اسلامی
احکام میں سے ایک اہم فریضہ صلہ رحمی ہے اللّٰہ رشتہ
داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی
ہے کہ : وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ
شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ
الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ
الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ
اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (۳۶)تَرجَمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک
کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور
محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور
اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے
والا بڑائی مارنے والا ۔(النساء
36)
اس
آیت کے جز (وَّ بِذِی الْقُرْبٰى ) کی تفسیر میں
مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ ان سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی
کرے اور قطع تعلقی سے بچے۔(صراط الجنان)
رشتے
داروں کے ساتھ صِلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کی بڑی فضیلت ہے،اس سے متعلق 3اَحادیث
درج ذیل ہیں :
(1)حضرت
ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ
فرماتے ہیں،ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی : یارسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،
مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا ’’تم اللّٰہ تعالیٰ کی
عبادت کرو اور ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو
اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
(صراط
الجنان جلد 5 صفحہ 370 ، بخاری، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکوة الحدیث: 1396 )
(2)حضرت
عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے
روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا: اللّٰہ تعالیارشاد فرماتا
ہے ’’میں اللّٰہ ہوں اور میں
رحمٰن ہوں ، رحم (یعنی رشتے داری) کو میں نے پیدا کیا اور اس کا نام میں نے اپنے
نام سے مُشْتَق کیا، لہٰذا جو اسے ملائے گا، میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا،
میں اسے کاٹوں گا۔
(
صراط الجنان جلد 5 صفحہ،371 ، ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ماجاءفی قطعۃالرحم
الحدیث: 1914 )
(3)…حضرت
عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا ’’جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی ہو اور
رزق میں وسعت ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللّٰہ
تعالی
سے ڈرتا رہے اور رشتہ والوں سے سلوک کرے۔
(صراط
الجنان جلد 5 صفحہ،371 ، مستدرک، کتاب البرّ والصلۃ، الحدیث: 7262)
اور
اس فریضہ کی ادائیگی میں عورت کا کردار انتہائی اہم ہے ۔
ویسے
تو عورت ہر روپ میں رہ کر صلہ رحمی کے ذریعے نااتفاقیوں، ناچاقیوں، قطع تعلقیوں
اور لڑائیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے مگر وہ عورت جو ماں کے روپ
میں وہ اس کام کو باحسن طریقے سے سرانجام دے سکتی ہے۔
ایک
ماں اپنی اولاد کی صلہ رحمی کے حوالے سے بہترین تربیت کے ذریعے کئی خاندانوں میں
خوشیوں کے پھول نچھاور کر سکتی ہے۔
ماں اگر
اپنے بیٹے کو صلہ رحمی کی تعلیم دے تو اس سے میاں بیوی کے آپس کے معاملات میں
اتفاق پیدا ہو گا۔
ماں اگر
اپنی بیٹی کو صلہ رحمی کی تعلیم دے تو اس سے بیٹی اپنے گھر میں خوشیوں کاسامان لا
سکتی ہے اور سسرال کے نہ ختم ہونے والے جھگڑے بھی بیٹی کی بہترین تربیت سے ختم ہو
جائیں گئے۔
ماں اگر
بہو کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ کرے تو گھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے
گا ۔
ماں اگر
ابو کے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے تو ہر طرف خوشیوں کی بہار آ جائے گی۔
یااللہ ہمیں آپس میں مل جل کر رہنے اور صلہ
رحمی کرنے کی توفیق عطا فرما. اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم