صلہ کا لغوی معنی :ضم اور جمع کے ہیں، یوں کہا جاتا ہے شے
کو دوسری شے سے ملانا۔
اصلاحی معنی یہ ہیں کہ رشتہ داریاں قائم رکھنا اور رشتوں داروں
سے اچھا سلوک کرنا۔
صلہ رحمی فقط یہی نہیں کہ جو ہم سے تعلق جوڑے ہم بھی اس سے
تعلق جوڑیں بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ جو ہم سے تعلق توڑے ہم اس سے تعلق جوڑیں۔حدیث
مبارکہ ہے:بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ
شخص ہے جب اس سے ناطہ توڑا جائے تو وہ ا س کو ملائے۔(صحیح بخاری کتاب الادب جلد ۸)
حدیث پاک میں صاف الفاظ میں بیان ہوا کہ صلہ رحمی یہ نہیں
جو بدلے کے طور پر انسان کرے بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ کاٹے تو جوڑے ہماری معاشرت
بلکہ ہماری اسلامی بہنوں میں یہ رواج عام ہے کہ اگر کوئی ان کے ساتھ اچھائی کرے تو
بدلے میں وہ بھی اچھائی کرتی ہے، خواتین کو ان احادیث پر غور کرنا چاہیے اور ان
پرعمل کرنا چاہیے۔
حضور علیہ السلام نے فرمایا:جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں
درازی اور رزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرے۔( المستدرک ج
۵،ص ۲۲۲)
ہمیں ان احادیث کے اجر پر غور کرنا چاہیے کہ اگر ہم اپنی
لمبی عمر چاہتی ہیں تو رشتوں کا لحاظ رکھنا ہوگا، خواتین صلہ رحمی کو درجِ ذیل
صورتوں میں بڑھا سکتی ہے۔
۱۔ رشتہ داروں سے ہر ہفتہ یا ہر مہینہ میں ملاقات کرنا
۲۔ رشتہ داروں کی مدد کرنا۔
۳۔ ان کی حاجت پوری کرنا۔
۴۔ خوشی و غمی میں شریک ہونا،ا گر رشتہ دار قریب ہوں تو
سلام کرنا ، اگر رشتہ دار دور ہوں تو ان سے فون وغیرہ پر رابطہ کرنا۔
۵، رشتہ داروں پر مال خرچ کرنا۔یعنی تحائف دینا اگر غریب ہیں
تو صدقہ دینا امت کا اسی بات پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے۔
اللہ عزوجل نے قران مجید میں صلہ رحمی کا حکم فرمایا :آیت مبارکہ ۔ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى تَرجَمۂ
کنز الایمان:، اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں سے ۔(سورہ
بقرہ: 83)
تفسیر نعیمی میں ہے قربیٰ بمعنی قرابت ہے یعنی اپنے اہل
قرابت کے ساتھ احسان کرو۔
صلہ رحمی کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انہیں چیزیں عطا کرو بلکہ
خواتین صلہ رحمی کو تب بڑھا سکتی ہے جب وہ ان کی باتوں پر صبر کرے، اور اپنے اندر
برداشت کی قوت پیدا کرے۔
ایک عورت بہترین بیوی ثابت ہوتی ہے جب وہ اپنے خاوند کو خوش
کرسکے خاوند تب خوش ہوگا جب وہ خاوند کے رشتہ داروں کو خوش رکھے گی۔
لہذا عورت کو چاہیے کہ شوہر کو ناراض کرکے اللہ
تعالیٰ کی ناراضگی کا وبال اپنے سرنہ لیں ، کہ اس میں دنیا و
آخرت دونوں کی بر بادی ہے۔
نیک بیوی کی صفات حدیث مبارکہ میں بیان ہوئی ہیں آپ علیہ
السلام نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہراس
سے راضی تھا وہ جنت میں داخل ہوگی۔
ان تمام احادیث اور آیتِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایک عورت تب
ہی اچھی ، بہن، بیوی ، بہو ،بیٹی، ساس اور نند ثابت ہوسکتی ہے جو صحیح معنوں میں
ان رشتوں کا لحاظ رکھ سکے اور حق ادا کرسکے سب سے پہلے اپنے غصے کوکنٹرول کرنا
ہوگا،دوسری بات برداشت کی قوت پیدا کرنا ہے، تب ہی یہ رشتے بخوبی انجام پاسکیں گے ۔
ہے فلاں و کامرانی نرمی و آسانی میں
ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں