سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از ہمشیرہ جنید، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
آج کل سود معاشرے میں بہت عام ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ یہ ایک سخت کبیرہ گناہ
اور اللہ پاک کی ناراضگی کا باعث ہے جس کی مذمت قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر
بیان کی گئی اور اگر یہ کہیں تو شاید جھوٹ نہ ہو کہ شرک کے بعد جس گناہ کی اتنی
مذمت بیان کی گئی ہے وہ سود ہی ہے اور اتنے سخت احکامات کسی گناہ کے بھی نہیں بیان
ہوئے، قرآن پاک میں اللہ پاک نے سود سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم مومن ہو
تو اس سے بچو اور اگر تم اس سے باز نہ آؤ تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کا
یقین کر لو۔
بے شک یہ بات تو ہر ذی شعور سمجھ سکتا
ہے کہ جس سے اللہ اور اس کا رسول جنگ کریں تو وہ تباہ برباد ہی ہوگا، اتنے سخت
احکام جس چیز کے بارے میں آئے آئیے اس کی تعریف بھی جان لیتے ہیں، سود کا مطلب
ہے ایک چیز دے کر اس سے زیادہ وصول کرنا۔ آئیے سود کے بارے میں پانچ فرامین
مصطفیٰ سن لیتے ہیں:
1۔ سود خور پر لعنت: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: سود دینے والے، لینے والے اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس
کے گواہوں پر لعنت اور فرمایا وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1598)
2۔ سود زنا سے بھی سخت ہے: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت
ہے۔(مسند امام احمد، 8/223، حدیث: 62016)
3۔ شک و شبہ والی بات: سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(سنن ابن ماجہ، حدیث:
2276)
4۔ سود خور کا عذاب: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر
کی طرح (بڑے بڑے) ہیں، ان پیٹوں میں سانپ
ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں، میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں
نے کہا یہ سود خوار ہیں۔(ابن ماجہ، حدیث: 2273)
سود معاشرے کو تباہ کرنے والا گناہ ہے سود کی وجہ سے
کاروبار ختم ہو جاتے ہیں، سود اللہ کی لعنت اور حضور ﷺ کی ناراضگی کا باعث ہے،
لہٰذا ہمیں اس سے بچنا اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ
نے قرآن پاک میں بارہا اس سے منع فرمایا ہے۔