گناہ دو طرح کا ہوتا ہے؛گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ،مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ گناہ صغیرہ کو بھی ہلکا نہیں جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چھوٹی چنگاری بھی گھر جلا سکتی ہے،اس لیے وہ ان کے کر لینے پر بھی جرأت نہیں کرتا اور اگر ہو جائیں تو فوراً توبہ کر لیتا ہے،اسی طرح سود بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے،سود قطعی طور پر حرام ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال،حرص و طمع،خود غرضی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی و اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ- (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں،لغوی معنی زیادہ ہونا،پروان چڑھنا جبکہ شرعی اصطلاح میں سود کہ تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دیئے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 100 روپے کے 120 روپے لے گا،مہلت کے عوض یہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے یہ سود ہیں۔

سود کے متعلق احادیث مبارکہ:

1۔حضور ﷺ نے سود لینے والوں، سود دینے والوں، سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔

2۔سود کا ایک درہم جو آدمی جان بوجھ کر کھائے گا اس کا گناہ 36 بار زنا کرنے سے زیادہ ہے۔

3۔رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی سود لینے والے اور دینے والے اور اس کا کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والوں پر اور فرمایا وہ سب برابر ہیں۔

4۔سود میں 70 گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسا ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔

5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔

سود کے نقصانات:سود دلوں میں کینے اور دشمنی کا بیج بوتا ہے،سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر مرتب کرتی ہے،سود خوری کی وجہ سے افراد اور قوموں کے درمیان اجتماعی تعاون کا رشتہ ڈھیلا پڑ جاتا ہے،سود خوری ایک قسم کا غیر صحیح مبادلہ ہے جو انسانی رشتوں اور جذبوں کو کمزور کر دیتا ہے،سود جیسی برائی اب اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے،سود خوری کی وجہ سے کبھی مقروض خود کشی کرلیتا ہے،کبھی شدید کرب سے دو چار ہو کر سود خوار کو خطرناک طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے،سود خوری کی وجہ سے وہ قومیں جو دیکھتی ہیں کہ ان کا سرمایہ سود کے نام پر دوسری قوم کی جیب میں جا رہا ہے ایک خالص بغض و کینہ اور نفرت سے اس قوم کو دیکھے گی۔

سود سے بچنے کی ترغیب:یاد رکھیے!سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے ولا کام ہے،اس کی حرمت کا منکر یعنی اس کے حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق مردود الشہادہ ہے،سود کو اللہ پاک نے مسلمانوں پر حرام قرار دیا ہے اور جو بد نصیب یہ جاننے کے باوجود بھی سودی لین دین جاری رکھے گویا وہ اللہ پاک اور اسکے رسول ﷺ سے جنگ کرنے والا ہے،زندگی بہت مختصر سی ہے اس کا کوئی بھروسا نہیں کہ کب ختم ہو جائی گی،لہٰذا ہمیں ایسے گناہوں سے دور رہنا چاہیے۔

اللہ پاک نے سود کے بارے میں آیتیں بھی بیان فرمائی ہیں اور احادیث مبارکہ بھی،پھر بھی لوگ اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:سود لینے والا،دینے والا اور کھانے والا یہ سب جہنمی ہیں۔

اللہ پاک ہمیں سود جیسے کبیرہ گناہ سے خود بھی بچنے اور دوسروں کو بھی بچانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی بھی توفیق عطا فرمائے ایسے گناہوں کا خیال بھی ہمارے دل و دماغ میں نہ آئے۔آمین