں ہوتا۔


فقہائے کرام سود کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ کیلی یا وزنی چیز کے تبادلہ میں دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔ قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪-(اٰل عمران:130) ترجمہ:دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ۔اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور حرام قرار دیا گیا،زمانہ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا،اسے دگنا در دگنا کیا جا تا رہتا۔

سود سےمتعلق وعیدیں:سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے،قرآن پاک اور حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں،5 احادیث ملاحظہ ہوں:

1۔نبی پاک ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1599)

2۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/395،حدیث:5523)

3۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی:یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ،3/71،حدیث: 2273)

4۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338،حدیث:2354)

5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

اللہ کریم ہمیں سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


1۔جس بستی میں سود پھیلتا ہے وہ بستی سود کی وجہ سے ہلاک و برباد ہو جاتی ہے۔

2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی کو ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے۔

3۔اللہ کے رسول ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،اس کی گواہی دینے والے اور اس کا معاملہ لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی۔(سنن ابن ماجہ)

4۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

5۔سود خور سخت سزا میں مبتلا ہوں گے،چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے:جس شب مجھے سیر کرائی گئی میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جس کے پیٹ کمروں کے مانند تھے ان میں سے بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے،میں نے کہا: جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟کہنے لگے سود خور ہیں۔(ابن ماجہ)

سود کھانے کا گناہ ماں سے زنا کرنے سے بھی بدتر ہے،چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے:سود میں ستر گناہ ہیں، سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرتا ہے۔(ابن ماجہ)


گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں،گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ،مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ گناہ صغیرہ کو بھی ہلکا نہیں جانتا،وہ سمجھتا ہے کہ چھوٹی چنگاری بھی گھر جلا سکتی ہے،اس لیے وہ ان کے کرلینے پر بھی جرأت نہیں کرتا اور اگر ہو جائیں تو فوراً توبہ کر لیتا ہے،بدکار شخص چھوٹے کیا بڑے گناہوں کو بھی ہلکا جانتا ہے،جیسے تہمت، بدکاری،غیبت،سود وغیرہ،بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال،خود غرضی،مفاد پرستی وغیرہ جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے،اسی وجہ سے قرآن مجید میں سود سے منع کیا گیا ہے،نیز شریعت مطہرہ نے اسے قطعی حرام قرار دیا ہے،چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی ہے بڑھنا،اضافہ ہونا،بلند ہونا۔شرعی اصطلاح میں ربا سود کی تعریف قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی (ناپ کر بیچی جانے والی) یا وزنی (تول کر بیچی جانے والی) چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔آسان لفظوں میں یہ کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 100 روپے کے 120 روپے لے گا،مہلت کے عوض یہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے ہیں یہ سود ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو،لوگوں نے پوچھا حضور وہ کیا ہیں؟ فرمایا:اللہ کے ساتھ شرک اور ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی اور سود خوری،یتیم کا مال کھانا،جہاد کے دن پیٹھ دکھا دینا،پاکدامن مومنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا۔(بخاری)

2۔نبی اکرم ﷺ نے خون کی قیمت، کتےکی قیمت اور زانیہ کی کمائی سے منع فرمایا اور سود کھانے والے اور کھلانے والے،گودنے والی اور گدوانے والی اور فوٹو لینے والے پر لعنت فرمائی۔(بخاری)

3۔سونا سونے کے عوض اور چاندی چاندی کے عوض،گیہوں گیہوں کے عوض،جو جو کے عوض برابر برابر ہاتھوں ہاتھ بیچو جو زیادہ دے یا زیادہ لے اس نے سود کا کاروبار کیا،لینے والا دینے والا اس گناہ میں برابر ہے۔(مسلم)

4۔فرمایا:ہم شب معراج اس قوم پر پہنچے جن کے پیٹ کوٹھریوں کی طرح تھے جن میں سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے،ہم نے کہا:اے جبرائیل یہ کون ہیں؟انہوں نے عرض کیا یہ سود خوار ہیں۔(ابن ماجہ)

5۔بدترین سود مسلمان کی آبرو میں ناحق دست درازی ہے۔(ابو داود)

معاشرتی نقصانات:جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے،اس حوالے سے فرمان مصطفیٰ ہے جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔سود قطعی حرام ہے۔

حدیث پاک میں سود کھانے والے کھلانے والے اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی گئی ہے۔معاشرے سے اب حلال و حرام کی تمییز ختم ہو گئی ہے۔یاد رکھیں مالِ حرام میں کوئی بھلائی نہیں بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے،مال حرام سے کیا گیا صدقہ نہ ہی قبول ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے تو عذاب جہنم کا سبب ہے،معاشرے میں سود لینے والے کو برا سمجھا جاتا ہے اور اس کی صحبت سے دور رہا جاتا ہے،سود خور کو اللہ اور رسول اکرم کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے،سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ کر دیتی ہے اور تعاون کے رشتوں کی یہی کمزوری سود دینے والے اور سود لینے والے ممالک میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے وہ قومیں جو دیکھتی ہیں کہ ان کا سرمایہ سود کے نام پر دوسری قوم کی جیب میں جا رہا ہے انہیں قرض کی ضرورت تو ہے لیکن وہ منتظر رہتی ہیں کسی مناسب موقع پر اپنے رد عمل کا مظاہرہ کریں،یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے دل ودماغ پر بہت برا اثر مرتب کرتی ہے اور اس کے دل میں اس بات کا کینہ ضرور رہ جاتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:سود سے بچنے کی ترغیب اس طرح دلائیں کہ ان تمام برائیوں میں سود کا لین دین بھی ایک ایسا ہی برا کام ہے جس سے قرآن نے انسان کو بڑی شد و مد سے روکا ہے اس لیے کہ سود بہت بڑا ظلم ہے جو ایک انسان دوسرے انسان پر کرتا ہے،سود ایک دھوکا ہے اور دوسرے انسان کا خون چوسنے کے مترادف ہے،قرآن سود کو حرام قرار دیتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔ انسان ہر غلط کام کو کرنے کے لیے حیلے بہانے تراش کر کے اس کو جائز بتانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے اور شیطان کی ترغیب بھی ہے،یہ اس لیے کہ یہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو نفع کے لحاظ سے ایسا ہی ہے جیسے سود لینا،حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔


معاشرے میں طرح طرح کی برائیوں نے جنم لیا ہے جس میں سے ایک سود بھی ہے،سود ایک ایسی برائی ہے جس نے ہمیشہ معیشت و روزگار کو تباہ کیا ہے،سود سے باز نہ آنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے،چنانچہ پارہ 3 سورۂ بقرۃ کی آیت نمبر 278 تا 279 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں اور اصطلاح میں سود کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔

2۔سود کا ایک درہم جس کو کوئی جان کر کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔

3۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں،میں نے پوچھا:اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ سود خور ہیں۔

4۔سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔

5۔سود میں 70 گناہ ہیں سب سےہلکا گناہ یہ ہے کہ جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ،حدیث: 2274)

نقصانات:مالِ حرام کا وبال یہ ہے کہ جب لقمۂ حرام پیٹ میں پہنچتا ہے تو اس سے بننے والا خون انسان کو مزید برائیوں پر ابھارتا ہے یوں وہ برائیوں کے دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور اپنی عاقبت برباد کر بیٹھتا ہے۔سود کے پیسوں سےزکوٰۃ قبول نہیں ہوتی،سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو برباد کر دیتی ہے،سود دلوں میں کینے اور دشمنی کا بیج بوتا ہے اور بھی سود کے کئی نقصانات ہیں۔معلوم ہوا کہ مالِ حرام میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے،لہٰذا مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی بربادی اور رزق کی تنگی سے بچنے کے لیے سود اور مالِ حرام سے کنارہ کشی اختیار کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سود جیسے گناہ سے بچنے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین


سود کی تعریف فقہائے کرام یہ کرتے ہیں کیلی یا وزنی  چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔اسلام سے قبل جاہلیت میں سودی لین دین کا رواج تھا،جب قرآن میں اس کی حرمت نازل ہوئی تو مسلمان پورے طور پر اس سے کنارہ کش ہوگئے اور ایک طویل زمانہ تک اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومتیں اس سے محفوظ رہیں،حدیث مبارکہ میں پیشن گوئی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:یقینا لوگوں پر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ کوئی بھی بغیر سود کھائے نہ بچ سکے گا اور اگر کھایا نہیں تو کم از کم اس کا دھواں یا گرد تو پہنچ ہی جائے گا۔

احادیث مبارکہ:

1۔سود کھانے،کھلانے والے اور اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی گئی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔

وضاحت:اے سودی کھانے لکھنے اور سود پر گواہ بننے والو! دیکھو کس قدر وعید مروی ہے اللہ سے اس گناہ کی توبہ کرلو آج وقت ہے کل وقت نہیں ملے گا۔(کتاب المساقاۃ،حدیث:1598)

2۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

3۔سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اس حدیث مبارکہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا کرنا۔(شعب الایمان،4/394، حدیث:5520)

4۔قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہوگا۔یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دے،جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں گے، اس لیے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا مشکل ہوگا اور یہی سود خور کی پہچان ہوگی۔(معجم کبیر،18/60،حدیث:110)

5۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی:یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(کتاب التجارات،3/71، حدیث:2273)

اللہ پاک ہمیں سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین


سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا،پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے اور شرعی اصطلاح میں سود کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دیئے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ 100 روپے کے 120 روپے لے گا مہلت کی عوض یہ جو 20 روپے لیے گئے ہیں یہ سود ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔بے شک سود کتنا ہی زیادہ ہو جائے لیکن اس کا انجام فقرو ذلت ہے۔

2۔سود میں ستر گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ، حدیث: 432)

3۔سود کھانے والے،سود کھلانے والے،سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب یعنی لکھنے والے پر لعنت کی گئی ہے۔(سنن ابی داود،حدیث:2332)

4۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسے گروہ پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح ہیں اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں،میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور لوگ ہیں۔

5۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میں نے ایک آدمی دیکھا جو نہر میں تیرتے ہوئے پتھر نگل رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے؟بتایا گیا کہ یہ سود خور ہے۔

سود کے چند معاشرتی نقصانات:سود حرامِ قطعی ہے،اسے حلال جاننے والا کافر ہے،قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں،جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روز قیامت کھڑے نہیں ہو سکیں گے،مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو،ہمیں سود سے بچنا چاہیے اس سے پتا چلا کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ تو روز قیامت کھڑے ہیں نہیں ہو سکیں گے،یہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی مانند ہے،حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے،بس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ سود سے باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اس کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے پھر بھی سود لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

مہاجنی سود:وہ یہ کہ لوگ اپنی ذاتی ضرورت کے لیے سرمایہ دار افراد سے قرضے لیتے اور انہیں ان کی دی ہوئی رقم پر ماہانہ مشروط سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔

بینک کا سود:کچھ لوگ بینکوں سے تجارت یا زراعت کے لیے قرضے حاصل کرتے ہیں اور مقررہ میعاد پر متعین شرح سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔سود کی جتنی بھی مثالیں لکھیں وہ کم ہیں،آج کل سود بہت ہی عام ہو چکا ہے ہمیں خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی ترغیب دینی چاہیے تاکہ وہ بھی سود سے بچ سکیں اور بروز قیامت اللہ کے عذاب سے بھی بچ سکیں۔

اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- (پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔ سود خوری جس کی قرآن و حدیث نے سخت الفاظ میں مذمت فرمائی اور اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں اور بار بار سود خوری چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اس کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں:

1۔قرض دے کر اس سے زائد وصول کرنا جس کو ہمارے عرف میں سود کہا جاتا ہے۔

2۔تجارتی سود خرید و فروخت کاروبار میں لین دین کا ایسا طریقہ اختیار کرنا جو شرعی اصول کے مطابق سودی معاملہ بنتا ہو جس کو انٹرسٹ سود کہا جاتا ہے۔

3۔بینک ڈیپازٹ بینک کے ذریعے معاملہ کر کے سود وصول کرنا،پہلی دونوں قسمیں تو نزولِ قرآن کے وقت بھی رائج اور متعارف تھیں،قرآن و حدیث میں جو حرمت وارد ہوئی ہیں اس میں دونوں قسمیں شامل ہیں،اس کے علاوہ بینکوں کا معاملہ علما نے شرعی اصولوں کو دیکھتے ہوئے حرام قرار دیا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:آج کل ہمارے معاشرے میں سود بہت ہی زیادہ پھیل چکا ہے،اللہ پاک نے قرآن میں سود کے متعلق آیتیں بھی نازل فرمائیں اور حدیث پاک میں بھی سود کے متعلق بیان ہوا ہے پھر بھی لوگ اس سے نصیحت نہیں حاصل کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں کہ آپ بھی ایسا ایسا کریں،حالانکہ سود لینے والا دینے والا اور کھانے والا یہ سب جہنمی ہیں، سود کا ایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھاتا ہے وہ 36 بار زنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے اور سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ان میں سے سب سے ادنی درجہ وہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے،سود سے جتنا ہو سکے بچیں اوردوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں تاکہ وہ بھی سود سے بچیں اور اللہ کے عذاب سے بچیں۔