فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، وہ یہ کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) سود خور کو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 279) ترجمہ کنز الایمان: پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔

صراط الجنان میں ہے: سود کی حرمت کا حکم نازل ہو چکا اس کے بعد بھی جو سودی لین دین جاری رکھے گا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کا یقین کر لے، یہ شدید ترین وعید ہے۔

سود کی عام مثالیں ہمارے معاشرے میں بھی پائی جاتی ہیں، مثال کے طور پر کسی کو گاڑی چاہیے پیسے نہیں ہیں کیا پرواہ؟ کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ قرض لے لو سود دے دینا! بلڈنگ بنانی ہے، قرض لے لو سود دے دینا! آئیے سود کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجیے:

1۔نبیوں کے سلطان ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 70)

2۔اللہ کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:1598)اے سودی کھاتے لکھنے اور سود پر گواہ بننے والو! دیکھو کس قدر وعید مروی ہے۔

3۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر، ص 69)

4۔بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (معجم اوسط، 5/227، حدیث: 7151)

5۔پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔

اللہ پاک ہم سب کو سود کی آفت سے محفوظ فرمائے۔ آمین

کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی


سود ایک حرام کردہ کام ہے جو انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے انسان چند پیسوں کے لیے حرام کام کرتا ہے، سود دنیا و آخرت کو تباہ کرنے والا کام ہے، سود کی ممانعت کے متعلق قرآن پاک میں بھی بیان ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ 3، البقرۃ: 275-276)ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔

پانچ فرامین مصطفیٰ:

1۔ سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔(مسند،8/223، حدیث:22016)

2۔ سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند،2/50، حدیث:3754)

3۔ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1597)

4۔ سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(ابن ماجہ،2/73، حدیث: 2276)

5۔ ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو۔

سود کی تعریف: ربا یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادہ ہے۔ عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔

درس: سود ایک بری صفت ہے ہمیں اس سے بچنا چاہیے جو کوئی ایسے کاموں میں ملوث ہے اسے چاہیے کہ فورا ً توبہ کریں اور اس جہنم میں لے جانے والے کام سے پرہیز کریں، کیونکہ ہم سے جہنم کا عذاب سہا نہیں جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں کبیرہ گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔

سود کی تعریف: فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں: قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے۔

لغوی و اصطلاحی معنیٰ: سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی ہے بڑھنا، اضافہ ہونا، بلند ہونا۔ شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی (ناپ کر بیچی جانے والی) یا وزنی (تول کر بیچی جانے والی) چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔

بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص و طمع، خود غرضی، شقاوت و سنگ دلی اور مفاد پرستی جیسی اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں، بلکہ سود اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے، اسی وجہ سے قرآن کریم میں سود سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ کریم پارہ 4 سورۂ اٰل عمران آیت نمبر 130 میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔ اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔

احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت: کثیر احادیث میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے، چنانچہ

1۔ حضور رحمۃ للعالمین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1599)

2۔ سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2356)

3۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 70)

4۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر،ص 69)

5۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے ،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، 3/71، حدیث: 2273)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: سود کے بے شمار معاشرتی نقصانات ہیں جن میں سے چند ایک پیشِ خدمت ہیں:

سود خور حاسد بن جاتا ہے: اس کی تمنا ہوتی ہے کہ اس سے قرض لینے والا نہ تو کبھی پھلے پھولے اور نہ ہی ترقی کرے کہ اس کے پھلنے پھولنے میں اس کی آمدنی تباہ ہوتی ہے، کیونکہ جس نے اس سے سود پر قرض لیا اگر وہ ترقی کر جائے گا اور قرض اتار دے گا تو اس کی آمدنی ختم ہو جائے گی، یہی حسد اسے کہیں کا نہیں چھوڑتا۔

سود خور بے رحم ہو جاتا ہے: سود خور کے دل سے رحم نکل جاتا ہے اسے کسی پر ترس نہیں آتا، مجبور سے مجبور شخص اس کے آگے ایڑیاں رگڑتا ہے اور اگر وہ سر کی ٹوپی اتار کر اس کے پاؤں پر رکھ دے تو بھی اسے رحم نہیں آتا، کیونکہ سود نے اس کے قلب کو کالا کر دیا ہے اور وہ ہر ایک کی مالی مدد سود ہی کی خاطر کرتا ہے اور اس طرح قرض دینے کے عظیم اجر و ثواب سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

سود خور مال کا حریص ہو جاتا ہے: سود خور گھر کے گھر تباہ و برباد کرتا ہے، سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے اور مال کی محبت میں دیوانہ وار گھومتا رہتا ہے، صدقہ و خیرات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔

سود کا علاج: سود کی نحوست سے محفوظ رہنے کے لیے سب سے پہلے لمبی امیدوں سے اپنے دامن کو پاک کرنے کی ضرورت ہے۔

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

دوسرا علاج دنیاوی دولت کی محبت سے پیچھا چھڑانا ہے اور تیسرا علاج قناعت کو اختیار کرنا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب: بیان کی گئی آیات کریمہ اور فرامین مبارکہ میں سود کی مذمت بیان گئی ہے۔ اے کاش! ہمیں قناعت نصیب ہو جائے کیونکہ جو قناعت پسند ہو وہ سادگی اپناتا ہے، سادہ غذا اور لباس کو کافی جانتا ہے، اسے دولت کی چاہت ہوتی ہے نہ دولت مند کی اور جو قناعت پسند نہ ہو وہ حرص و لالچ کا شکار ہو جاتا ہے، کبھی سیر نہیں ہوتا، ہر وقت اس پر دَھن کمانے کی دُھن سوار ہوتی ہے یہاں تک کہ موت آپہنچتی ہے۔

بے جا مال کی محبت سے چھٹکارا پانے اور قناعت کی دولت اپنانے کے لیے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے نیک اعمال پر عمل اور سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کو اپنا معمول بنا لیجیے۔

اللہ کریم ہم سب کو عافیت اور امان عطا فرماکر سود کی آفتوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین


مال اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، انسان مال کے ذریعے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، بروز قیامت مال کے متعلق سوال ہوگا، ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے، ایک بھیانک برائی جو ہمارے معاشرے میں پھیلتی چلی جا رہی ہے جس سے اکثر لوگ متاثر ہیں وہ خطرناک برائی سود ہے۔

سود کسے کہتے ہیں: وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں یا روپے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو کچھ زائد دینا پڑتا ہو وہ سود کہلاتا ہے۔

مثال: زید نے بکر کو 100 روپے قرض اس شرط پر دیا کہ جب وہ قرض واپس کرے تو 110 روپے کرے تو یہ سود ہے، جبکہ قرآن میں سود کو حرام قرار دیا ہے۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(صراط الجنان، 2/51)

2۔ سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(صراط الجنان، 2/51)

3۔ سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(صراط الجنان، 2/51)

4۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے۔(الکبائر للذہبی، ص 69)

5۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(الکبائر، ص 70)

سود کے معاشرتی نقصانات: سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ کر دیتی ہے، سود معاشرے میں انسانی جذبوں اور رشتوں کو کمزور کر دیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے جرائم بھی سامنے آتے ہیں، جیسے سود کے قرض تلے دبا انسان کبھی خود کشی کر لیتا ہے، سود کی ہی بنا پر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتے ہیں۔

سود سے بچنے کی ترغیب: سود کے عذابات اور حدیث میں اس کی وعیدیں اس کے دنیوی نقصانات پر غور و فکر کریں اور دل میں خوف خدا رکھیں ان شاء اللہ سود سے بچنے کی ترغیب ملے گی۔ 


اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) (پ3، البقرۃ: 275)ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔

ارشادِ باری تعالی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) (پ 3، البقرۃ: 278) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو۔

احادیثِ مبارکہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے : تاجدارِ رسالت ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے عدات رکھے تو میں نے اس سے جنگ کا اعلان کردیا۔ (بخاری، 4/248، حدیث: 6502)

حضرت ابو قتادہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ پاک اس کو قیامت کے دن تکلیفوں سے نجات دے وہ کسی مفلس کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے۔ (مسلم، ص 845)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے: نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کردیا اللہ پاک قیامت کے دن اسے عرش کے سائے میں رکھے گا، جبکہ اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (ترمذی، 3/52، حدیث: 1310 )

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے: حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جو بیچنے اور خریدنے اور تقاضا کرنے میں آسانی کرے۔ (بخاری، 2/12، حدیث: 4076)

اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ اللہ پاک نے اپنی بارگاہ میں حاضر اُس معاف کرنے والے مال دار پر آسانی کرنے اور تنگدست کو مہلت دینے والے شخص سے فرمایا: میں تجھ سے زیادہ معاف کرنے کا حق دار ہوں، اے فرشتو! میرے اس بندے سے درگزر کرو۔ (مسلم، ص 844، حدیث: 1560)


عقد معاوضہ یعنی لین دین کے معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہوتو یہ سود ہے، سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر (یعنی حرام ہونے کا انکار کرنے والا) کافر ہے۔ جس طرح سود لینا حرام ہے سود دینا بھی حرام ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ سود کا گناہ ایسے 70 گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے کم درجہ کا گناہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے بدکاری کرے۔(دلچسپ معلومات، ص 135)

2۔ فرمان مصطفیٰ :رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا،پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟کہا یہ شخص جو نہر میں ہے سود خوار یعنی سود کھانے والا ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص 85)

3۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے،سود دینے والے،سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔(صحیح مسلم)

4۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے،میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے عرض کی:یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ،ص 72،حدیث:2273)

5۔ سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو، صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ وہ کون سے گناہ ہیں؟ ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا،ناحق کسی جان کو قتل کرنا، یتیم کا مال کھانا،سود کھانا، میدان جہاد سے بھاگ جانا، پاک دامن عورت کو زنا کی تہمت لگانا۔(مسلم، ص 65، حدیث: 89)


سود کو عربی میں ربا کہتے ہیں اس کے لغوی معنی بڑھنا اور اضافہ ہونا ہے اور شرعی اصطلاح میں سود کی تعریف قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی یا وزنی چیز کو تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔ بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے، اس کی بہت تباہ کاریاں ہیں، قرآن مجید اور حدیث نبوی میں بھی سود کو منع فرمایا گیا ہے۔

سود کے متعلق احادیث مبارکہ:

1۔ سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کی گواہی دینے والے اور اس کا معاملہ لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔(ابن ماجہ، 2/764)

2۔ لوگوں پر ایسا زمانہ ضرور آئے گا کہ کوئی بھی ایسا نہ رہے گا جس نے سود نہ کھایا ہو اور جو سود نہ کھائے اسے بھی سود کا غبار پہنچے گا۔(کتاب التجارۃ، حدیث: 2278)

3۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جس شب مجھے معراج میں سیر کرائی گئی میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جس کے پیٹ کمروں کے مانند تھے ان میں بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے، میں نے کہا: جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ کہنے لگے: سود خور۔

4۔ سود کا گناہ ماں سے زنا کرنے کے گناہ سے بھی بد تر ہے، حدیث شریف میں ہے: سود میں 70 گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابو داود، حدیث: 2279)

ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

معاشرتی نقصانات: نعوذ باللہ لوگوں نے خدا کے اس ممنوع کردہ امر کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ہے، سود کو Return اور Interest کے پہناو میں اس کی شدت اور خباثت کو عوام کی نظروں میں کم ہونے کی کوشش کی ہے، سود یہ ہے کہ رقم کے استعمال کرنے پر اس کی Opportunity cast وصول کرنا یعنی اصل رقم سے کچھ زائد رقم وصول کرنا دوسرے لفظوں میں رقم کے استعمال کا کرایہ وصول کرنا سود کی ناپ میں سود جیسا کام کر کے انسان آخرت کے دن تو رسوا ہوگا اور ساتھ ہی دنیا میں بھی اس انسان کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سود سے بچنے کی ترغیب: جیسا کہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے بھی ثابت ہے کہ سود کتنا بڑا حرام کام ہے آخرت میں اس کی پکڑ بہت سخت ہے اگر انسان اپنے دل میں اس بات کو مدنظر رکھے کہ ہمارے پروردگار اور آخری نبی ﷺ نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے اور ہم بھی اس کام سے منع رہیں، اللہ اور اس کے رسول نے جس کام کو حکم دیا ان کاموں کو بجا لائیں اور جن کاموں سے منع فرمایا ان کاموں میں منع رہیں۔ اللہ اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین


گناہ دو طرح کا ہوتا ہے؛گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ،مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ گناہ صغیرہ کو بھی ہلکا نہیں جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چھوٹی چنگاری بھی گھر جلا سکتی ہے،اس لیے وہ ان کے کر لینے پر بھی جرأت نہیں کرتا اور اگر ہو جائیں تو فوراً توبہ کر لیتا ہے،اسی طرح سود بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے،سود قطعی طور پر حرام ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال،حرص و طمع،خود غرضی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی و اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ- (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں،لغوی معنی زیادہ ہونا،پروان چڑھنا جبکہ شرعی اصطلاح میں سود کہ تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دیئے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 100 روپے کے 120 روپے لے گا،مہلت کے عوض یہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے یہ سود ہیں۔

سود کے متعلق احادیث مبارکہ:

1۔حضور ﷺ نے سود لینے والوں، سود دینے والوں، سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔

2۔سود کا ایک درہم جو آدمی جان بوجھ کر کھائے گا اس کا گناہ 36 بار زنا کرنے سے زیادہ ہے۔

3۔رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی سود لینے والے اور دینے والے اور اس کا کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والوں پر اور فرمایا وہ سب برابر ہیں۔

4۔سود میں 70 گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسا ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔

5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔

سود کے نقصانات:سود دلوں میں کینے اور دشمنی کا بیج بوتا ہے،سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر مرتب کرتی ہے،سود خوری کی وجہ سے افراد اور قوموں کے درمیان اجتماعی تعاون کا رشتہ ڈھیلا پڑ جاتا ہے،سود خوری ایک قسم کا غیر صحیح مبادلہ ہے جو انسانی رشتوں اور جذبوں کو کمزور کر دیتا ہے،سود جیسی برائی اب اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے،سود خوری کی وجہ سے کبھی مقروض خود کشی کرلیتا ہے،کبھی شدید کرب سے دو چار ہو کر سود خوار کو خطرناک طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے،سود خوری کی وجہ سے وہ قومیں جو دیکھتی ہیں کہ ان کا سرمایہ سود کے نام پر دوسری قوم کی جیب میں جا رہا ہے ایک خالص بغض و کینہ اور نفرت سے اس قوم کو دیکھے گی۔

سود سے بچنے کی ترغیب:یاد رکھیے!سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے ولا کام ہے،اس کی حرمت کا منکر یعنی اس کے حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق مردود الشہادہ ہے،سود کو اللہ پاک نے مسلمانوں پر حرام قرار دیا ہے اور جو بد نصیب یہ جاننے کے باوجود بھی سودی لین دین جاری رکھے گویا وہ اللہ پاک اور اسکے رسول ﷺ سے جنگ کرنے والا ہے،زندگی بہت مختصر سی ہے اس کا کوئی بھروسا نہیں کہ کب ختم ہو جائی گی،لہٰذا ہمیں ایسے گناہوں سے دور رہنا چاہیے۔

اللہ پاک نے سود کے بارے میں آیتیں بھی بیان فرمائی ہیں اور احادیث مبارکہ بھی،پھر بھی لوگ اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:سود لینے والا،دینے والا اور کھانے والا یہ سب جہنمی ہیں۔

اللہ پاک ہمیں سود جیسے کبیرہ گناہ سے خود بھی بچنے اور دوسروں کو بھی بچانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی بھی توفیق عطا فرمائے ایسے گناہوں کا خیال بھی ہمارے دل و دماغ میں نہ آئے۔آمین


سود ہلاکت میں ڈال دینے والے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے اور یہ تاریک رات میں کسی چٹان پر چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی ہے اور سود کا سب سے ادنیٰ گناہ یہ ہے کہ سود لینے والا اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے والے کی طرح ہے اور ماں کے ساتھ زنا کرنا غیر عورت سے زنا کرنے سے 70 درجہ بڑا گناہ ہے۔

تعریف:عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص 83)

فرامین مصطفیٰ:

1۔اللہ کا ایک فرشتہ ہر دن اور رات میں بیت المقدس کی چھت پر اترتا ہے جس نے حرام کھایا تو جب تک وہ حرام اس کے گھر سے نہ نکل جائے اللہ نہ اس کی فرض عبادت قبول فرمائے گا نہ ہی نفل اور اگر وہ اسی حال میں مرگیا تو میں اس سے بری ہوں۔(بحر الدموع،ص 279)

2۔جس نے حلال کا ایک درہم کمایا اور اسے حلال جگہ خرچ کیا تو اللہ سود اور حرام خوری کے علاوہ اس کے تمام گناہ معاف فرمادے گا۔(بحر الدموع،ص 279)

3۔فرمان مصطفیٰ :رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا،پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟کہا یہ شخص جو نہر میں ہے سود خوار ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص 85)

4۔اگر کوئی شخص دس درہم سے ایک کپڑا خریدے اور ان میں حرام کا ایک درہم بھی ہو تو اللہ اس وقت تک اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا جب تک وہ ایک درہم اس کے مالک کو نہ لوٹا دے۔(بحر الدموع،ص 281)

5۔حرام یا شراب سے نشو و نما پانے والا گوشت اور خون جنت میں داخل نہ ہوگا۔(بحر الدموع،ص 281)

چند معاشرتی نقصانات:سود معاشرے میں حسد کو پیدا کرنے کا سبب ہے سود خور بے رحم ہو جاتا ہے،سود سے معیشت برباد ہو جاتی ہے،سود کی نحوست سے انڈسٹری برباد ہوتی ہیں،تجارت ختم ہو جاتی ہے، بے روزگاری بڑھتی ہے،جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:پیاری اسلامی بہنو! لمبی لمبی امیدیں لگانا چھوڑ دیں کہ آنے والا وقت کس نے دیکھا ہے؟ دنیا کی دولت سے چھٹکارا حاصل کریں کہ یہ بربادی کا سبب ہے،حلال پر حساب ہے اور حرام پر عذاب، اس کو مد نظر رکھیں اور حدیث کے مطابق تو کامیاب شخص وہ ہے جس کو بقدر کفایت رزق ملا اور اسے اس پر قناعت دی،ان باتوں کو مد نظر رکھیں گی تو ان شاء اللہ سود سے بچنے میں کامیابی ملے گی۔


آج کل سود معاشرے میں بہت عام ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ یہ ایک سخت کبیرہ گناہ اور اللہ پاک کی ناراضگی کا باعث ہے جس کی مذمت قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی اور اگر یہ کہیں تو شاید جھوٹ نہ ہو کہ شرک کے بعد جس گناہ کی اتنی مذمت بیان کی گئی ہے وہ سود ہی ہے اور اتنے سخت احکامات کسی گناہ کے بھی نہیں بیان ہوئے، قرآن پاک میں اللہ پاک نے سود سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو اس سے بچو اور اگر تم اس سے باز نہ آؤ تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کا یقین کر لو۔

بے شک یہ بات تو ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے کہ جس سے اللہ اور اس کا رسول جنگ کریں تو وہ تباہ برباد ہی ہوگا، اتنے سخت احکام جس چیز کے بارے میں آئے آئیے اس کی تعریف بھی جان لیتے ہیں، سود کا مطلب ہے ایک چیز دے کر اس سے زیادہ وصول کرنا۔ آئیے سود کے بارے میں پانچ فرامین مصطفیٰ سن لیتے ہیں:

1۔ سود خور پر لعنت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود دینے والے، لینے والے اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت اور فرمایا وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1598)

2۔ سود زنا سے بھی سخت ہے: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔(مسند امام احمد، 8/223، حدیث: 62016)

3۔ شک و شبہ والی بات: سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(سنن ابن ماجہ، حدیث: 2276)

4۔ سود خور کا عذاب: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں، میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود خوار ہیں۔(ابن ماجہ، حدیث: 2273)

سود معاشرے کو تباہ کرنے والا گناہ ہے سود کی وجہ سے کاروبار ختم ہو جاتے ہیں، سود اللہ کی لعنت اور حضور ﷺ کی ناراضگی کا باعث ہے، لہٰذا ہمیں اس سے بچنا اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ نے قرآن پاک میں بارہا اس سے منع فرمایا ہے۔


سود کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔اللہ کی ناراضی کا سبب ہے۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اعلانِ جنگ ہے۔اللہ پاک  نے سود کو حرام قرار دیا ہے۔ جب ایک چیز جس کو اللہ پاک نے حرام قرار دیا ہے تو اس میں کس قدر نقصانات ہوں گے! سود کی مذمت اور حرمت قرآن و حدیث دونوں سے صراحتاً ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہوپھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کرلو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کااور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں”رِبا“ کہتے ہیں، جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا،پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے اور شرحِ سود (Interest Rate) سے مراد قرض کی رقم کا کرایا ہے جو قرض لینے والا ایک مقررہ مدت کے بعد قرض دینے والے کو بطورِ سود ادا کرنے کاپابند ہوتا ہے ۔اسے عام طور پر فیصد میں بیان کیا جاتا ہے۔ فقہا نے لکھا ہے:سود اس اضافے کو کہتے ہیں جو دو فریقوں میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ اور عوض سے خالی نہ ہو۔ (ہدایہ)

سود کی مذمت احادیث ِمبارکہ کی روشنی میں:کثیر احادیثِ مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے۔چنانچہ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

1-آپ ﷺ نے سود کو ہلاکت خیز عمل قرار دیا ہے: شہنشاہِ مدینہ،سرورِ قلب و سینہ ﷺ کا فرمانِ باقرینہ ہے:سات چیزوں سے بچو جو تباہ و برباد کرنے والی ہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ! وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:شرک کرنا،جادو کرنا،اُسے ناحق قتل کرنا جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا،سود کھانا،یتیم کا مال کھانا،جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن، شادی شدہ، مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔(بخاری،2/242، حدیث: 2766)

2- سود سے ساری بستی ہلاک ہوجاتی ہے:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ احمد مجتبیٰ،محمد مصطفٰے ﷺ نے فرمایا: جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص69)

3- سود سے پاگل پن پھیلتا ہے:نبیوں کے سلطان،سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے ۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص69)

4- سودخور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے آقا،شفیعِ روزِ شمار،دو عالم کے مالک و مختار، باذنِ پروردگار ﷺ فرماتے ہیں:شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے تھے)،جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔( ابنِ ماجہ،3،حدیث: 2273)

5- سودی کاروبار میں شرکت باعث لعنت ہے:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا:یہ سب (گناہ میں) میں برابر ہیں۔

(مسلم، ص862، حدیث:1598)

سود کے معاشرتی نقصانات:سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ کر دیتی ہے اور دولت و ثروت کے ارتکاز کا سبب بنتی ہے۔ کیونکہ اس سے ایک طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے اور تمام تر نقصانات دوسرے طبقے کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ یہ جو ہم سنتی ہیں کہ امیر غریب ملکوں میں دن بدن فاصلہ بڑھ رہا ہے تو اس کی ایک اہم وجہ سود ہے۔ آج کل یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ کاروبار میں ترقی نہیں ہورہی، دن بدن خسارے اور نقصان کا سامنا ہے، گھریلو اخراجات پورے نہیں ہو رہے،قرض پہ قرض لے کر گزارا ہو رہا ہے، اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے معاشی بحران کا سب سے بڑا سبب سود ہے ۔لوگ شعوری اور لاشعوری طور پر سودی معاملے کا شکار ہو کر دنیا میں معاشی تنزلی اور آخرت کے بدترین عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔

یقیناً مال اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعے انسان اللہ پاک کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجود خالقِ کائنات اللہ پاک اور تمام نبیوں کے سردار ﷺ نے مال کو متعدد مرتبہ فتنہ، دھوکے کا سامان اور محض زینت کی چیز قرار دیا ہے کہ روزِ قیامت ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ پاک کو جواب دینا ہو گا کہ کہاں سے کمایا؟ یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی؟خالقِ کائنات سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب کو مال کی محبت سے پاک رکھے اور ہمیں جائز اور حلال طریقے سے مال و دولت کے حصول کے لیے کوشش کرنے اور سود جیسے بدترین گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


سود کی تعریف:قرض پر نفع لینا سود ہے۔فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں: قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نِرا حرام ہے۔حدیث میں ہے: رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔(فتاویٰ رضویہ،17/713)

آج مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے مسلمانوں کو مختلف لالچ دے کر شرحِ سود کم کر کے سود پر قرض لینے پر اُکسایا جا رہا ہے۔ سود کی درخواست داخل کرنے پر قرعہ اندازی اور انعامات کا لالچ دیا جا رہا ہے۔لالچ نے لوگوں کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ وہ سودی لین دین اور سودی کاروبار میں پڑ گئے ہیں۔اگر اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ ناراض ہو گئے تو ایسے لوگ کیا کریں گے؟ قیامت کا عذاب کیسے برداشت کریں گے؟آئیے !سود کے بارے میں پیارے آقا ﷺ کے فرامین سنیے اور خود کو قبر و حشر کے عذاب سے ڈرایئے۔

1) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور سیدُ المرسلین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا:یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص862،حدیث: 1599)

2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا گناہ 73 درجے ہے، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ (مستدرک،2 /338، حدیث:2306)

3) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار بدکاری کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان،4 /395، حدیث:5523)

4)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص69)

5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سودخور ہیں۔( ابی ماجہ، 3/72،حدیث:2273)

آج ہمارے پیٹ میں اگر معمولی سا کیڑا چلا جائے تو طبیعت میں بَھو نچال آ جاتا ہے۔قیامت کا یہ سخت عذاب کیسے برداشت کریں گی؟ سود کھانے والے لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے کہ اس میں سانپ بھرے ہوں گے۔ کس قدر بھیانک عذاب ہے۔ اللہ پاک ہمیں سود کی آفت سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ النبی الامین