بلاشبہ اسلام میں سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے،سود بدترین تجارتی و معاشرتی برائی ہے اور اخلاقی پستی کی ذمہ دار ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے معاشرہ میں مختلف طریقوں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے،معاشی استحصال، مفت خوری،حرص و طمع،خود غرضی، سنگ دلی، مفاد پرستی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید میں سود سے منع کیا گیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کے لغوی معنی ہے زیادتی، بڑھنا،اضافہ ہونا،بلند ہونا، شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کسی چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو،مثلا رقم کے عوض رقم زیادہ لینا جیسے سو روپے دے کر شرط لگانا کہ دو سو روپے دینے ہوں گے یا قرض دے کر اس سے مزید کوئی فائدہ لینا۔

سود اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ ہے، جو لوگ سود کی ممانعت کے باوجود بھی سود جیسے قبیح عمل میں مصروف رہتے ہیں ان کے اس عمل پر قہر و غضب کے اظہار کے لیے اللہ پاک نے اس عمل کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہے: فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 279) ترجمہ: اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔

جہاں قرآن پاک میں اللہ پاک نے سود کی ممانعت فرمائی ہے وہیں سرور کائنات ﷺ نے بھی سود کی مذمت فرمائی ہے، چنانچہ

فرامین مصطفیٰ:

1۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث:2356)

اس حدیث مبارکہ میں ماں سے زنا کو تشبیہ دے کر سود کو غلیظ ترین عمل کہا گیا ہے یقیناً ایک ذی شعور اور غیور شخص کبھی بھی یہ فعل بد انجام نہیں دے گا۔

2۔جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ بدکاری کے ساتھ ساتھ سود بھی گناہ کبیرہ اور اللہ کی سخت ناراضی کا باعث ہے، یہ دونوں گناہ انسان کو انتہائی پستی میں پھینک دیتے ہیں اور انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتے ہیں۔

3۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند کشادہ اور بڑے تھے جس میں سانپ تھے جو پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا: سود کھانے والے ہیں۔(سنن ابن ماجہ،حدیث: 2273)

4۔ سود کا ایک درہم یہ جاننے کے باوجود کہ یہ سود ہے کھانا 36 بار زنا کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔(مسند امام احمد،8/223،حدیث: 22016)

5۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اللہ پاک اس قوم پر پاگل پن مسلط کر دیتا ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 4/437)

مذکورہ احادیث میں بیان کردہ وعیدیں اور عذابات آج ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں غور یہ کرنا ہے کہ کہیں یہ سب سود کی وجہ سے تو نہیں؟ سود اجتماعی خیر خواہی کا قاتل ہے اس میں سارا نقصان سود لینے والے کو برداشت کرنا پڑتا ہے،سودی معاملات کرنے والے کا دل سخت ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں برے خیالات جنم لے کر اس کو برے کاموں پر ابھارتے ہیں، سود سے بچنے کے لیے حلال کمائیں اور اچھی نیتوں کے ساتھ روزگار حاصل کریں، کیونکہ حلال میں برکت ہے، کفایت شعاری سے کا م لیں، فضول خرچوں سے بچیں تاکہ قرضہ لینے کی ضرورت نہ پڑے، کیونکہ سود کی ابتدا قرض سے ہی ہوتی ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے حبیب ﷺ کے صدقے میں سود جیسے موذی مرض سے تا قیامت نجات دے۔آمین