سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت طارق، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی
زیادہ ہونا،پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے اور شرعی اصطلاح میں سود کی
تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم
زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دیئے تو اس سے یہ شرط
کر لی کہ 100 روپے کے 120 روپے لے گا مہلت کی عوض یہ جو 20 روپے لیے گئے ہیں یہ
سود ہے۔
5 فرامین مصطفیٰ:
1۔بے شک سود کتنا ہی زیادہ ہو جائے لیکن اس کا انجام فقرو ذلت ہے۔
2۔سود میں ستر گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا
کرے۔(ابن ماجہ، حدیث: 432)
3۔سود کھانے والے،سود کھلانے والے،سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب
یعنی لکھنے والے پر لعنت کی گئی ہے۔(سنن ابی داود،حدیث:2332)
4۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس رات مجھے معراج
ہوئی میرا گزر ایک ایسے گروہ پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح ہیں اور ان میں سانپ
بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں،میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ
ہیں؟انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور لوگ ہیں۔
5۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میں نے ایک آدمی دیکھا جو نہر میں
تیرتے ہوئے پتھر نگل رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے؟بتایا گیا کہ یہ سود خور ہے۔
سود کے چند معاشرتی نقصانات:سود حرامِ قطعی ہے،اسے حلال جاننے والا کافر ہے،قرآن و حدیث میں اس کے متعلق
سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں،جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روز قیامت کھڑے نہیں ہو سکیں
گے،مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو،ہمیں سود
سے بچنا چاہیے اس سے پتا چلا کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ تو روز قیامت کھڑے ہیں
نہیں ہو سکیں گے،یہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی مانند ہے،حالانکہ اللہ نے
تجارت کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے،بس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے
نصیحت پہنچی سو وہ سود سے باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اس کا ہے اور اس کا
معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے پھر بھی سود لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں وہ اس
میں ہمیشہ رہیں گے۔
مہاجنی سود:وہ یہ کہ لوگ
اپنی ذاتی ضرورت کے لیے سرمایہ دار افراد سے قرضے لیتے اور انہیں ان کی دی ہوئی
رقم پر ماہانہ مشروط سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔
بینک کا سود:کچھ لوگ بینکوں
سے تجارت یا زراعت کے لیے قرضے حاصل کرتے ہیں اور مقررہ میعاد پر متعین شرح سود کے
ساتھ واپس کرتے ہیں۔سود کی جتنی بھی مثالیں لکھیں وہ کم ہیں،آج کل سود بہت ہی عام
ہو چکا ہے ہمیں خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی ترغیب دینی چاہیے تاکہ وہ
بھی سود سے بچ سکیں اور بروز قیامت اللہ کے عذاب سے بھی بچ سکیں۔
اَلَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ
یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- (پ
3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے
مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔ سود خوری جس کی
قرآن و حدیث نے سخت الفاظ میں مذمت فرمائی اور اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں اور بار
بار سود خوری چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اس کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں:
1۔قرض دے کر اس سے زائد وصول کرنا جس کو ہمارے عرف میں سود کہا جاتا ہے۔
2۔تجارتی سود خرید و فروخت کاروبار میں لین دین کا ایسا طریقہ اختیار کرنا جو
شرعی اصول کے مطابق سودی معاملہ بنتا ہو جس کو انٹرسٹ سود کہا جاتا ہے۔
3۔بینک ڈیپازٹ بینک کے ذریعے معاملہ کر کے سود وصول کرنا،پہلی دونوں قسمیں تو
نزولِ قرآن کے وقت بھی رائج اور متعارف تھیں،قرآن و حدیث میں جو حرمت وارد ہوئی
ہیں اس میں دونوں قسمیں شامل ہیں،اس کے علاوہ بینکوں کا معاملہ علما نے شرعی
اصولوں کو دیکھتے ہوئے حرام قرار دیا ہے۔
سود سے بچنے کی ترغیب:آج کل ہمارے معاشرے میں سود بہت ہی زیادہ پھیل چکا ہے،اللہ پاک نے قرآن میں
سود کے متعلق آیتیں بھی نازل فرمائیں اور حدیث پاک میں بھی سود کے متعلق بیان ہوا
ہے پھر بھی لوگ اس سے نصیحت نہیں حاصل کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو بھی
اس کی ترغیب دیتے ہیں کہ آپ بھی ایسا ایسا کریں،حالانکہ سود لینے والا دینے والا
اور کھانے والا یہ سب جہنمی ہیں، سود کا ایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھاتا
ہے وہ 36 بار زنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے اور سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ان میں
سے سب سے ادنی درجہ وہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے،سود سے جتنا ہو سکے
بچیں اوردوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں تاکہ وہ بھی سود سے بچیں اور اللہ کے عذاب
سے بچیں۔