فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم : نیت المؤمن خیر من عملہیعنی مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
اپنے عنوان کا آغاز کرنے سے پہلے نیتیں کررہی ہوں کہ جو کچھ
بھی لکھوگی صرف اور صرف اللہ او راس کے
یپارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور
اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لکھوں گی، اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہوجائے تو اللہ
عزوجل مجھے اپنی رحمت کے صدقے میں معاف فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
صلہ رحمی کرنا صدا اے مسلمان
مہربان ہوگا خدا اے مسلمان
اسی سے دل میں محبت ہی ہوگی
یہی تیر ی عظمت زیادہ کرے گی
میرے عنوان کا سبق ہے صلہ رحمی، صلہ یعنی بدلہ ، احسان یا
نیک سلوک کرنا اور رحم جو ہے یعنی جو آپ کے رحم کے رشتے دار ہیں جن سے آپ کے نسب
کا تعلق ہے، جن سے آپ کے خون کا تعلق ہے جن سے آپ کا رحم کا تعلق ہے ان سے نیک
سلوک کرنا اللہ عزوجل نے قرآن میں خاص
موقعوں پر اس تعلق سے احکامات بیان کیے ہیں، ہم سب کے لیے جہاں وہ اپنی عبادت کا
تذکرہ کررہا ہے نماز پڑھنے کا زکاة دینے کا بس میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ایسے
تذکرہ ہورہے ہیں وہاں پھر احسان کر و اپنے والدین کے ساتھ اور قریب کے رشتہ داروں
کے ساتھ اپنے اقارب و عزیزوں کے ساتھ، سورہ بنی اسرائیل میں اللہ عزوجل ایک آیت میں ارشاد فرماتاہے:تَرجَمۂ کنز
الایمان:اور رشتے داروں کو ان کا حق دے۔ (سورہ بنی اسرئیل ،26)
اب ایک خواتین ان رشتوں کو کس طرح نبھا سکتی ہے، ان کو
نبھانے کے لیے کچھ حقوق ہیں، ان میں رشتے داروں کے کیا حقوق ہیں والدین کے کیا
حقوق ہیں، اور ان حقوق پر وہ کس طرح عمل کرسکتی ہے ایک خواتین اگر اپنے والدین کے
ساتھ حسن سلوک کرے گی ان کی خدمت کریں ان کا ہر کہنا مانے اور اپنے ہر کام میں
اپنے والدین کی خوشی کو ترجیح دیں ، یاد رکھئے صلہ رحمی میں جو سب سے پہلا کردار
والدین کا ہی ہے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں