سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت شبیر حسین عطاریہ، فیضان ام عطار شفیع
کا بھٹہ سیالکوٹ
فقہائے کرام سود کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ کیلی یا وزنی چیز کے تبادلہ میں
دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں
مشروط ہو۔ قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: لَا
تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪-(اٰل عمران:130) ترجمہ:دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ۔اس آیت میں سود کھانے سے
منع کیا گیا اور حرام قرار دیا گیا،زمانہ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج
تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرض خواہ
سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا،اسے دگنا در دگنا
کیا جا تا رہتا۔
سود سےمتعلق وعیدیں:سود حرام
قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے،قرآن پاک اور حدیث میں اس کے متعلق سخت
وعیدیں بیان ہوئی ہیں،5 احادیث ملاحظہ ہوں:
1۔نبی پاک ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،سود لکھنے والے اور اس کی گواہی
دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص
862،حدیث:1599)
2۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا
ہے۔(شعب الایمان، 4/395،حدیث:5523)
3۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میرا گزر ایک
ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے
نظر آرہے تھے،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض
کی:یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ،3/71،حدیث: 2273)
4۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا
کرے۔(مستدرک، 2/338،حدیث:2354)
5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر
للذہبی،ص 70)
اللہ کریم ہمیں سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین