سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت محمد الیاس،جامعہ حبیبیہ دھوراجی کراچی
فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں
مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے
وہ سود ہے۔فتاویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قرض دینے والے
کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے۔ حدیث میں ہے رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: کل قرض جر منفعۃ فھو ربا قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔
سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،اس
کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور
مردود الشہادہ ہے یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔اللہ پاک نے قرآن کریم
میں اس کی بھرپور مذمت فرمائی،چنانچہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 275 تا 278 میں
ارشاد ہوتا ہے: اَلَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ
یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا
الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ
الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا
سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ
النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی
الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) اِنَّ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا
الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا
هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۷۷) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے
ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر
مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ
نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ
باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب
ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود
کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار،بے
شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ان کا نیگ ان
کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم،اے ایمان والو! اللہ سے
ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو۔
صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان
میں اس آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں کچھ یوں فرماتے ہیں:یہ آیت ان اصحاب
کے حق میں نازل ہوئی جو سود کی حرمت نازل ہونے سے پہلے سودی لین دین کرتے تھے اور
ان کی گراں قدر سودی رقمیں دوسروں کے ذمے باقی تھیں۔
سود کے متعلق چند فرامین مصطفیٰ:
1۔بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں
سے زنا کرے۔
2۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔
3۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے
کی اجازت دے دیتا ہے۔
دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب بہار شریعت میں صدر
الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شریعت مطہرہ نے جس طرح
سود لینا حرام فرمایا سود دینا بھی حرام کیا ہے۔
حدیثوں میں دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ دونوں برابر ہیں، جو مرد
حضرات دنیا کی آسائشوں کے لیے سود لیتے ہیں یا دیتے ہیں وہ پڑھیں، مکتبۃ المدینہ
کی مطبوعہ کتاب قرۃ العیون میں ہے:مرد سے
تعلق رکھنے والوں میں پہلے اس کی زوجہ اور اس کی اولاد ہے،یہ سب یعنی بیوی بچے
قیامت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کریں گے:اے ہمارے رب! ہمیں اس شخص سے
ہمارا حق لے کے دے،کیونکہ اس نے کبھی ہمیں دینی امور کی تعلیم نہیں دی اور یہ ہمیں
حرام کھلاتا تھا جس کا ہمیں علم نہ تھا، پھر اس شخص کو حرام کھانے پر اس قدر مارا
جائے گا کہ اس کا گوشت جھڑ جائے گا پھر اس کو میزان کے پاس لایا جائے گا فرشتے
پہاڑ کے برابر اس کی نیکیاں لائیں گے اور اس کے عیال میں سے ایک شخص آکر کہے گا
میری نیکیاں کم ہیں تو وہ اس کی نیکیوں میں سے لے لے گا، اسی طرح گھر والے اس کی
سب نیکیاں لے جائیں گے اور وہ اپنے اہل و عیال کی طرف حسرت و یاس سے دیکھ کر کہے
گا"اب میری گردن پر وہ گناہ و مظالم رہ گئے جو میں نے تمہارے لیے کئے
تھے" اس وقت فرشتے کہیں گے یہ وہ بد نصیب شخص ہے جس کی نیکیاں اس کے گھر والے
لے گئے اور یہ ان کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا۔
کیا اب بھی ہم حرام روزی سے باز نہیں آئیں گے! اللہ پاک کو ناراض کرکے کہاں
جائیں گے؟ دنیا فانی ہے،دنیا کی وقتی لذتوں کو حاصل کرنے کے لیے اللہ پاک کو ناراض
کر کے ہم جہنم سے کیسے بچ پائیں گے! سود لینے اور دینے والا دنیا میں بھی پریشان
رہتا ہے،ہمارے معاشرے میں اس وجہ سے کتنے ہی لوگ بربادی کا شکار ہیں اس کی وجہ علم
دین سے دوری ہے،دعوت اسلامی کا مشکبار مدنی ماحول ہمیں رب سے قریب کرتا ہے،رب کو
ناراض کرنے والے کاموں سے بچنے کا ذہن دیتا ہے،عشق رسول کے جام گھول گھول کر پلائے
جاتے ہیں، اللہ پاک ہمیں اور ہماری نسلوں کو سدا مدنی ماحول سے وابستہ فرمائے اور
ہمیں بے حساب بخش دے۔آمین