سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت سعید احمد،جامعۃ المدینہ فیضان ام
عطار گلبہار سیالکوٹ
فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں
مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ
رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے،سود
ایک کبیرہ اور ہلاک کر دینے والا گناہ ہے، سود لینے سے ہمارا اسلام منع فرماتا ہے
اور قرآن و احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، اللہ پاک پارہ 3 سورۂ بقرہ آیت
نمبر 275 میں ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا
یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ
الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275) ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں
قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط
کر دیا ہو۔آیت نمبر 276 میں ہے: یَمْحَقُ
اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ
اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ 3، البقرۃ: 276)ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات
کو بڑھاتا ہے اور نا شکرے گنہگار کو اللہ دوست نہیں رکھتا۔
سود کی تعریف: عقد معاوضہ یعنی
لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے
بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت، 2/769، حصہ: 11)اسی طرح قرض
دینے والے کو قرض پر جو نفع فائدہ حاصل ہو وہ سب سود ہے۔
سود کے متعلق مختلف احکام: سود حرام قطعی ہے، اس کی حرمت کا منکر یعنی حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر
ہے، جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔(گناہوں کے عذابات: ص
37)
فرامین مصطفیٰ:
1۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سے سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں کے
ساتھ زنا کرے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث: 2356)
2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے
کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر،ص 69)
3۔حضور رحمۃ للعالمین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور
اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر
ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1599)
4۔سود کا ایک درہم جان بوجھ کر کھانا 36 مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت اور
بڑاگناہ ہے۔(مسند امام احمد، حدیث: 22016)
5۔ فرمان مصطفیٰ: رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین
مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں
ایک شخص کنارے ہر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں
ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے
زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا
ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون شخص
ہے؟ کہا: یہ شخص جو نہر میں ہے سود خوار (یعنی سود کھانے والا) ہے۔(بخاری، ص 543،
حدیث: 2085)
سود کے چند معاشرتی نقصانات: سود ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے ایک
شخص کو معاشرے میں بھی طرح طرح کے نقصانات پہنچتے ہیں مثلاً لوگوں کی نظروں میں
ذلیل و خوار ہو جاتا ہے اللہ پاک اور اس کے فرشتوں اور اس کے نبیوں اور اس کے نیک
بندوں کی لعنتوں میں گرفتار ہو جاتا ہے، سود والے شخص سے شرم و غیرت جاتی رہتی ہے،
ہر طرف سے ذلتوں اور رسوائیوں اور ناکامیوں کا ہجوم ہو جاتا ہے۔(جنتی زیور، ص 94-95)
سود سے بچنے کی ترغیب:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ پاک سود خور کا نہ
صدقہ قبول کرے، نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک۔(تفسیر قرطبی،
البقرۃ، تحت الآیۃ: 276، 2/274) لہٰذا سود بہت زیادہ ہلاکت کا باعث ہے اس سے ہر
حال میں بچنا چاہیے سود سے بچنے کے لیے قناعت پسند بنیے کہ اس سے انسان حرص و لالچ
کا شکار نہیں ہوتا۔
بے جا مال کی محبت سے چھٹکارا پانے اور قناعت کی دولت اپنانے کے لیے دعوت
اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے نیک اعمال پر عمل کیجیے اور سنتوں بھرے
اجتماع میں شرکت کو اپنا معمول بنا لیجیے۔ اللہ کریم ہمیں عافیت و امان کے ساتھ
سود کی آفتوں سے محفوظ فرمائے۔آمین