سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد منیر، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر کافر
ہے۔ جو حرام سمجھ کر اس کا ارتکاب کرے وہ فاسق اور اس کی گواہی معتبر نہیں۔
سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ میں
جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی
ہو کہ اس کے مقابلے (بدلے) میں دوسری طرف کچھ
نہ ہو تو یہ سود ہے۔ الله پاک نے متعدد
مقامات پر سود کی مذمت بیان فرمائی۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: وَ
اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- (پ 3، البقرۃ: 275)ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام
کیا سود۔
سو دکی مذمت پر 5 فرامین مصطفٰے:
1-حضرت عبد اللہ بن خنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:سود کاایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری سےبھی
سخت ہے ۔(مسند امام احمد، حدیث: 22016)
2-حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ ستر
حصہ ہے، اس میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ
کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔( ابنِ
ماجہ ،حدیث : 2274 )
3-حضرت جابر سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ
نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور
سود کا کاغذلکھنے والے اور ان کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا:وہ سب(گناہ
میں)برابر ہیں۔(مسلم ،حدیث: 105 )
4-حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر کی طرح
ہیں۔ ان کے پیٹوں میں سانپ ہیں جوبا ہرسے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا :اے
جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا :یہ سود خوار ہیں۔(ابنِ ماجہ، حدیث:2273)
5-حضرت عمربن خطاب سے روایت ہے :رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کو چھوڑو
اورجس میں سود کا شبہ ہوا سے بھی چھوڑ دو۔( ابنِ ماجہ، حدیث: 2276)
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سودلینا اور دینادونوں حرام ہے۔ دونوں پر
حدیثوں میں لعنت آئی ہے۔ سود کے دنیاوی اور اخروی نقصانات ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اس گناہِ کبیرہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ ناصر، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

سود حرامِ قطعی ہے۔سود لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ سود لینے والا
دنیا میں فائدہ حاصل کر لیتا ہے، لیکن اپنی آخرت برباد کر لیتا ہے۔ سود کے بہت سے
نقصانات ہیں ۔یہ طبیعت میں بے رحمی پیدا کرتا ہے۔سود کا انکار کرنے والا کافر
ہے۔سود کا ایک درہم جس کو جان بوجھ کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت
ہے ۔ارشادِ باری ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ
اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ
بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ
الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ
فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ
فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ
اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ
اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ3، البقرۃ: 275-276) ترجمہ
کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا
ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو
سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے
پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام
خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں
گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا
کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔
سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف
زیادتی ہو اس کے مقابل دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔
فرامینِ مصطفٰے:
1-شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں ۔ان
پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا :اے جبریل !یہ کون
لوگ ہیں ؟انہوں نے کہا :یہ سود خور ہیں۔ ( ابنِ ماجہ ،حدیث: 2273)
2-حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے،انہوں نے فرمایا: سود کو چھوڑ دو اور جس میں
سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو ۔(ابنِ ماجہ، حدیث: 2276)
3-ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں جبکہ جنس
مختلف ہو۔( حدیث: 1082)
4-لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا۔ اگر سود
نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے یعنی سود دے گا یا اس کی گواہی دے گا یا
دستاویز لکھے گا یا کسی کو کھلانے کی کوشش کرے گا یا سود خور کے ہاں دعوت کھاے گا
یا اس کا ہدیہ قبول کرے گا۔ ( ابو داود
،حدیث: 3331)
5-سونا بدلے میں سونے کے، چاندی بدلے میں چاندی کے اور گیہوں بدلے میں گیہوں
کے اور جو بدلے میں جو کے اور کھجور بدلے میں کھجور کے اور نمک بدلے میں نمک کے
برابر برابر دست بدست بیع کرو اور جب اصناف میں اختلاف ہو اور تو جیسے چاہو بیچو یعنی
کم و بیش میں اختیار ہے جبکہ دست بدست ہو اور اس کی مثل ابو سعید خدری سے مروی ہے ۔اس میں اتنا
اضافہ ہے کہ لینے والا ،دینے والا دونوں برابر ہیں اور صحیحین میں حضرت عمر سے بھی
اسی کی مثل مروی ہے۔ (مسلم ،حدیث: 1081)
درس: سود حرام ہے
۔اللہ پاک ہمیں اس بُرے فعل سے بچائے اور ہمیں حلال مال کھانے کی توفیق عطا فرمائے
اور ہمیں دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ وسیم، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

سود حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ سود دینے والا اور لینے والا
دونوں جہنمی ہیں۔ لوگ چند پیسوں کے لیے آخرت اور دنیا دونوں کو تباہ کر لیتے ہیں
۔سود سے خود کو بچانا چاہیے۔ قرآن میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔جو اس کا انکار
کرے وہ کافر ہے۔ سود کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ
مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا
فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ
رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان
والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور
اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور
اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ
دوسرا تم پر ظلم کرے۔
سود کی تعریف:سود کو عربی میں
ربا کہتے ہیں، جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا، پرو ان چڑھنا اور بلندی کی طرف
جانا ہے۔ شرعی اصطلاح میں سود یہ ہے کہ
کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت کچھ رقم زیادہ دے گا مثلا
ًکسی کو سال یا چھے ماہ کے لئے 100 روپے قرض دیئے اور اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ مہلت کے عوض سو کے
بجائے 120 روپے واپس لے گا تویہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے ہیں سود ہے۔
فرامینِ مصطفٰے:
1-(سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔( بخاری،
حدیث : 280)
2-(سود کا گناہ) ستر حصے ہے ان میں سے سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی
ماں سے بدکاری کرے۔ (ابنِ ماجہ،حدیث: 2274)
3-سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے گا وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت
ہے۔اسی کی مثل بیہقی نے ابنِ عباس سے روایت کی ہے۔(مسند امام احمد ،حدیث:22012)
4-سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کا شعبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔( ابنِ ماجہ، حدیث: 22722)
5-ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے :دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جب کہ
جنس مختلف ہو۔ (حدیث:1082)
اللہ پاک ہم سب کو سود سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھے اور ہمیں حلال مال کھانے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد احسن، فیضانِ فاطمۃ الزہرا،مدینہ کلاں،لالہ موسی

سُود کی مذمت پر تمہیدی کلمات: اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے :یَمْحَقُ اللّٰهُ
الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ
اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ3 ، البقرۃ:276)ترجمہ کنز الایمان : اللہ ہلاک کرتا ہے سُود کو اور بڑھاتاہے
خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی
ناشکرا بڑا گنہگار۔
سُود کی تعریف:فقہا نے لکھا ہے
:الربا ھو الفضل المستحق لاحد المتعاقدین فی
المعاوضہ الخالی عن عوض شرط فیہ سود اس اضافے کو
کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض
سے خالی ہو ۔(ہدایہ)
سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفٰے:
1-شہنشاہِ مدینہ ﷺ کا فرمانِ باقرینہ ہے:سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ وبرباد
کرنے والی ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا (2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا
قتل کرنا اللہ پاک نے
حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6)جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ
پھیر کر بھاگ جانا اور (7) پاک دامن ، شادی شدہ ، مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔
(بخاری ، 2 /242، حدیث : 2766)
2-حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں بدکاری
اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی
والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی ، ص69)
3-نبیوں کے سلطان،سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے:جس قوم میں سود پھیلتا
ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔( کتاب الکبائر للذہبی ، ص 70)
4-حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے
والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب
(گناہ میں) برابر ہیں۔ (مسلم ، ص862، حدیث : 1598)
5-مکی مدنی آقا ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے : بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ۔ ان
میں سے کم ترین یہ ہے کہ کوئی مرد اپنی
ماں سے بدکاری کرے۔ (معجم اوسط ،5
/227،حدیث : 7151)
سود کے چند معاشرتی نقصانات :سود خور ، گھر کے گھر تباہ وبرباد
کرتا ہے ۔ سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے ۔مال کی محبت میں دیوانہ وار گھومتا
رہتا ہے۔ صدقہ وخیرات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔ آخر
کار دولت کی یہی ہوس و حرص اسے جہنم کی آگ کا ایندھن بنا ڈالتی ہے۔سود خور کے دل
سے رحم نکل جاتا ہے۔ اسے کسی پر ترس نہیں آتا ۔ مجبور سے مجبور شخص اس کے آگے
ایڑیاں رگڑے بلکہ سرکی ٹوپی اتار کر اس کے پاؤں پر رکھ دے تو بھی اسے رحم نہیں
آتا۔کیونکہ سود نے اس کے قلب کو کالا کر دیا ہوتا ہے۔سود خور حاسد بن جاتا ہے ۔ اس
کی تمنا ہوتی ہے کہ اس سے قرض لینے والا نہ تو کبھی پھلے پھولے اور نہ ہی ترقی
کرے کہ اُس کے پھلنے پھولنے میں اِس کی
آمدنی تباہ ہوتی ہے۔ کیونکہ جس نے اِس سے سود پر قرض لیا اگر وہ ترقی کر جائے گا
اور قرض اتار دے گا تو اس کی آمدنی ختم ہوجائے گی۔ یہی حسد اس کو تباہ و برباد کر
دیتا ہے ۔
سود سے بچنے کی ترغیب:دنیا کے مال و دولت کی کوئی حیثیت
نہیں، بلکہ حقیقی دولت تقویٰ ،پرہیز گاری ،خوفِ خدا اورعشقِ مصطفٰے ہے۔ اللہ پاک یہ
دولت اسے عطا فرماتا ہے جس سے راضی ہوتا ہے۔ لہٰذا دولت و حکومت کا ہونا فضیلت کی
بات نہیں ہے۔کیونکہ فرعون ، نمرود اور قارون بھی تو دولت و حکومت والے تھے۔ مگر ان
کی دولت و حکومت انہیں ابدی لعنت سے محفوظ نہ رکھ سکی ۔ معلوم ہوا کہ حکومت اور
دولت کا ہونا فضیلت کا باعث نہیں،بلکہ فضیلت کا باعث تو یہ ہے کہ اللہ پاک ہم
سے راضی ہو جائے۔ہمیں تقویٰ وپرہیز گاری مل جائے۔ اگر دولت ملے تو وہ جس کے ملنے
پر ربّ راضی ہو،وہ حلال اور شبہ سے پاک ہو۔ جیسا کہ دولت تو حضرت عثمانِ غنی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے پاس بھی
تھی ، مگر ان کی دولت حرام اور شبہ کے مال سے پاک تھی اور انہیں جو دولت بھی ملتی اسے اسلام کے نام
پر قربان کرتے چلے جاتے اور اللہ پاک اور رسولِ کریم ﷺ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے
تھے۔ چنانچہ دولت مند صحابہ کرام نے اپنی
دولت سے ایسے ایسے غلام آزاد کئے کہ انہوں نے عشقِ رسول کی لازوال مثالیں رقم کیں۔
کرلے توبہ رب کی
رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ
سزا ہوگی کڑی
ایک دن مرنا ہے
آخر موت ہے کرلے جو
کرنا ہے آخر موت ہے
آگاہ اپنی موت سے
کوئی بشر نہیں سامان سو
برس کا ہے پل کی خبر نہیں
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ جاوید احمد، فیضانِ ماریہ قبطیہ،مورو

ہمارے معاشرے میں پائےجانے والے
گناہوں میں ایک ظاہری گناہ سود ہے ۔
سود کی تعریف: لین دین کے کسی
معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری
طرف کچھ نہ ہو تو یہ سود ہے ۔اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ
حاصل ہو وہ بھی سود ہے۔
سود کی مثال: جو چیز ماپ یا
تول سے بکتی ہوں جب اس کو اپنی جنس سے بدلہ جائے مثلا گندم کے بدلے گندم، جو کے
بدلے جو لئے اور ایک طرف زیادہ ہو تو یہ حرام ہے۔سود حرامِ قطعی ہے۔ حرام ہونے کا
انکار کرنے والا کافر ہے۔جس طرح سود لینا حرام ہے تو دینا بھی حرام ہے۔اللہ پاک
قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا
یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ
الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں
قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط
کر دیا ہو۔
سود کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ:
1-مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود
لینے والے، سود دینے والے ،سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور
فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔ (مسلم،ص 862،حدیث: 105-106 )
2-ابنِ ماجہ،دارمی امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے راوی ہے کہ
فرمایا:سود کو چھوڑو اور جس کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔ ( ابنِ ماجہ،2 /83 ،
حدیث:2286)
3- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ ادھار
میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست
ہو تو سود نہیں یعنی جب کہ جنس مختلف ہو۔(بہارِ شریعت) ( حدیث: 1584)
4-امام احمد، ابنِ ماجہ، بیہقی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: (سود
سے بظاہر) مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (مسند امام
احمد،2/50،حدیث: 3854)
5-ابنِ ماجہ ،بیہقی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: سود کا گناہ 70 حصے ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں
سے بدکاری کرے۔(بہارِ شریعت)(ابنِ ماجہ، 3/
82 ، حدیث:2284)
سود میں پڑنے کے اسباب: مال کی حرص ،فضول خرچی ،خاص طور پر شادی وغیرہ تقریبات میں فضول رسموں کی
پابندی،علم دین کی کمی وغیرہ ۔سود سے بچنے کے لیے ہمیں قناعت اختیار کرنی چاہیے۔لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجئے اور موت کو کثرت سے یاد کیجیے۔
ان شاءاللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کا ذہن بنے گا۔
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ
ظفر الاسلام،نواں پنڈ آرائیاں سیالکوٹ

دُرود شریف کی فضیلت:خواجۂ خواجگان ،حضرت خواجہ غلام حسن سواگ المعروف پیر سَواگ رحمۃُ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:جب بہت غم اور مشکلات آجائیں تو درود شریف کی کثرت ہی تمام مشکلات کو
حل کرتی ہے۔ (فیوضاتِ حسینہ ،ص 193)
مشکل جو سر پہ آپڑی
تیرے ہی نام سے ٹلی مشکل
کُشا ہے تیرا نام تجھ پر درود اور سلام
صَلُّوا عَلَی
الْحَبِیب صَلَّی
اللہُ علٰی مُحَمَّد
قرآنِ کریم میں سود کی حرمت کا بیان:سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔اس کی حُرمت کا منکر کافر
اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردودُ الشہادہ ہے(یعنی
اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔)اللہ پاک نے قرآن میں اس کی بھرپور مذمت فرمائی ہے ۔چنانچہ سورۂ بقرہ آیت نمبر 275 تا 278 ہے: ترجمہ:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے
ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو اس لئے کہ
انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے اللہ پاک نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود تو جسے اس
کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس
کا کام خدا کے سپرد ہے اور جواب ایسی حرکت
کرے گاتو وہ دوزخی ہےوہ اس میں مدتوں رہے گا اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا
ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکر بڑا گنہگار بے شک وہ جو ایمان
لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی اور زکوۃ دی ان کا نیگ(اجر و ثواب)ان کے
رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ ہی غم۔
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ
منصور، فیضانِ غزالی،نیول کالونی،کراچی

سُود(Interest) ایک صریح نا
انصافی ہے۔سود اُس زیادتی کا نام ہے جوعقدِ معاوضہ میں عاقدین میں سے کسی ایک کے لیے مشروط ہواور عو ض سے خالی ہو ۔( فتح القدیر،6/151)
قرآنِ کریم میں اس کی خوب مذمت بیان
کی گئی ہے۔چنانچہ سورہ ٔبقرۃ کی آیت
275تا279میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سود کھانے
والے بروزِ قیامت ایسے کھڑے ہوں گے جیسے آسیب زدہ شخص سیدھا کھڑا ہونے کی بجائے
گرتے پڑتے چلتاہے۔ اللہ نے سود کو
حرام کیا ہے۔سود نہ چھوڑنے والا مدتوں
دوزخ میں رہے گا۔اللہ پاک سود کو ہلاک(برکت سے محروم ) کرتا ہے۔پس اگر تم سود نہیں
چھوڑتے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے لڑائی
کے لیے تیار ہوجاؤ۔(دلچسپ معلومات سوالا جوابات حصہ 1 ص46)نیز احادیث میں بھی سود
کی سخت مذمت اور شدید وعیدات بیان کی گئی
ہیں۔ چنانچہ
1-سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں
پاگل پن پھیلتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی ، ص 70)
2- آقا ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے
گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا:یہ سب(گناہ میں) برابر ہیں۔ (مسلم ،ص862،حدیث: 1598)
3-ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا : شبِ
معراج میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح(بڑے بڑے ) تھے، ان کے پیٹوں
میں سانپ موجود تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے۔میں نے پوچھا: اے جبرائیل!یہ کون
لوگ ہیں؟کہا:یہ سُود خور ہیں۔ (ابنِ ماجہ،ص363،حدیث:2273 )
4- بے شک سود کے 72 دروازے ہیں،ان میں سے کم ترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی
ماں سے بدکاری کرے۔(معجم اوسط ،5 /227،حدیث:7151)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ
اللہِ علیہ لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول
اﷲ ﷺ کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا
نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر(70)بار بدکاری کرنا! سود لینا حرامِ قطعی و
کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا (جائز)نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ،17/ 307)
5-آپ ﷺ نے سات
مہلکات بیان فرمائے؛جن میں چوتھے نمبر پر سود کا ذکر فرمایا۔(بخاری، 2/422،حدیث:
2766)
سودکے سبب معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوتیں ہیں۔انسان بے رحم اور خود غرض
ہو جاتا ہے۔اس میں سے ہمدردی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔سود خور انتہائی بخیل
ہوجاتا اور دوسروں سے حسد کرنے لگتا ہے۔افسوس!آج کل سود بہت عام ہوتا جارہا ہے۔
سود آخرت کی خرابی کے ساتھ ساتھ معاشرے
میں کئی خرابیوں کا باعث ہے۔اللہ پاک ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

سود عصر حاضر کا ایک حساس موضوع ہے اور ایک ناسور اور طاغوتی وبا کی شکل
اختیار کر چکا ہے، شریعت محمدی کے پیروکار ذرا رک کر اپنا موازنہ زمانہ جاہلیت کے
طاقتور اور جابر و ظالم سے کریں تو خود کو ترقی یافتہ اور مہذب اور باشعور کہنے سے
پہلے سر شرم سے جھک جائے گا، زمانہ جاہلیت میں سود خوری ایک مصروف تجارت سمجھی
جاتی تھی، اسلام نے اس کا خاتمہ کیا اور اسلامی معاشرے کو اس سے پاک و صاف کرنے کی
خاطر مسلمانوں پر کڑی شرطیں عائد کی ہیں تاکہ مسلمان کی جان اور عزت و آبرو کے
ساتھ اس کے مال و دولت کی حفاظت کا بھی سامان کیا جائے۔
سود عربی زبان میں (ربا) زیادتی اور اضافہ کو کہتے ہیں سود قرآن کریم، سنتِ
رسول اور اجماع سے حرام ہے۔
1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے،
کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ
یہ سب کے سب برابر ہیں۔(صحیح مسلم، ص 862، حدیث: 1597)
2۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے
کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)
3۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آج کی شب میں نے خواب میں دیکھا کہ دو شخص میرے پاس
آئے اور مجھے ایک مقدس جگہ پر لے گئے چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ ایک خون کی نہر کے
پاس آئے جس میں ایک شخص کھڑا تھا اور نہر کے درمیانی حصہ میں ایک شخص تھا جس کے
سامنے ایک پتھر تھا تو وہ شخص جو نہر میں تھا آتا اور جب نکلنا چاہتا تو دوسرا
شخص ایک پتھر اس کے منہ میں دے مارتا تو وہ شخص جہاں تھا وہیں لوٹ جاتا اسی طرح جب
جب وہ شخص نکلنا چاہتا دوسرا شخص پتھر سے اس کے منہ میں مارتا اور وہ لوٹ کر وہیں
چلا جاتا جہاں تھا، تو میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ فرشتے نے جواب دیا:
جسے آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھا۔ (بخاری، 3/11، حدیث: 2085)
4۔ سود کے 73 مراتب ہیں ان میں سب سے کم تر کا گناہ آدمی کے اپنی ماں سے زنا
کرنے کے مثل ہے اور سب سے بڑا سود مرد مسلم کی آبرو ہے۔(شعب الایمان، 4/394،
حدیث: 5520)
5۔ یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس بات کی قطعاً کوئی
پروا نہیں کرے گا کہ وہ مال کہاں سے حاصل کر رہا ہے حلال ذریعہ سے یا حرام ذریعہ
سے۔(بخاری، 4/313، حدیث: 2083)
آہ افسوس صد افسوس! آج ہم خود کو عاشق رسول گردانتے ہوئے بڑے بڑے دعویٰ کرتے
ہیں لیکن ہمارے اعمال سنتِ رسول کی پیروی کے منافی ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو شریعت
کا پابند بنائے اور شبہات میں مبتلا نہ کرے کہ شبہات حرام امور کا دروازہ کھولتے
ہیں۔
21 جنوری سےحضرت خواجہ معین الدین چشتی کے سالانہ عرس کے مو قع پر مدنی مذاکروں کا
انعقاد کیا جائیگا

شہنشاہِ
چشت، تاجُ الاولیا، سلطان الہند، خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ معینُ الدِّین سید حسن
سنجری اجمیری (المعروف حضور خواجہ غریب نواز) رحمۃُ اللہِ علیہ کا سالانہ عرس انتہائی عقیدت
واحترام سے منانے کے لئے 21 جنوری 2023ء بروز ہفتہ سے 6 رجب المرجب 1444ھ تک دعوت
اسلامی کے زیر اہتمام عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں مدنی مذاکروں کا
انعقاد کیا جائیگا۔
مدنی مذاکروں
کے آغاز میں جلوس غریب نواز کا اہتمام ہوگا جبکہ شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد
الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ شہنشاہِ چشت،
تاجُ الاولیا، سلطان الہند، خواجۂ خواجگاں حضور خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرت و دینی خدمات پر گفتگو
کرتے ہوئے عاشقان رسول کی جانب سے ہونے والے سوالات کے جوابات ارشاد فرمائیں گے۔
تمام
عاشقان اولیاء سے ان مدنی مذاکروں میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔

ہر شخص کے اپنے اپنے رائٹس ہوتے ہیں، مثلاً رائٹس آفCitizen،رائٹس آف animal، رائٹس آفParent،رائٹس آف Children الغرض ہر کسی
کے رائٹس پر بات ہوتی ہے۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس نبیِ کریم ﷺکا ہم نے کلمہ پڑھا ہے اور ہم جن کی غلامی کا دعویٰ کرتی ہیں،جن کے صدقے
ہماری ان شاء الله شفاعت ہونی ہے اور ہم جنت میں جائیں گی وہ آقا ﷺ جب دنیا میں
تشریف لائے تو ان کے لبوں پر تھا: رب ھب لی امتی۔
ہر امتی پر حقوقِ رسول اللہ ہیں۔ان پر ایمان لایا جائے، نبی کریم ﷺ کی
اتباع کی جائے۔ سر کار ﷺکی اطاعت کی جائے۔ نبی کریم ﷺ سے محبت کی جائے۔ عشق کیا
جائے۔ درود شریف پڑھا جائے۔نبی کریم ﷺ کے روضے کی زیارت کو جائیں۔
یہ شعر تو ہم بڑی محبت سے پڑھتی ہیں!
وہ
ہمارےنبی ان کے ہم امتی امتی
تیری قسمت پہ لاکھوں سلام
یقیناً ہماری قسمت
بہت بڑی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اپنا امتی بنا لیا۔
1۔ایمان و اتباع:آنحضرت ﷺ
کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپ ﷺ جو کچھ اللہ پاک کی طرف سےلائے ہیں اس
کی تصدیق فرض ہے۔ایمان بالرسول کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔
آیتِ مبارکہ: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،
الفتح:13)ترجمہ کنز الایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے
کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو شخص ایمان باللہ اور ایمان
بالر سول کا جامع نہ ہو وہ کافر ہے۔
2۔ حضور ﷺکی اطاعت واجب ہے:
آپ ﷺ کےاوامر کا امتثال (احکام کی پیروی) اور آپ کے نواہی (منع کردہ چیزوں) سے
اجتناب لازم ہے۔
آیت
مبارکہ: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا
نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ(۷)
(پ 28، الحشر: 7) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ
لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور
اللہ سے ڈرو بےشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا
گزر ایک جماعت پر ہوا جن کے سامنے بھنی
ہوئی بکری تھی، انہوں نے آپ کو بلایا، آپ نے کھانے سے انکار کر دیا اور فرمایا: نبی
کریم ﷺ دنیا سے رحلت فرماگئے اور جو کی
روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔(مشکوۃ، بخاری)
3۔محبت و عشق: رسول کی
محبت واجب ہے چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ
اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ
فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی
الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر
تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ
اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند
کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں
تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ
نہیں دیتا۔
وضاحت:اس
آیت سے ثابت ہے کہ ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت واجب ہے۔ کیونکہ اس
میں بتادیا گیا ہے کہ تم کو اللہ اور رسول کی محبت کا دعویٰ ہے اس لیے کہ تم ایمان
لائے ہو پس اگر تم غیر کی محبت کو اللہ پاک اور رسول اکرم ﷺکی محبت پر ترجیح دیتے ہو تو تم اپنے دعویٰ
میں صادق نہیں ہو اگر تم اس طرح محبتِ غیر سے اپنے دعویٰ کی تکذیب کرتے رہو گے تو
خدا کے قہر سے ڈرو اور آیت کے اخیر حصے سے ظاہر ہے کہ جس کو اللہ اور رسول کی محبت
نہیں وہ فاسق ہے۔
حدیث:حضرت انس بن مالک رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایاکہ تم میں سے کوئی مومن ( کامل)نہیں بن سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے
باپ اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں کی نسبت زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری شریف)
4۔تعظیم و توقیر:ذیل میں
وہ آیات پیش کی جاتی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کا ذکر ہے:
(1)آیت مبارکہ: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)
(پ 26، الفتح: 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی
اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم
و توقیرکرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔
(2)آیت مبارکہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا
بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ
عَلِیْمٌ(۱) (پ 26، الحجرات: 1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ
اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔
آیت نمبر1 میں
بتایا گیا کہ تم کسی قول یا فعل یا حکم میں آنحضرت ﷺ سے پیش دستی نہ کرو مثلاً جب
حضور اقدسﷺ کی مجلس میں کوئی سوال کرے تو تم حضور ﷺ سے پہلے اس کا جواب نہ دو۔ جب
کھانا حا ضر ہو تو حضور ﷺ سے پہلے شروع نہ کرو۔ جب حضور ﷺ کسی جگہ تشریف لے جائیں تو تم بغیر کسی مصلحت کے حضور اقدس ﷺکے آگے نہ چلو۔
امام سہل بن
عبدالله تستری اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:اللہ پاک نے اپنے مومن بندوں کو یہ
ادب سکھایا کہ آنحضرت ﷺ سے پہلےتم بات نہ کرو۔ جب آپﷺ فرمائیں تو تم آپ ﷺکےارشاد کو کان لگا کر سنو اور چپ رہو۔آپ
کے حق کی فیر د گزاشت اور آپ کے احترام و توقیر کے ضائع کرنے میں خدا سے ڈرو خدا
تمہارے قول کو سنتا اور تمہارے عمل کو جانتا ہے۔
حقوقِ رسول:آنحضرت
ﷺکے روضہ شریف کی زیارت بالاجماع سنت اور فضیلت عظیمہ ہے۔ اس بارے میں بہت سی
احادیث آئی ہیں جن میں سے چند وفاء الوفاء سے یہاں پیش کی جاتی ہیں:
حدیث مبارکہ:من زار قبری و جبت له شفاعتی۔ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے واسطے میری شفاعت ثابت
ہوگئی۔ (دار قطنی و بیہقی وغیرہ)
حدیث مبارکہ:من زارنی
متعمداً كان فی جواری یوم القیمة جس نے بالقصد میری زیارت کی وہ قیامت کے دن میری پناہ میں
ہو گا۔(ابوجعفر عقیل)
مسند ِامام ابی حنیفہ میں بروایت امام
منقول ہے کہ حضرت ایوب سختیانی تابعی رحمۃ اللہ علیہ آئے، جب وہ رسول اللہ ﷺ کی
قبر شریف کے نزدیک پہنچے تو اپنی پیٹھ قبلہ کی طرف اور منہ حضور اقدس ﷺکے چہرے
مبارک کی طرف کر لیا اور روئے۔(وفاء الوفاء، 2/ 424)
5۔درود شریف:مومنوں
پر واجب ہے کہ رسول ﷺ پر درود پاک بھیجا کریں چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ
عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ22،الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے
فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور
خوب سلام بھیجو۔ واضح رہے کہ خدا کے درود بھیجنے سے مراد رحمت کا نازل کرنا
اور فرشتوں اور مومنوں کے درود سے مراد ان کا بارگاہِ رب العزت میں تضرع و دعا
کرنا ہے کہ وہ اپنے حبیب پاک ﷺ پر رحمت و برکت نازل فرمائےچنانچہ صحیح حدیث میں
آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص
مجھ پر ایک مرتبہ درود پاک پڑھتا ہے تو الله پاک اس پر دس بار درود بھیجتا
ہے۔(صحیح حدیث)
درس: اے عاشقانِ رسول !نبی ِکریم ﷺکے جوحقوق بیان ہوئے ہیں ان کو
دیکھیے، پڑھیے اور سمجھیے کہ کیا ہماری زندگی ایسی ہی گزر رہی ہے؟کیاہم ان حقوق کو
مدِّنظر رکھ کر اپنی زندگی گزار رہی ہیں
کہ نہیں؟ امتی تو ہیں، کلمہ تو پڑھا ہے، غلامیِ رسول کا دعویٰ بھی کرتی ہیں مگر
حقوقِ مصطفٰے پر کوئی توجہ نہیں۔ زندگی گزارنے پر توجہ ہے۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کی
بڑی جنگ ہے۔ ہر کوئی اپنے رائٹس کے بارے میں سوال کرتی ہے مگر کبھی ہم نے یہ سوچا
ہے جن کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے کیا ہم ان کے حقوق بجالاتی ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر کس
چیز کا انتظار ہے؟ یہ دنیا فانی ہے اور اس میں ہر چیز فانی ہے۔ لہٰذا نبی کریم ﷺپر
زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجا جائے اور بار بار ان کے روضہ مبارک کی زیارت کو
جایا جائے اور ان کی تعظیم و توقیر اور عزت و احترام کیا جائے۔اللہ پاک نبی کریم ﷺ
کے حقوق ادا کرنے اور آپ ﷺ کے نقش ِقدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بار
بار میٹھے مدینے کی حاضری نصیب فرمائے۔ ( آمین )
رسول
اللہ کے 5 حقوق از بنتِ ارشد،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

ہمارا ایمان اور قرآن کا فرمان ہے کہ ا للہ پاک نے ہمیں سب
سے عظیم رسول عطا فرما کر ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ ارشاد باری ہے: لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ (پ 4،
اٰل عمران: 164) ترجمہ کنز الایمان: بے شک
اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔
ہمارا تو وجود بھی سیددو عالمﷺ کے صدقے سے ہے۔ اگر
آپ ﷺ نہ ہوتے تو کائنات ہی نہ ہوتی۔آپ ﷺ اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہاتے رہے اور بہار
ہے ہیں۔ پیدائش کے وقت، معراج کی رات اور وصال شریف کے بعد قبر انور میں اتارتے
ہوئے بھی حضور پرنور ﷺکے لبہائے مبارکہ پر امت کی یاد تھی۔ آپ میدانِ محشر میں کہیں
نیکیوں کے پلڑے بھاری کروائیں گے،کہیں پل صراط سے آسانی سے گزاریں گے، کہیں حوض
ِکوثر سے سیراب کریں گے اور کسی کے درجات بلند کروائیں گے۔
قرآن، ایمان،خدا کا عرفان اور بے شمار نعمتیں ہمیں آپ ﷺکے
صدقے ہی نصیب ہوئیں۔ یقیناً آپﷺ کے احسانات اس قدر کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا
ممکن ہی نہیں۔ انہی بیش بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں امت پر حقوقِ مصطفٰےکے
نام سے ذکر کیا جاتا ہے جن کی ادائیگی تقاضائے ایمان اور مطالبہ احسان ہے۔چند حقوق
ملاحظہ ہوں:
1۔ رسول اللہ پر ایمان:پہلاحق یہ
ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت ورسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ الله کی طرف سے لائے
ہیں اسے صدقِ دل سے تسلیم کیا جائے۔ یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام انسانوں
پر لازم ہے کیونکہ آپ کی رحمت تمام جہانوں کے لیے ہے۔ آپ ﷺ پر ایمان لانا فرض ہے۔ جو
ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں۔ارشاد باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)
(پ 26، الفتح: 13) ترجمہ کنز الایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول
پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔
2۔ رسول الله کی
پیروی: نبی کر یم ﷺکی سیرت
مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضہ ہے۔حضور پر نور
ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی
خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائے۔
3۔ رسول
اللہ کی اطاعت: رسول الله کا یہ حق ہے کہ آپ کا ہر
حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔جس بات کا حکم ہوا سے بجالائیں اور جس چیز سے
روکیں اس سے رکا جائے۔ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان
والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔
4۔ رسول اللہ کی محبت: امتی پر
حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا ومولا ﷺ سے سچی محبت کرے کہ آپ ﷺکی
محبت روح ایمان، جان ایمان اور اصل ایمان ہے۔ نبی کر یم ﷺنے ارشاد فرمایا: تم میں
سے کسی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں اُسے اُس کے باپ، اُس کی
اولاد اور عام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
5۔ رسول
اللہ کی تعظیم: ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و
جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبی مکرم ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے
بلکہ آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 9) ترجمہ کنز الایمان:
بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ
اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
اگر کسی کو بارگاہِ نبوی میں ادنی سی گستاخی کا مرتکب دیکھے
تو اگرچہ وہ باپ یایا استاد یا پیر یا عالم ہو یا دنیاوی وجاہت والا کوئی شخص، اُسے
اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو
باہر پھینکا جاتا ہے۔
رسول اللہ کاذکرِ مبارک اور نعت:ہم
پر حق ہے کہ فخر موجودات، باعثِ تخلیقِ کائنات ﷺ کی مدح و ثنا، تعریف و توصیف، نعت
و منقبت، نیز فضائل و کمالات،ذکرِ سیرت و سنن و شمائلِ مصطفٰے اور بیانِ حسن و
جمال کو دل و جان سے پسند کریں اور ان اذکار مبار کہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ
کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔ اعلیٰ حضرت کیا خوب فرماتے ہیں:
تیرے تو
وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
رسول
اللہ پر درود ِپاک پڑھنا:حضور پر نورﷺ پر درود پاک پڑھنابھی مقتضائے ایمان ہے۔ اللہ
پاک فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ
مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22،
الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس
غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
رسول اللہ کی قبر ِانور
کی زیارت کرنا: حضور اقدس ﷺ کی قبر ِانور کی زیارت کرنا امتی کی
محبت کی دلیل ہے اور خصوصاً حج پر جانے والے کے لیے بارگاہِ مصطفٰےکی حاضری ایک
اہم حق ہے۔ یہ حاضری سنتِ مؤکَّدہ اور قریب بواجب ہے اور اس کا ترک شقاو جفا ہے۔ اللہ کریم ہمیں پیارے آقاﷺکے حقوق ادا
کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ
النبی الامین ﷺ ( عشقِ رسول مع امتی پر
حقوق ِمصطفٰے)
رسول
اللہ کے 5 حقوق از بنتِ محمد اصغر،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

جس طرح دنیا میں ہر شخص مثلاً والدین، استاد اور پیر وغیرہ
کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح امتِ مصطفٰے پر بھی نبی ِکریم ﷺکے کچھ حقوق ہیں
جنہیں ادا کرنا ہم پہ فرض و واجب ہے کہ حضورﷺ کو اپنی امت سے اس قدر محبت ہے کہ
پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف
رہتے اور امت کی مغفرت کیلئے در بار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گر یہ
وزاری فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبار ک پر ورم آجا تا
تھا۔ چنانچہ آپﷺ نے اپنی امت کیلئے جو مشقتیں اٹھائیں ان کاتقا ضا ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کر
نا ہر امتی پر فرض و واجب ہے اور اس پر آپ کی شفقت و رحمت کی اس کیفیت پر خود قرآن
بھی شاہد ہے، ہم بھی اپنے نبی ﷺ سے سچی محبت کریں اور ان حقوق کو ادا کریں۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ
اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ11،التوبۃ:128) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں
پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہرباں مہربان۔
جب نبی کریم ﷺ ہم پر اتنے مہر بان اور شفقت فرمانے والے ہیں
تو ہم پر بھی فرض ہے کہ ہم بھی ان کے تمام حقوق ادا کریں۔ حقوق بیان کرنے سے پہلے
بتاتی چلوں کہ حق کہتےکسےہیں؟
حق کسے کہتے ہیں؟حق کے
لغوی معنی صحیح، درست، وا جب، سچ، انصاف یا جائز مطالبہ کے ہیں۔ ایک طرف حق سچائی
کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور با ضابطہ طور
پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔
تو اس وضاحت کے بعد حقوق کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ وہ
اصول جو ایک فرد کو دیگر افرا دکی جانب سے اجازت یا واجب الادا ہیں۔
حق کی تعریف کرنے کے بعد امت پر حضورﷺ کے 5حقوق بیان کرتی
چلوں جن کا مختصر جائزہ صحابیات کی سیرت کی روشنی میں پیشِ خدمت ہے:
1-ایمان بالرسول: رسولِ
خدا ﷺ پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدق ِدل سے اس کو
سچا ماننا یہ اُمتی پر فرض عین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان
لائے ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔اس لئے صرف توحید و رسالت کو مان لینے سے
کوئی مسلمان نہیں یا اس کا ایمان کامل نہیں؛ اس کا ایمان تب ہی کامل ہوگا جب وہ حضور
ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب جانے۔ اس بارے میں مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:تم میں سے
کوئی اس وقت تک(کامل) مومن نہیں ہو سکتا
جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ،
اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔
2-اطاعتِ رسول: یہ بھی ہر
امتی پر رسول اللہﷺ کا حق ہے کہ آپ جس بات کا حکم دیں اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ
کرے۔ کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر ِتسلیم خم کر دینا امتی پر فرض
عین ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم
مانو رسول کا۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ حضور ﷺ کی اطاعت دل و جان سے کریں۔
3-سرکارﷺ
کی تکلیف برداشت نہ ہوتی: صحابیات طیبات رضی الله عنہن حضور ﷺ
سے جس قدر محبت کرتی تھیں اس کی مثالیں شمار سے باہر ہیں۔ اس کے متعلق ایک روایت
ملاحظہ ہو۔ مروی ہے کہ جب امہات المومنین رضی اللہ عنہن مرض الموت کے دوران بارگاہ
رسالت میں حاضر ہوئیں تو آپ کی تکلیف نہ برداشت کر سکیں تو حضرت صفیہ رضی اللہ
عنہا نے بارگاه خد اوندی میں عرض کی: اللہ پاک کی قسم! یا نبی الله!کاش!میں آپ کی
جگہ ہوتی۔آپ ﷺ کی بات کی تصدیق کرنے کے بعد حضور ﷺ نے ار شاد فرمایا: اللہ پاک کی قسم ! یہ سچ بولنے والی ہیں۔
4- آداب بار گاہ رسالت کی انوکھی مثال:
حضور ﷺ کی اطاعت و فرما نبرداری سے ایمان کامل ہوتا ہے۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ دو جہاں کے
تاجور ﷺ نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے معذرت کرتے ہو ئے عرض
کی:مجھے آپ سے نکاح میں کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ آپ تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں
مگر میرے بچے ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ وہ آپ کیلئے تکلیف کا باعث بنیں۔
5-درود شریف: اللہ پاک
نے ہمیں اپنے حبیبﷺ پر درودپاک پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ
عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
(پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے
ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ اس
آیتِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ زندگی میں ایک مرتبہ حضور ﷺ پر درود پڑھنا فرض ہے لہٰذا
ہمیں حضور ﷺپر درود کی کثرت کرنی چاہیے۔ اسی لیے صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم کے
مقدس زمانے سے لے کر آج تک تمام مسلمان آپﷺپر درود و سلام کے گجرے نچھاور کرتے
رہتے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔اللہ کریم ہمیں یہ حقوق بجا
لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (صحابیات وصالحات کے اعلیٰ اوصاف،ص 75-76-78-79-81)
کاش!
دیدارِ رسول ہو جائے
التجا ہے قبول ہو جائے