سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت منیر،جامعۃ المدینہ معراجکے سیالکوٹ
مال اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، انسان مال کے ذریعے اپنی دنیاوی
ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، بروز قیامت مال کے متعلق سوال ہوگا، ہمارا معاشرہ بے
شمار برائیوں میں مبتلا ہے، ایک بھیانک برائی جو ہمارے معاشرے میں پھیلتی چلی جا
رہی ہے جس سے اکثر لوگ متاثر ہیں وہ خطرناک برائی سود ہے۔
سود کسے کہتے ہیں: وزن کی
جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں یا روپے وغیرہ میں دو
آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو کچھ زائد دینا پڑتا ہو وہ سود کہلاتا ہے۔
مثال: زید نے بکر کو
100 روپے قرض اس شرط پر دیا کہ جب وہ قرض واپس کرے تو 110 روپے کرے تو یہ سود ہے،
جبکہ قرآن میں سود کو حرام قرار دیا ہے۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے
والے، سود لکھنے والے اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب اس
گناہ میں برابر ہیں۔(صراط الجنان، 2/51)
2۔ سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا
کرے۔(صراط الجنان، 2/51)
3۔ سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا
ہے۔(صراط الجنان، 2/51)
4۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی
اجازت دیتا ہے۔(الکبائر للذہبی، ص 69)
5۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(الکبائر، ص 70)
سود کے معاشرتی نقصانات: سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ کر دیتی ہے، سود معاشرے میں
انسانی جذبوں اور رشتوں کو کمزور کر دیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے جرائم بھی سامنے
آتے ہیں، جیسے سود کے قرض تلے دبا انسان کبھی خود کشی کر لیتا ہے، سود کی ہی بنا
پر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتے ہیں۔
سود سے بچنے کی ترغیب: سود کے عذابات اور حدیث میں اس کی وعیدیں اس کے دنیوی نقصانات پر غور و فکر
کریں اور دل میں خوف خدا رکھیں ان شاء اللہ سود سے بچنے کی ترغیب ملے گی۔