سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت محمد عدنان عطاری،جامعۃ المدینہ فیضان
عالم شاہ بخاری کراچی
پیاری اسلامی بہنو! سود کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے آئیے سب سے پہلے
جانتے ہیں کہ کبیرہ گناہ سے کیا مراد ہے؟ راجح اور مدلل قول یہ ہے کہ جو شخص
گناہوں میں سے کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے جس کا بدلہ دنیا میں حد ہے،مثلا
قتل،زنا یا چوری کرے یا ایسا گناہ کرے جس کے متعلق آخرت میں عذاب یا غضبِ الٰہی
کی وعید ہو یا اس گناہ کے مرتکب پر ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی زبان سے لعنت کی گئی
ہو تو وہ کبیرہ گناہ ہے۔(76 کبیرہ گناہ،ص 17)
قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنْ
تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ
وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا(۳۱) (پ 5،
النساء: 31) ترجمہ کنز الایمان: اگر بچتے رہو کبیرہ گناہوں سے جن کی تمہیں ممانعت
ہے تو تمہارے اور گناہ ہم بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔اس آیت
مبارکہ میں اللہ پاک نے کبیرہ گناہوں سے بچنے والے شخص کو جنت میں داخل فرمانے کا
ذمہ لیا ہے،گناہ کبیرہ کی تعداد کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، بعض کا قول
ہے کہ گناہ کبیرہ 7 ہیں، ان حضرات نے حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان سے دلیل لی ہے؛
فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو،پھر آپ ﷺ نے ان 7 گناہوں کا تذکرہ
فرمایا: شرک، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا،
جنگ کے دوران میدان سے بھاگ جانا، پاک دامن کو زنا کی تہمت لگانا۔
قارئین! ابھی جو ہم نے حدیث ملاحظہ کی اس میں بیان
ہوا کہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ سود ہے،بد قسمتی سے آج کل ہمارے معاشرے میں
سود بہت عام ہو چکا ہے،بات کریں تجارت کی تو سودی کاروبار،بات کریں بینکوں کی سودی
لین دین، بات کریں قرض کی تو سودی شرائط ،بات کریں کمپنیوں کی تو بہت ہی کم ایسی
کمپنیاں ہیں جو 100 فیصد سود سے پاک ہوں،اِدھر سود اُدھر سود ہمارا معاشرہ چاروں
طرف سے سود میں گھرا ہوا ہے۔ اللہ پاک ہمیں سود سمیت تمام گناہوں سے بچائے۔آئیے
سود کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ سنتے ہیں، قارئین ملاحظہ کیجیے اور غور کریں کہ اگر
معاذ اللہ آپ بھی سود کی آفت میں پھنسے ہیں تو فوراً سے پیشتر پکی توبہ کر لیں۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔اللہ پاک نے سود لینے والے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔(مسلم،ص 862، حدیث:
1597)
2۔سود لینے والا،دینے والا،سود کی تحریر لکھنے والا جبکہ سود جان کر یہ کام
کرتے ہوں قیامت تک حضور ﷺ کی زبان پر انہیں ملعون کہا گیا۔(نسائی، ص 815،
حدیث:5114)
3۔سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو، صحابۂ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ
وہ کون سے گناہ ہیں؟ ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا،ناحق کسی جان کو قتل کرنا،
یتیم کا مال کھانا،سود کھانا، میدان جہاد سے بھاگ جانا، پاک دامن عورت کو زنا کی
تہمت لگانا۔(مسلم، ص 65، حدیث: 89)
4۔سود کا گناہ 73 درجے ہیں ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا
کرے۔(مستدرک، 20/338، حدیث: 4356)
5۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا
ہے۔(شعب الایمان، 4/395، حدیث:5523)
قارئین محترم! دیکھا آپ نے سود کی کتنی مذمت ہے،لہٰذا نیت کر لیں کہ نہ سود
کھائیں گے، نہ کھلائیں گے، سود میں ہر طرح سے پڑنے سے بچیں گے۔
اللہ کریم ہمارے معاشرے کو سود جیسی بری عادت خصلت سے بچا کر ہمارے معاشرے کو
پاک و صاف کرے اور ہم سب کو بھی سود سے بچائے۔آمین
سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت محمد نواز، فیضان ام عطار شفیع کا
بھٹہ سیالکوٹ
فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے ان میں ایک اہم ترین
برائی جو ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ کہ کسی حاجت
مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہوگیا ہے،لہٰذا آئیے اس بھیانک بیماری کے بارے
میں سنتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
سود کی تعریف:عقد معاوضہ یعنی
لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے
بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو
فائدہ حاصل ہو وہ سب سود ہے۔
حکم:سود قطعی حرام
اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے
کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر،ص 69)
2۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر
للذہبی،ص 70)
3۔سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سب سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے
زنا کرے۔(شعب الایمان،ص 394،حدیث:5560)
4۔قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط
الحواس ہوگا۔(معجم کبیر، 18/20،حدیث:110)یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف
ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دیا جس سے وہ
یکساں نہ چل سکیں گے اس لیے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف
چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا
مشکل ہوگا اور یہی سود خور کی پہچان ہوگی۔
5۔لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی پرواہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو
کہاں سے حاصل کیا ہے حلال سے یا حرام سے۔ (بخاری،2/14،حدیث:2083) اس حدیث مبارکہ
سے معلوم ہوا مالِ حرام میں کوئی بھلائی نہیں اس میں بربادی ہی بربادی ہے مال حرام
سے کیا گیا صدقہ قبول ہوتا ہے نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے تو عذاب
جہنم کا سبب بنتا ہے۔
نقصانات:سود کا لین دین کرنے سے اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ
ناراض ہوتے ہیں،سود خور کا صدقہ جہاد اور حج قبول نہیں ہوتا،سود خور گھر کے گھر
تباہ کر دیتا ہے،سود کی نحوست لمبی امیدوں کی وجہ سے ہوتی ہے اپنے آپ کو سود جیسی
نحوست سے بچانے کے لیے خود کو لمبی امیدوں سے پاک رکھنا ہوگا،اللہ پاک ہمیں حلال رزق
کھانے کی توفیق عطا فرمائے اور سود کی نحوست سے محفوظ رکھے۔
سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت محمود علی،جامعۃ المدینہ فیض مکہ
خداداد کالونی کراچی
سود ایک اجتماعی جرم ہے،یہ معاشرے میں ایسی بیماری ہے جو اگر پھیل جائے تو وہ
معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے،سود خور کا انجام دنیا میں بھی باعث عبرت ہے اور
آخرت میں تو رب تعالیٰ نے سود خور سے دردناک عذاب کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنا
وعدہ ضرور پورا فرماتا ہے۔
سود کیا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے
وہ سود ہے۔(سود اور اس کا علاج،ص 4)یعنی قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جاتا ہے سود
کہلاتا ہے اور قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں صراحتاً حرام قرار دیا گیا ہے اور
اس کی مذمت میں کثیر احادیث مبارکہ اور آیات کریمہ ملتی ہیں۔سود خور کا انجام
دنیا میں بھی بھیانک ہوتا ہے اور آخرت میں جو اس کا حال ہوگا شب معراج میں نبی
کریم ﷺ نے ملاحظہ فرمایا اور بیان فرمایا:میں نے شب معراج دیکھا کہ دو شخص مجھے
ارض مقدس لے گئے پھر ہم آگے چل دیئے یہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں
ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر
رکھے ہوئے تھے دریا میں موجود شخص جب بھی نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا
شخص ایک پتھر اس کے منہ پر مار کر اسے اس کی جگہ دوبارہ لوٹا دیتا اسی طرح ہوتا
رہا کہ جب بھی وہ دریا والا شخص کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا دوسرا شخص اس کے منہ
پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا دیتا،میں نے پوچھا:یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا یہ
سود کھانے والا ہے۔(سود اور اس کا علاج،ص 1)
استغفر اللہ کس قدر تکلیف دہ اور درد
ناک عذاب کا مستحق ہے سود خور چند دن کی زندگانی میں راحت حاصل کرنے کے لیے اللہ و
رسول سے جنگ کرتا ہے اور نہ ختم ہونے والے عذابات میں مبتلا ہو جائے گا اور دنیا
میں بھی اس شخص کا کیسا عبرت ناک انجام ہوتا ہے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ
اتنی بھیانک موت کہ پیٹ پھٹ کر گندگی کا ڈھیر بنا اور کوڑے دان والے شہر سے باہر
پھینک آئے،تو کہیں قبر میں اژدھا موجود ہوتا ہے جو کہ سود خور کے انتظار میں ہے
کہ اس سود خور کا لاشہ آئے اور میں اس پر ہلہ بول دوں،لوگوں نے دنیا میں اس کا یہ
عبرت ناک انجام دیکھا۔
اسی طرح ایک اور سود خور کا انجام عبرت ناک ہوا، یہ اس شخص کا واقعہ ہے جو
لوگوں کو قرض دیتا اور پھر اس پر سود لیتا اس کا یہی معمول تھا،وقتِ آخر موت کو
طلب کرتا موت مانگتا پر موت نہ آتی،اس قدر تکلیف میں رہا کہ لوگوں نے اس کا یہ
انجام اپنی آنکھوں سے دیکھا،آخر کار اپنے ہی بیٹے سے اس نے خوب منتیں کیں مجھ سے
تکلیف سہی نہیں جاتی خدارا مجھے قتل کر دیا جائے اور اس کے بیٹے نے اپنے ہاتھوں سے
اس کا دم گھوٹا تا کہ وہ مر سکے یوں سود خور کا انجام یہ ہوا کہ اپنے آپ کو ختم
کرنے کے لیے وہ قتل ہونے کے لیے بھی تیار ہو گیا۔
ہم اسی طرح کہ کئی واقعات سنتے اور دیکھتے ہیں پر سود سے باز نہیں آتے۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔سود اس قدر گھٹیا شے ہے کہ اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سود کے 72
دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سود اور اس
کا علاج،ص 5)
2۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا
ہے۔(شعب الایمان، حدیث:5523) سود کس قدر غلیظ و گھٹیا ہے اس کی شدید ترین مذمت
مندرجہ بالا احادیث موجود ہیں۔
3۔نبی کریم ﷺ نے سود کھانے کھلانے والے
سود لکھنے والے اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ
میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 653،حدیث:4093) یعنی سودی نظام میں موجود ہر شخص پر لعنت
فرمائی ہے جو بھی جس بھی طرح کا سودی نظام میں تعاون کرے یا سودی نظام کا حصہ بنے
وہ سب رب کی رحمت سے مایوس دھتکارے ہوئے اور عذاب نار کے حق دار ہیں۔
معاشرہ میں سود کا رواج پڑ جائے تو وہ معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے،اس ضمن
میں سود کی شدید مذمت پر فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: 4۔جس قوم میں سود عام ہو جائے وہ قحط
سالی میں مبتلا ہوجاتی ہے۔(مسند احمد،جلد 7،حدیث: 948)
5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(سود اور اس کا
علاج،ص 4)
6۔نبی کریم ﷺ نے سات چیزوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی کہ یہ چیزیں تباہ و برباد
کرنے والی ہیں ان میں سے ایک سود کھانا بھی ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 4)
7۔بے شک سود خواہ کتنا زیادہ ہو جائے لیکن اس کا انجام فقر و ذلت ہے۔(مشکوٰۃ
المصابیح،حدیث:2827)
ان تمام فرامینِ مصطفیٰ میں سود کی کس قدر مذمت فرمائی گئی واضح طور پر معلوم
ہوتی ہے،سود واقعی تباہی اور بربادی کا باعث ہے،مملکت کی اقتصادی بنیادوں کو منہدم
کرنے والا ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ جن غریب ممالک نے عالمی بینکوں سے قرض لیا وہ سود
در سود ادا کرتے کرتے تباہ ہوگئے لیکن قرض بدستور برقرار رہے،جس چیز کی مذمت اللہ
و رسول نے صراحتاً فرمادی تو وہ کسی صورت میں کسی شرط پر جائز نہیں ہو سکتا۔
اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ میں بیان فرمایا:سود لینا حرام قطعی و کبیرہ عظیمہ
ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں،اسی لیے سود اور سودی نظام سے خود کو بچانے کی
بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ ذرا سی بے احتیاطی کہیں اس کی تباہ کاریوں اور عذاب نار
میں مبتلا نہ کر دے۔
نبی کریم ﷺ نے سود سے بچنے کے لیے احتیاط ارشاد فرمائی ہےکہ جب کوئی کسی کو
قرض دے تو قرض لینے والے سے کوئی ہدیہ قبول نہ کرے۔(مشکوٰۃ شریف) اسی احتیاط میں
ہمارے بزرگان دین نے عمل فرمایا:
امام اعظم علیہ الرحمہ نے جس شخص کو قرض دیا اس کے گھر کے سائے میں بھی نہ
کھڑے ہوئے کہ کہیں یہ سود میں شمار نہ ہو جائے،تو ہمیں بھی چاہیے کہ سود سے خود کو
بچاتے رہیں اپنے پیسے انویسٹ کرتے ہوئے صحیح طور پر تسلی کی جائے کہیں میرا
کاروبار سودی نظام پر تو نہیں اور حتی الامکان سود سے بچنے اور اس بلا سے دور رہنے
کی کوشش کی جائے کیونکہ سود سے دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین
برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، وہ یہ کہ اب کسی حاجت
مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے
والا کام ہے، اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو
وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) سود خور کو
اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا
فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ
رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 279) ترجمہ کنز الایمان:
پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور اگر تم
توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔
صراط الجنان میں ہے: سود کی حرمت کا حکم نازل ہو چکا اس کے بعد بھی جو سودی
لین دین جاری رکھے گا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کا یقین کر لے، یہ شدید
ترین وعید ہے۔
سود کی عام مثالیں ہمارے معاشرے میں بھی پائی جاتی
ہیں، مثال کے طور پر کسی کو گاڑی چاہیے پیسے نہیں ہیں کیا پرواہ؟ کیوں پریشان ہو
رہے ہو؟ قرض لے لو سود دے دینا! بلڈنگ بنانی ہے، قرض لے لو سود دے دینا! آئیے سود
کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجیے:
1۔نبیوں کے سلطان ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم
میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 70)
2۔اللہ کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے
اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔(مسلم، ص
862، حدیث:1598)اے سودی کھاتے لکھنے اور سود پر گواہ بننے والو! دیکھو کس قدر وعید
مروی ہے۔
3۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے
کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر، ص 69)
4۔بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں
سے زنا کرے۔ (معجم اوسط، 5/227، حدیث: 7151)
5۔پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ شب معراج
میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے جن میں
سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ
ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو سود کی آفت سے محفوظ فرمائے۔ آمین
کر لے توبہ رب کی
رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ
سزا ہوگی کڑی
سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت ملک بشیر،جامعۃ المدینہ فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
سود ایک حرام کردہ کام ہے جو انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے انسان چند پیسوں
کے لیے حرام کام کرتا ہے، سود دنیا و آخرت کو تباہ کرنے والا کام ہے، سود کی
ممانعت کے متعلق قرآن پاک میں بھی بیان ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ
یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا
الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ
الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا
سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ
النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ اللّٰهُ
الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ
اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ 3، البقرۃ: 275-276)ترجمہ
کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا
ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو
سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے
پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام
خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں
گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا
کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔
پانچ فرامین مصطفیٰ:
1۔ سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔(مسند،8/223، حدیث:22016)
2۔ سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو
مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند،2/50، حدیث:3754)
3۔ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس
کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:
1597)
4۔ سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(ابن ماجہ،2/73،
حدیث: 2276)
5۔ ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی
جبکہ جنس مختلف ہو۔
سود کی تعریف: ربا یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی
حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادہ ہے۔ عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف
مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔
درس: سود ایک بری صفت ہے ہمیں اس سے بچنا چاہیے جو کوئی
ایسے کاموں میں ملوث ہے اسے چاہیے کہ فورا ً توبہ کریں اور اس جہنم میں لے جانے
والے کام سے پرہیز کریں، کیونکہ ہم سے جہنم کا عذاب سہا نہیں جائے گا۔
اللہ پاک ہمیں کبیرہ گناہوں سے بچنے
کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت منور،جامعۃ المدینہ فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں
مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ
رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔
سود کی تعریف: فتاویٰ رضویہ
شریف میں اعلیٰ حضرت قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں: قرض دینے والے کو قرض
پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے۔
لغوی و اصطلاحی معنیٰ: سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی ہے بڑھنا، اضافہ ہونا،
بلند ہونا۔ شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ قرض دے کر اس پر مشروط
اضافہ یا نفع لینا یا کیلی (ناپ کر بیچی جانے والی) یا وزنی (تول کر بیچی جانے
والی) چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو
عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔
بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے
نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص و طمع، خود غرضی، شقاوت و سنگ دلی اور مفاد
پرستی جیسی اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں، بلکہ سود اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ
بھی ہے، اسی وجہ سے قرآن کریم میں سود سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ کریم پارہ
4 سورۂ اٰل عمران آیت نمبر 130 میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ
اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ
کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔ اس آیت میں سود کھانے
سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔
احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت: کثیر احادیث میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے، چنانچہ
1۔ حضور رحمۃ للعالمین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور
اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر
ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1599)
2۔ سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا
کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2356)
3۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر
للذہبی، ص 70)
4۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے
کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر،ص 69)
5۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا
جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے
،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ
لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، 3/71، حدیث: 2273)
سود کے چند معاشرتی نقصانات: سود کے بے شمار معاشرتی نقصانات ہیں جن میں سے چند ایک پیشِ خدمت ہیں:
سود خور حاسد بن جاتا ہے: اس کی تمنا ہوتی ہے کہ اس سے قرض لینے والا نہ تو کبھی پھلے پھولے اور نہ ہی
ترقی کرے کہ اس کے پھلنے پھولنے میں اس کی آمدنی تباہ ہوتی ہے، کیونکہ جس نے اس
سے سود پر قرض لیا اگر وہ ترقی کر جائے گا اور قرض اتار دے گا تو اس کی آمدنی ختم
ہو جائے گی، یہی حسد اسے کہیں کا نہیں چھوڑتا۔
سود خور بے رحم ہو جاتا ہے: سود خور کے دل سے رحم نکل جاتا ہے اسے کسی پر ترس نہیں آتا، مجبور سے مجبور
شخص اس کے آگے ایڑیاں رگڑتا ہے اور اگر وہ سر کی ٹوپی اتار کر اس کے پاؤں پر رکھ
دے تو بھی اسے رحم نہیں آتا، کیونکہ سود نے اس کے قلب کو کالا کر دیا ہے اور وہ
ہر ایک کی مالی مدد سود ہی کی خاطر کرتا ہے اور اس طرح قرض دینے کے عظیم اجر و
ثواب سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
سود خور مال کا حریص ہو جاتا ہے: سود خور گھر کے گھر تباہ و برباد کرتا ہے، سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے
اور مال کی محبت میں دیوانہ وار گھومتا رہتا ہے، صدقہ و خیرات کرنا بھی گوارا نہیں
کرتا کہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔
سود کا علاج: سود کی نحوست سے
محفوظ رہنے کے لیے سب سے پہلے لمبی امیدوں سے اپنے دامن کو پاک کرنے کی ضرورت ہے۔
آگاہ اپنی موت
سے کوئی بشر نہیں سامان
سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
دوسرا علاج دنیاوی دولت کی محبت سے پیچھا چھڑانا ہے اور تیسرا علاج قناعت کو
اختیار کرنا ہے۔
سود سے بچنے کی ترغیب: بیان کی گئی آیات کریمہ اور فرامین مبارکہ میں سود کی مذمت بیان گئی ہے۔ اے
کاش! ہمیں قناعت نصیب ہو جائے کیونکہ جو قناعت پسند ہو وہ سادگی اپناتا ہے، سادہ
غذا اور لباس کو کافی جانتا ہے، اسے دولت کی چاہت ہوتی ہے نہ دولت مند کی اور جو
قناعت پسند نہ ہو وہ حرص و لالچ کا شکار ہو جاتا ہے، کبھی سیر نہیں ہوتا، ہر وقت
اس پر دَھن کمانے کی دُھن سوار ہوتی ہے یہاں تک کہ موت آپہنچتی ہے۔
بے جا مال کی محبت سے چھٹکارا پانے اور قناعت کی دولت اپنانے کے لیے دعوت
اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے نیک اعمال پر عمل اور سنتوں بھرے اجتماع
میں شرکت کو اپنا معمول بنا لیجیے۔
اللہ کریم ہم سب کو عافیت اور امان عطا فرماکر سود کی آفتوں سے محفوظ فرمائے۔
آمین
سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت منیر،جامعۃ المدینہ معراجکے سیالکوٹ
مال اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، انسان مال کے ذریعے اپنی دنیاوی
ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، بروز قیامت مال کے متعلق سوال ہوگا، ہمارا معاشرہ بے
شمار برائیوں میں مبتلا ہے، ایک بھیانک برائی جو ہمارے معاشرے میں پھیلتی چلی جا
رہی ہے جس سے اکثر لوگ متاثر ہیں وہ خطرناک برائی سود ہے۔
سود کسے کہتے ہیں: وزن کی
جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں یا روپے وغیرہ میں دو
آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو کچھ زائد دینا پڑتا ہو وہ سود کہلاتا ہے۔
مثال: زید نے بکر کو
100 روپے قرض اس شرط پر دیا کہ جب وہ قرض واپس کرے تو 110 روپے کرے تو یہ سود ہے،
جبکہ قرآن میں سود کو حرام قرار دیا ہے۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے
والے، سود لکھنے والے اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب اس
گناہ میں برابر ہیں۔(صراط الجنان، 2/51)
2۔ سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا
کرے۔(صراط الجنان، 2/51)
3۔ سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا
ہے۔(صراط الجنان، 2/51)
4۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی
اجازت دیتا ہے۔(الکبائر للذہبی، ص 69)
5۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(الکبائر، ص 70)
سود کے معاشرتی نقصانات: سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ کر دیتی ہے، سود معاشرے میں
انسانی جذبوں اور رشتوں کو کمزور کر دیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے جرائم بھی سامنے
آتے ہیں، جیسے سود کے قرض تلے دبا انسان کبھی خود کشی کر لیتا ہے، سود کی ہی بنا
پر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتے ہیں۔
سود سے بچنے کی ترغیب: سود کے عذابات اور حدیث میں اس کی وعیدیں اس کے دنیوی نقصانات پر غور و فکر
کریں اور دل میں خوف خدا رکھیں ان شاء اللہ سود سے بچنے کی ترغیب ملے گی۔
سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت منیر،جامعۃ المدینہ نواں پنڈ آرائیاں
سیالکوٹ
اَلَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ
الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ
مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ
جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ
اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا
خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) (پ3، البقرۃ: 275)ترجمہ
کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا
ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو
سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے
پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام
خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں
گے۔
ارشادِ باری تعالی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا
مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) (پ 3، البقرۃ: 278) ترجمہ کنز الایمان: اے
ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو۔
احادیثِ مبارکہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے : تاجدارِ رسالت ﷺ نے فرمایا: اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے عدات رکھے تو میں نے اس سے جنگ کا اعلان
کردیا۔ (بخاری، 4/248، حدیث: 6502)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ پاک اس کو قیامت کے دن تکلیفوں سے نجات دے وہ کسی مفلس کو
مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے۔ (مسلم، ص 845)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے: نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کردیا اللہ
پاک قیامت کے دن اسے عرش کے سائے میں رکھے گا، جبکہ اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
(ترمذی، 3/52، حدیث: 1310 )
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے: حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا: اللہ
پاک اس شخص پر رحم کرے جو بیچنے اور خریدنے اور تقاضا کرنے میں آسانی کرے۔ (بخاری،
2/12، حدیث: 4076)
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ اللہ پاک نے اپنی بارگاہ میں حاضر اُس معاف
کرنے والے مال دار پر آسانی کرنے اور تنگدست کو مہلت دینے والے شخص سے فرمایا: میں
تجھ سے زیادہ معاف کرنے کا حق دار ہوں، اے فرشتو! میرے اس بندے سے درگزر کرو۔
(مسلم، ص 844، حدیث: 1560)
عقد معاوضہ یعنی لین دین کے معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف
زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہوتو یہ سود ہے، سود حرام قطعی ہے
اس کی حرمت کا منکر (یعنی حرام ہونے کا انکار کرنے والا) کافر ہے۔ جس طرح سود لینا
حرام ہے سود دینا بھی حرام ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ سود کا گناہ ایسے 70 گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے کم درجہ کا گناہ یہ
ہے کہ مرد اپنی ماں سے بدکاری کرے۔(دلچسپ معلومات، ص 135)
2۔ فرمان مصطفیٰ :رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین
مقدس میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے
پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے
کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے
منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا،پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے
والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟کہا یہ شخص
جو نہر میں ہے سود خوار یعنی سود کھانے والا ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص 85)
3۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے،سود
دینے والے،سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب
برابر ہیں۔(صحیح مسلم)
4۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن
کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے
تھے،میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے عرض کی:یہ سود خور ہیں۔(سنن
ابن ماجہ،ص 72،حدیث:2273)
5۔ سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو، صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ
وہ کون سے گناہ ہیں؟ ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا،ناحق کسی جان کو قتل کرنا،
یتیم کا مال کھانا،سود کھانا، میدان جہاد سے بھاگ جانا، پاک دامن عورت کو زنا کی
تہمت لگانا۔(مسلم، ص 65، حدیث: 89)
سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت نعیم،جامعۃ المدینہ معراجکے سیالکوٹ
سود کو عربی میں ربا کہتے ہیں اس کے لغوی معنی بڑھنا اور اضافہ ہونا ہے اور
شرعی اصطلاح میں سود کی تعریف قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی یا
وزنی چیز کو تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو
عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔ بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے،
اس کی بہت تباہ کاریاں ہیں، قرآن مجید اور حدیث نبوی میں بھی سود کو منع فرمایا
گیا ہے۔
سود کے متعلق احادیث مبارکہ:
1۔ سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کی گواہی دینے والے اور اس کا معاملہ
لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔(ابن
ماجہ، 2/764)
2۔ لوگوں پر ایسا زمانہ ضرور آئے گا کہ کوئی بھی ایسا نہ رہے گا جس نے سود نہ
کھایا ہو اور جو سود نہ کھائے اسے بھی سود کا غبار پہنچے گا۔(کتاب التجارۃ، حدیث:
2278)
3۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جس شب مجھے
معراج میں سیر کرائی گئی میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جس کے پیٹ کمروں کے مانند
تھے ان میں بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے، میں نے کہا: جبرائیل
یہ کون لوگ ہیں؟ کہنے لگے: سود خور۔
4۔ سود کا گناہ ماں سے زنا کرنے کے گناہ سے بھی بد تر ہے، حدیث شریف میں ہے:
سود میں 70 گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابو
داود، حدیث: 2279)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا
مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت
کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔
معاشرتی نقصانات: نعوذ
باللہ لوگوں نے خدا کے اس ممنوع کردہ امر کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ہے، سود کو Return اور Interest کے پہناو میں اس کی شدت اور خباثت کو عوام کی
نظروں میں کم ہونے کی کوشش کی ہے، سود یہ ہے کہ رقم کے استعمال کرنے پر اس کی Opportunity cast وصول کرنا یعنی
اصل رقم سے کچھ زائد رقم وصول کرنا دوسرے لفظوں میں رقم کے استعمال کا کرایہ وصول
کرنا سود کی ناپ میں سود جیسا کام کر کے انسان آخرت کے دن تو رسوا ہوگا اور ساتھ
ہی دنیا میں بھی اس انسان کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سود سے بچنے کی ترغیب: جیسا کہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے بھی ثابت ہے کہ سود کتنا بڑا حرام
کام ہے آخرت میں اس کی پکڑ بہت سخت ہے اگر انسان اپنے دل میں اس بات کو مدنظر
رکھے کہ ہمارے پروردگار اور آخری نبی ﷺ نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے اور ہم
بھی اس کام سے منع رہیں، اللہ اور اس کے رسول نے جس کام کو حکم دیا ان کاموں کو
بجا لائیں اور جن کاموں سے منع فرمایا ان کاموں میں منع رہیں۔ اللہ اپنے پیارے
حبیب ﷺ کے صدقے ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین
سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت نوید احمد، فیضان ام عطار شفیع کا
بھٹہ سیالکوٹ
گناہ دو طرح کا ہوتا ہے؛گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ،مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ
گناہ صغیرہ کو بھی ہلکا نہیں جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چھوٹی چنگاری بھی گھر جلا
سکتی ہے،اس لیے وہ ان کے کر لینے پر بھی جرأت نہیں کرتا اور اگر ہو جائیں تو فوراً
توبہ کر لیتا ہے،اسی طرح سود بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے،سود قطعی طور پر حرام
ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال،حرص و طمع،خود غرضی
جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی و اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی
ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا
اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا
فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ- (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان
والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور
اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے۔
سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں،لغوی معنی زیادہ
ہونا،پروان چڑھنا جبکہ شرعی اصطلاح میں سود کہ تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے
ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا
چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دیئے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 100 روپے کے 120
روپے لے گا،مہلت کے عوض یہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے یہ سود ہیں۔
سود کے متعلق احادیث مبارکہ:
1۔حضور ﷺ نے سود لینے والوں، سود دینے والوں، سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس
کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
2۔سود کا ایک درہم جو آدمی جان بوجھ کر کھائے گا اس کا گناہ 36 بار زنا کرنے
سے زیادہ ہے۔
3۔رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی سود لینے والے اور دینے والے اور اس کا کاغذ
لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والوں پر اور فرمایا وہ سب برابر ہیں۔
4۔سود میں 70 گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسا ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔
5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔
سود کے نقصانات:سود دلوں
میں کینے اور دشمنی کا بیج بوتا ہے،سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے
دل و دماغ پر بہت گہرا اثر مرتب کرتی ہے،سود خوری کی وجہ سے افراد اور قوموں کے
درمیان اجتماعی تعاون کا رشتہ ڈھیلا پڑ جاتا ہے،سود خوری ایک قسم کا غیر صحیح مبادلہ
ہے جو انسانی رشتوں اور جذبوں کو کمزور کر دیتا ہے،سود جیسی برائی اب اس حد تک
پہنچ گئی ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے،سود خوری
کی وجہ سے کبھی مقروض خود کشی کرلیتا ہے،کبھی شدید کرب سے دو چار ہو کر سود خوار
کو خطرناک طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے،سود خوری کی وجہ سے وہ قومیں جو دیکھتی ہیں
کہ ان کا سرمایہ سود کے نام پر دوسری قوم کی جیب میں جا رہا ہے ایک خالص بغض و
کینہ اور نفرت سے اس قوم کو دیکھے گی۔
سود سے بچنے کی ترغیب:یاد رکھیے!سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے ولا کام ہے،اس کی حرمت کا منکر
یعنی اس کے حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں
مبتلا ہو وہ فاسق مردود الشہادہ ہے،سود کو اللہ پاک نے مسلمانوں پر حرام قرار دیا
ہے اور جو بد نصیب یہ جاننے کے باوجود بھی سودی لین دین جاری رکھے گویا وہ اللہ
پاک اور اسکے رسول ﷺ سے جنگ کرنے والا ہے،زندگی بہت مختصر سی ہے اس کا کوئی بھروسا
نہیں کہ کب ختم ہو جائی گی،لہٰذا ہمیں ایسے گناہوں سے دور رہنا چاہیے۔
اللہ پاک نے سود کے بارے میں آیتیں بھی بیان فرمائی ہیں اور احادیث مبارکہ
بھی،پھر بھی لوگ اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:سود لینے
والا،دینے والا اور کھانے والا یہ سب جہنمی ہیں۔
اللہ پاک ہمیں سود جیسے کبیرہ گناہ سے خود بھی بچنے اور دوسروں کو بھی بچانے
کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی بھی توفیق عطا
فرمائے ایسے گناہوں کا خیال بھی ہمارے دل و دماغ میں نہ آئے۔آمین
سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت یاسین،جامعۃ المدینہ فیض مدینہ کراچی
سود ہلاکت میں ڈال دینے والے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے اور یہ تاریک رات میں
کسی چٹان پر چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی ہے اور سود کا سب سے ادنیٰ گناہ
یہ ہے کہ سود لینے والا اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے والے کی طرح ہے اور ماں کے ساتھ
زنا کرنا غیر عورت سے زنا کرنے سے 70 درجہ بڑا گناہ ہے۔
تعریف:عقد معاوضہ یعنی
لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے
مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص 83)
فرامین مصطفیٰ:
1۔اللہ کا ایک فرشتہ ہر دن اور رات میں بیت المقدس کی چھت پر اترتا ہے جس نے
حرام کھایا تو جب تک وہ حرام اس کے گھر سے نہ نکل جائے اللہ نہ اس کی فرض عبادت
قبول فرمائے گا نہ ہی نفل اور اگر وہ اسی حال میں مرگیا تو میں اس سے بری ہوں۔(بحر
الدموع،ص 279)
2۔جس نے حلال کا ایک درہم کمایا اور اسے حلال جگہ خرچ کیا تو اللہ سود اور
حرام خوری کے علاوہ اس کے تمام گناہ معاف فرمادے گا۔(بحر الدموع،ص 279)
3۔فرمان مصطفیٰ :رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس
میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے پر
کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی
طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے
منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا،پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے
والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟کہا یہ شخص
جو نہر میں ہے سود خوار ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص 85)
4۔اگر کوئی شخص دس درہم سے ایک کپڑا خریدے اور ان میں
حرام کا ایک درہم بھی ہو تو اللہ اس وقت تک اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا جب
تک وہ ایک درہم اس کے مالک کو نہ لوٹا دے۔(بحر الدموع،ص 281)
5۔حرام یا شراب سے نشو و نما پانے والا گوشت اور خون جنت میں داخل نہ
ہوگا۔(بحر الدموع،ص 281)
چند معاشرتی نقصانات:سود معاشرے میں حسد کو پیدا کرنے کا سبب ہے سود خور بے رحم ہو جاتا ہے،سود سے
معیشت برباد ہو جاتی ہے،سود کی نحوست سے انڈسٹری برباد ہوتی ہیں،تجارت ختم ہو جاتی
ہے، بے روزگاری بڑھتی ہے،جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔
سود سے بچنے کی ترغیب:پیاری اسلامی بہنو! لمبی لمبی امیدیں
لگانا چھوڑ دیں کہ آنے والا وقت کس نے دیکھا ہے؟ دنیا کی دولت سے چھٹکارا حاصل
کریں کہ یہ بربادی کا سبب ہے،حلال پر حساب ہے اور حرام پر عذاب، اس کو مد نظر
رکھیں اور حدیث کے مطابق تو کامیاب شخص وہ ہے جس کو بقدر کفایت رزق ملا اور اسے اس
پر قناعت دی،ان باتوں کو مد نظر رکھیں گی تو ان شاء اللہ سود سے بچنے میں کامیابی
ملے گی۔
Dawateislami