اسلامی
احکام میں سے ایک اہم فریضہ صلہ رحمی ہے اللّٰہ رشتہ
داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی
ہے کہ : وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ
شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ
الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ
الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ
اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (۳۶)تَرجَمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک
کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور
محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور
اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے
والا بڑائی مارنے والا ۔(النساء
36)
اس
آیت کے جز (وَّ بِذِی الْقُرْبٰى ) کی تفسیر میں
مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ ان سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی
کرے اور قطع تعلقی سے بچے۔(صراط الجنان)
رشتے
داروں کے ساتھ صِلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کی بڑی فضیلت ہے،اس سے متعلق 3اَحادیث
درج ذیل ہیں :
(1)حضرت
ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ
فرماتے ہیں،ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی : یارسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،
مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا ’’تم اللّٰہ تعالیٰ کی
عبادت کرو اور ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو
اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
(صراط
الجنان جلد 5 صفحہ 370 ، بخاری، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکوة الحدیث: 1396 )
(2)حضرت
عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے
روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا: اللّٰہ تعالیارشاد فرماتا
ہے ’’میں اللّٰہ ہوں اور میں
رحمٰن ہوں ، رحم (یعنی رشتے داری) کو میں نے پیدا کیا اور اس کا نام میں نے اپنے
نام سے مُشْتَق کیا، لہٰذا جو اسے ملائے گا، میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا،
میں اسے کاٹوں گا۔
(
صراط الجنان جلد 5 صفحہ،371 ، ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ماجاءفی قطعۃالرحم
الحدیث: 1914 )
(3)…حضرت
عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا ’’جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی ہو اور
رزق میں وسعت ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللّٰہ
تعالی
سے ڈرتا رہے اور رشتہ والوں سے سلوک کرے۔
(صراط
الجنان جلد 5 صفحہ،371 ، مستدرک، کتاب البرّ والصلۃ، الحدیث: 7262)
اور
اس فریضہ کی ادائیگی میں عورت کا کردار انتہائی اہم ہے ۔
ویسے
تو عورت ہر روپ میں رہ کر صلہ رحمی کے ذریعے نااتفاقیوں، ناچاقیوں، قطع تعلقیوں
اور لڑائیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے مگر وہ عورت جو ماں کے روپ
میں وہ اس کام کو باحسن طریقے سے سرانجام دے سکتی ہے۔
ایک
ماں اپنی اولاد کی صلہ رحمی کے حوالے سے بہترین تربیت کے ذریعے کئی خاندانوں میں
خوشیوں کے پھول نچھاور کر سکتی ہے۔
ماں اگر
اپنے بیٹے کو صلہ رحمی کی تعلیم دے تو اس سے میاں بیوی کے آپس کے معاملات میں
اتفاق پیدا ہو گا۔
ماں اگر
اپنی بیٹی کو صلہ رحمی کی تعلیم دے تو اس سے بیٹی اپنے گھر میں خوشیوں کاسامان لا
سکتی ہے اور سسرال کے نہ ختم ہونے والے جھگڑے بھی بیٹی کی بہترین تربیت سے ختم ہو
جائیں گئے۔
ماں اگر
بہو کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ کرے تو گھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے
گا ۔
ماں اگر
ابو کے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے تو ہر طرف خوشیوں کی بہار آ جائے گی۔
یااللہ ہمیں آپس میں مل جل کر رہنے اور صلہ
رحمی کرنے کی توفیق عطا فرما. اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
فرد
سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے ہمارا مختلف
لوگوں مثلًا والدین، بہن بھائی، اولاد رشتے دار پڑوسی دوست احباب اور دیگر لوگوں
سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہمارے پیارے دین اسلام نے ہر ایک کے حقوق تفصیل کے ساتھ بیان
فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک حق جو سب کے مابین مشترک ہے اور جس کی بڑی اہمیت ہے وہ
ہے صلہ رحمی ۔
صلہ
رحمی کا معنی ہے رشتے داروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنا یہ بہت بڑی نیکی اور بڑے
ثواب کا کام ہے بدقسمتی کے ساتھ ہمارے معاشرے سے صلہ رحمی کا خاتمہ ہوتا چلا جا
رہا ہے اس گناہ میں زیادہ خواتین مبتلا ہوتی ہیں اس کے نظارے عام طور پر گھروں اور
خاندانوں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں جیسے ساس اور بہو، نند اور بھابھی، دیورانی
اور جٹھانی کی لڑائی، اسی طرح بہن اور بھائیوں کی لڑائی وغیرہ وغیرہ۔
صلہ رحمی کو کیسے بڑھایا جائے ؟
1۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ
وسلم
کا فرمان ہے: الدین النصحیة دین خیرخواہی
کا نام ہے جب ہم ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی چاہنے والے ہوں گے اینٹ کا
جواب پھول سے تلخ جملوں کا جواب مسکراہٹ سے گالی کا جواب دعا سے دینے والے ہوں گے
تو ان شاءاللہ ہمارے
معاشرے سے قطع تعلقی کا خاتمہ اور صلہ رحمی عام ہو گی
2۔
ہم خود بھی علم دین سیکھیں اور گھر کی خواتین کو بھی سکھانے کا خاص اہتمام کریں شریعتِ
مصطفی نے رشتے داروں کے جو حقوق بیان کیے ہیں ان کو سیکھیں پھر ان کو ادا کرنے کی
کوشش کریں تو معاشرہ امن و سلامتی اور پیار و محبت کا گہوارہ بن جائے گا ۔
3۔
اس حدیث پاک پر عمل کر لیں تو ظلم و زیادتی قطع تعلقی اور بہت ساری برائیوں سے جان
چھڑا کر صلہ رحمی کے عادی بن سکتے ہیں خاتم
المرسلین رحمة اللعالمين صلّى الله عليه وسلم نے فرمایا: صل من قطعك وعف عمن ظلمك و احسن إلى من اساء الیک ۔ یعنی اس سے تعلق جوڑو جو تم سے توڑے
اسے معاف کر دو جو تم پر ظلم کرے اس کے ساتھ اچھائی کرو جو تمھارے ساتھ برائی کرے
۔
بدقسمتی کے ساتھ ہم اس کے الٹ چلتے ہیں اس حدیث
مبارکہ کو اپنے دل کے مدنی گلدستے میں سجا کر اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا
جائے تو ہمارا معاشرہ پیار محبت عزت اخوت سلامتی اور صلہ رحمی بھرا بن جائے گا۔
دور
حاضر میں جہاں بہت سارے مسائل نے اپنا ڈیرہ جمایا ہوا ہے وہاں ایک بڑا مسئلہ صلہ
رحمی کی کمی بھی ہے، جو بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ صلہ رحمی کی کمی کو دور کرنے میں
خواتین ایک اچھا کردار ادا کر سکتی ہیں اور یہ مسئلہ آسانی سے ختم ہو سکتا ہے۔
صلہ
رحمی کو پہلے سمجھیں:
صلہ
رحم کے معنی رشتے کو جوڑنا ہے یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی اور اچھا سلوک کرنا۔
ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے اور قطع رحمی یعنی (رشتہ توڑنا)
حرام ہے۔
تمام
رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ حضرت سیدنا عاصم رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی, رزق میں
فراخی ہو اور بری موت دفع ہو، وہ اللہ تعالی سے
ڈرتا رہے اور رشتے داروں سے اچھا سلوک کرے۔
ہمارے
پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا. (احترام مسلم، صفحہ 8)
خواتین
صلہ رحمی بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
خواتین
کو چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور ذرا ذرا سی باتوں
پر جھگڑے کے بجائے درگزر سے کام لیں۔ خوش اخلاق ماں ہوگی تو بیٹی بھی آگے اپنے گھر
کو خوش اخلاقی کے ساتھ چلائے گی ۔
ساس
اور بہو کے درمیان نااتفاقی اور الفت کی کمی کافی مشہور ہے۔ کوئی تو ہو جو اپنے
سسرال والوں کو اپنے گھر والوں کی طرح سمجھے۔ ساس اور بہو دونوں کو مل کر اس
نااتفاقی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
ساس
اور بہو کے درمیان کوئی غلط فہمی ہو تو اس کو دور کریں اور مسائل کا حل باہمی طور
پر تلاش کریں۔ اپنے درمیان اختلافات کے اسباب پر غور کریں اور ان کو دور کرنے کی
کوشش کریں۔ ساس اور نند بہو پر شفقت کریں اور بہو اپنی ساس اور نند کا احترام کرے
۔ ساس بہو کو اپنی بیٹی اور بہو ساس کو اپنی ماں جب تک نہیں سمجھے گی تب تک مسئلہ
حل ہونا مشکل ہے۔
ساس
اپنی بہو کی رائے کو اہمیت دے اور بہو ساس سے ضروری کاموں میں رائے طلب کرے۔ اس
طرح گھر کا ماحول خوشگوار ہوگا کہ جب کسی کو اہمیت دی جاتی ہے تو اس کے دل میں اہمیت
دینے والے کے لئے ایک مقام پیدا ہو جاتا ہے۔
ساس
اور بہو دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی کمزوریاں گھر کے باہر کسی کے سامنے بیان
نہ کرے۔ شریعت ہمیں اس چیز کی اجازت نہیں دیتی۔
دعوت
اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہیں گھر میں مدنی ماحول بنا کر رکھیں، ان شاءاللہ عزوجل نااتفاقی دور ہوگی، آپس میں محبت
بڑھے گی اور صلہ رحمی کرنے کا جذبہ ملے گا۔
اللہ
پاک کا ارشاد ہے کہ : وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ
بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اللہ سے
ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔(سورة النساء1)
اللہ پاک
نے ضرف رشتہ داروں ہی کے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے پڑوسیوں، یتیموں وغیرہ کے ساتھ بھی
صلہ رحمی کا حکم فرمایا ہے، ہمارے معاشرے میں نااتفاقیوں اور محبت و الفت میں کمی
کی ایک بہت بڑی وجہ صلہ رحمی ( یعنی رشتہ داروں کے ساتھ حسن ِ سلوک) کی کمی ہے،
خواتین کا گھر میں ایک اہم کردار ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مکان کو گھر میں ایک خاتون ہی تبدیل کرتی ہے اس
معاشرے کی نااتفاقی کو دور کرنے اور صلہ رحمی کو فروغ دینے میں ایک خاتون اہم
کردار ادا کرسکتی ہے۔
عورت بحثیت ماں:
سب
سے بنیادی حیثیت ایک اولاد کی پرورش میں ماں کی ہی ہوتی ہے بے شک یہ بات کھری ہے
کہ ماں کی گود بچوں کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے، اگر ماں اپنی اولاد کو قولی اور عملی
طور پر صلہ رحمی کا درس دے گی تو ان شا اللہ عزوجل بچوں میں بھی صلہ
رحمی کا جذبہ بڑھے گا مگر اس میں ماں کو چاہیے کہ وہ دیگر رشتے داروں سے بھی حسن
سلوک سے پیش آئے اور ساتھ ہی گھر کا ماحول بھی خوشگوار بنایاجائے۔
عورت بحیثیت بہن:
بہن بھی گھرمیں اور گھر کے ماحول کو اچھا کرنے اور صلہ رحمی
کے فروغ کے لیے ایک اچھا کردار ادا کرتی ہے، بہن کو چاہئے کہ اپنی و الدہ اور والد
،بھائی وغیرہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اگر بہن حسنِ سلوک سے پیش آئے گی تو گھر والے
متاثر ہو کر حسنِ سلوک سے پیش آئیں گے۔
عورت بحیثیت نند:
نند اگر اپنی بھابھی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گی تو بھائی اور
بھابھی بھی دونوں ہی بلکہ باقی گھر والے بھی پُر امن اور خوش رہیں گے بلکہ وہ بھی
ان کا خیال رکھنے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں گے ۔
آخرمیں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صلہ رحمی کرنے والوں میں سے بنائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
صِلَہ
ٔرِحمی(رشتے داروں کے ساتھ اچھا سُلوک )
اِسی کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو یہ چیز تو حقیقت میں اَدلا بدلا کرنا ہےکہ اُس نے تمہارے پاس چیز بھیج دی
تم نے اُس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آیا تم اُس کے پاس چلے گئے حقیقتاً صِلَۂ رِحم
یعنی کامِل دَرَجے کا رشتے داروں سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ
تم سے جدا ہونا چاہتا ہے اور تم اُس کے ساتھ رشتے کے حقوق کا لحاظ
کرو۔(رَدُّالْمُحتارج۹ص۶۷۸)
حضورصَلَّی
اللہ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َکا فرمانِ ہے: جسے یہ
پسند ہوکہ اُس کے لیےجنت میں محل بنایا جائے اوراُس کے دَرَجات بلند کیے جائیں
اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظلم کرے یہ اُسے معاف کرے اورجو اُسے محروم کرے یہ اُسے
عطا کرے اورجو اُس سے قطعِ تعلُّق کرے یہ اُس سے تعلُّق جوڑے۔(اَلْمُستَدرَک
لِلْحاکِم ج۳ ص۱۲حدیث ۳۲۱۵)
حضرتِ سیِّدُنا فقیہ ابواللَّیث سمرقندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ القَوِیفرماتے ہیں : صِلَۂ
رِحْمی کرنے کے چند فائدے ہیں :٭ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا حاصل ہوتی ہے ٭لوگوں کی خوشی
کا سبب ہے ٭فرشتوں کو مَسَرّت ہو تی ہے ٭مسلمانوں کی طرف
سے اس شخص کی تعریف ہوتی ہے٭ شیطان کو اس سے رَنج پہنچتا ہے٭عمربڑھتی ہے٭ رِزْق میں برکت
ہو تی ہے٭فوت ہوجانے والے آباءو اجداد(یعنی مسلمان باپ دادا) خوش ہوتے ہیں ٭آپس میں مَحَبَّت بڑھتی ہے۔(تَنبیہُ
الغافِلین ،ص۷۳)
ساس،
جیٹھانی، بھابھی ، نند یہ ایسے رشتے ہیں جو صدیوں سے لڑائی، جھگڑے میں اول سمجھے جاتےہیں ہم بات کریں گے نند کی جسے
لوگ بھابھی کی حاسد سمجھتےہیں اکثر لوگ نند کے بارے میں اسطرح کےجملے کہتے نظر آتے ہیں
جیسے ، نند کا بس چلے تو بھابھی کو سانس لینے پر بھی پابندی لگا دیں ، بھابھی کو تنگ کر کے نند کودلی سکون ملتا ہے وغیرہ۔
لیکن
اب وقت کے ساتھ ساتھ ان رشتوں میں بھی
مثبت تبدیلیا ں آنی چایئے نند اپنی بھابھی کی بہن اور دوست بھی بن سکتی ہے بس ہمیں اپنی سوچ کو منفی خیالات سے
پاک رکھنےکی ضرورت ہے۔
اسی
طرح کسی بھی رشتے میں مٹھاس اس وقت ہی آتی ہے جب دونوں جانب سے برابر مقدار میں
خلوص شامل کیا جائے یعنی اگر نند اپنی بھابھی کے لیے پیار کا جذبہ رکھتی ہے تو
دوسری طرف بھابھی کو بھی چاہیے اپنی نند کے ساتھ مخلص رہے تو ہی یہ رشتہ مضبوط
ہوتاہےاگرسسرال میں لڑکی اپنی نند کے سب سے قریب ہوجائےتواخلاص سے بھر پورنئے رشتے
کے ساتھ ساتھ گھر کا ماحول بھی خوش گوار ہوگا۔
اگر
آپ کی نند چھوٹی ہے تو اس کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں اس کی چھوٹی چھوٹی جائز
خواہشات کا احترام کریں اور اگر آپ کی
نند بڑی ہیں تو ان کو وہی عزت دیں جو آپ اپنی ماں یا بڑی بہن کو دیتی ہیں ہر رشتے
کی طرح یہ رشتہ بھی پیار کا طلبگار ہوتا ہے کیونکہ نندیں بہنوں کا روپ ہوتی ہیں۔
رِضائے
الٰہی کے لیے رشتے داروں کے ساتھ صِلۂ رِحمی اور ان کی بدسلوکی پر انہیں در گزر
کرنا ایک عظیم اَخلاقی خوبی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّکے یہاں اس کا
بڑا ثواب ہے ۔ (ہاتھوں ہاتھ پھوبھی سے صلح کر لی ص5)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم : نیت المؤمن خیر من عملہیعنی مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
اپنے عنوان کا آغاز کرنے سے پہلے نیتیں کررہی ہوں کہ جو کچھ
بھی لکھوگی صرف اور صرف اللہ او راس کے
یپارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور
اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لکھوں گی، اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہوجائے تو اللہ
عزوجل مجھے اپنی رحمت کے صدقے میں معاف فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
صلہ رحمی کرنا صدا اے مسلمان
مہربان ہوگا خدا اے مسلمان
اسی سے دل میں محبت ہی ہوگی
یہی تیر ی عظمت زیادہ کرے گی
میرے عنوان کا سبق ہے صلہ رحمی، صلہ یعنی بدلہ ، احسان یا
نیک سلوک کرنا اور رحم جو ہے یعنی جو آپ کے رحم کے رشتے دار ہیں جن سے آپ کے نسب
کا تعلق ہے، جن سے آپ کے خون کا تعلق ہے جن سے آپ کا رحم کا تعلق ہے ان سے نیک
سلوک کرنا اللہ عزوجل نے قرآن میں خاص
موقعوں پر اس تعلق سے احکامات بیان کیے ہیں، ہم سب کے لیے جہاں وہ اپنی عبادت کا
تذکرہ کررہا ہے نماز پڑھنے کا زکاة دینے کا بس میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ایسے
تذکرہ ہورہے ہیں وہاں پھر احسان کر و اپنے والدین کے ساتھ اور قریب کے رشتہ داروں
کے ساتھ اپنے اقارب و عزیزوں کے ساتھ، سورہ بنی اسرائیل میں اللہ عزوجل ایک آیت میں ارشاد فرماتاہے:تَرجَمۂ کنز
الایمان:اور رشتے داروں کو ان کا حق دے۔ (سورہ بنی اسرئیل ،26)
اب ایک خواتین ان رشتوں کو کس طرح نبھا سکتی ہے، ان کو
نبھانے کے لیے کچھ حقوق ہیں، ان میں رشتے داروں کے کیا حقوق ہیں والدین کے کیا
حقوق ہیں، اور ان حقوق پر وہ کس طرح عمل کرسکتی ہے ایک خواتین اگر اپنے والدین کے
ساتھ حسن سلوک کرے گی ان کی خدمت کریں ان کا ہر کہنا مانے اور اپنے ہر کام میں
اپنے والدین کی خوشی کو ترجیح دیں ، یاد رکھئے صلہ رحمی میں جو سب سے پہلا کردار
والدین کا ہی ہے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
صلہ کا لغوی معنی :ضم اور جمع کے ہیں، یوں کہا جاتا ہے شے
کو دوسری شے سے ملانا۔
اصلاحی معنی یہ ہیں کہ رشتہ داریاں قائم رکھنا اور رشتوں داروں
سے اچھا سلوک کرنا۔
صلہ رحمی فقط یہی نہیں کہ جو ہم سے تعلق جوڑے ہم بھی اس سے
تعلق جوڑیں بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ جو ہم سے تعلق توڑے ہم اس سے تعلق جوڑیں۔حدیث
مبارکہ ہے:بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ
شخص ہے جب اس سے ناطہ توڑا جائے تو وہ ا س کو ملائے۔(صحیح بخاری کتاب الادب جلد ۸)
حدیث پاک میں صاف الفاظ میں بیان ہوا کہ صلہ رحمی یہ نہیں
جو بدلے کے طور پر انسان کرے بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ کاٹے تو جوڑے ہماری معاشرت
بلکہ ہماری اسلامی بہنوں میں یہ رواج عام ہے کہ اگر کوئی ان کے ساتھ اچھائی کرے تو
بدلے میں وہ بھی اچھائی کرتی ہے، خواتین کو ان احادیث پر غور کرنا چاہیے اور ان
پرعمل کرنا چاہیے۔
حضور علیہ السلام نے فرمایا:جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں
درازی اور رزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرے۔( المستدرک ج
۵،ص ۲۲۲)
ہمیں ان احادیث کے اجر پر غور کرنا چاہیے کہ اگر ہم اپنی
لمبی عمر چاہتی ہیں تو رشتوں کا لحاظ رکھنا ہوگا، خواتین صلہ رحمی کو درجِ ذیل
صورتوں میں بڑھا سکتی ہے۔
۱۔ رشتہ داروں سے ہر ہفتہ یا ہر مہینہ میں ملاقات کرنا
۲۔ رشتہ داروں کی مدد کرنا۔
۳۔ ان کی حاجت پوری کرنا۔
۴۔ خوشی و غمی میں شریک ہونا،ا گر رشتہ دار قریب ہوں تو
سلام کرنا ، اگر رشتہ دار دور ہوں تو ان سے فون وغیرہ پر رابطہ کرنا۔
۵، رشتہ داروں پر مال خرچ کرنا۔یعنی تحائف دینا اگر غریب ہیں
تو صدقہ دینا امت کا اسی بات پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے۔
اللہ عزوجل نے قران مجید میں صلہ رحمی کا حکم فرمایا :آیت مبارکہ ۔ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى تَرجَمۂ
کنز الایمان:، اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں سے ۔(سورہ
بقرہ: 83)
تفسیر نعیمی میں ہے قربیٰ بمعنی قرابت ہے یعنی اپنے اہل
قرابت کے ساتھ احسان کرو۔
صلہ رحمی کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انہیں چیزیں عطا کرو بلکہ
خواتین صلہ رحمی کو تب بڑھا سکتی ہے جب وہ ان کی باتوں پر صبر کرے، اور اپنے اندر
برداشت کی قوت پیدا کرے۔
ایک عورت بہترین بیوی ثابت ہوتی ہے جب وہ اپنے خاوند کو خوش
کرسکے خاوند تب خوش ہوگا جب وہ خاوند کے رشتہ داروں کو خوش رکھے گی۔
لہذا عورت کو چاہیے کہ شوہر کو ناراض کرکے اللہ
تعالیٰ کی ناراضگی کا وبال اپنے سرنہ لیں ، کہ اس میں دنیا و
آخرت دونوں کی بر بادی ہے۔
نیک بیوی کی صفات حدیث مبارکہ میں بیان ہوئی ہیں آپ علیہ
السلام نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہراس
سے راضی تھا وہ جنت میں داخل ہوگی۔
ان تمام احادیث اور آیتِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایک عورت تب
ہی اچھی ، بہن، بیوی ، بہو ،بیٹی، ساس اور نند ثابت ہوسکتی ہے جو صحیح معنوں میں
ان رشتوں کا لحاظ رکھ سکے اور حق ادا کرسکے سب سے پہلے اپنے غصے کوکنٹرول کرنا
ہوگا،دوسری بات برداشت کی قوت پیدا کرنا ہے، تب ہی یہ رشتے بخوبی انجام پاسکیں گے ۔
ہے فلاں و کامرانی نرمی و آسانی میں
ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
16اکتوبر 2020ء کو دعوت اسلامی کے زیر اہتمام
ارم ماڈل اسکول مانگاٹاؤن رائیونڈ میں اجتماع میلاد کا انعقاد کیا گیاجس میں ٹیچرز،
اسٹوڈنٹس اور دیگر پروفیشنلز حضرات نے شرکت کی۔
اجتماع میلاد میں نگران مجلس پروفیشنلز محمد
ثوبان عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا اور
شرکا کو سنتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل
کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی ترغیب دلائی۔
دعوت اسلامی کے زیر
اہتمام عزیز بھٹی شہید اسپتال گجرات میں اجتماع میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں
کثیر تعداد میں ڈاکٹرز حضرات نے شرکت کی۔
مرکزی مجلس شوریٰ کے
رکن حاجی محمد اظہر عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکا کو سیرت مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دلائی۔ اجتماع
کے اختتام پر رکن شوریٰ نے ڈاکٹرز حضرات کو مکتبۃ المدینہ کی کتاب “سیرت مصطفیٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم“ تحفے میں پیش کی۔
11نومبر
2020ء کو دعوت اسلامی کے زیر اہتمام یونیورسٹی آف گجرات کے آڈیٹوریم میں اجتماع
میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں V.C.U.O.G، ڈائریکٹر S.S.C،s H.O.D، پروفیشنلز اور اسٹوڈنٹس نے شرکت کی۔
مرکزی مجلس شوریٰ کے
رکن حاجی محمداظہر عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا اور فیضان آن لائن اکیڈمی کا
تعارف پیش کرتے ہوئے شرکا کو مدنی کاموں میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔
13 نومبر
2020ء کو مدنی مرکز فیضان مدینہ شیخوپورہ میں دعوت اسلامی کے ذمہ داران کا مدنی
مشورہ ہوا جس میں شیخوپورہ، شرقپور شریف، فاروق آباد، اطراف فاروق آباد اور اطراف
شیخوپورہ کے کابینہ تا ذیلی نگرانوں سمیت کثیر تعداد میں عاشقان رسول نے شرکت کی۔
مرکزی مجلس شوریٰ کے
رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے شرکا کی تربیت کی اور مدنی کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے
ٹیلی تھون میں بھر پورحصہ لینے کا ذہن دیا۔
اس مدنی مشورے میں
عاشقان رسول نے ٹیلی تھون کی رقم بھی جمع کروائے۔