سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ غلام مصطفٰے، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار بُرائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین
بُرائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ اب کسی
حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ سود ایک کبیرہ اور ہلاک کرنے
والا گناہ ہے۔ سود لینے سے ہمارا سلام منع فرماتا ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی
ممانعت آئی ہے۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتاہے: اَلَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ
یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- پ
3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے
مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔
سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ
(یعنی لین دین کے معاملے میں) جب دونوں طرف صرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ
اس کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہارِ شریعت، 2/769،حصہ: 11)
سود کے مختلف احکام:سود حرامِ
قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہے ۔جس طرح سود لینا حرام ہے ،اسی طرح سود دینا
بھی حرام ہے۔( گناہوں کے عذابات،ص 37)
سود کے بارے میں پانچ فرامینِ مصطفٰے:
1-امام احمد و دارِ قطنی عبداللہ بن حنظلہ
غسیلُ الملائکہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود کا ایک درہم
جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔ (مسندامام احمد،حدیث:
22016)
2-ابنِ ماجہ اور دارمی امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ
دو۔( ابنِ ماجہ،حدیث: 2276)
3-امام محمد ،ابنِ ماجہ وبیہقی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (سود سے بظاہر ) اگرچہ مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند
امام احمد،حدیث:3754)
4-حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی
والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ۔(کتاب الکبائر للذہبی ، ص69)
5-حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سود کا گناہ
73 درجے ہے ،ان میں سے سب سے چھوٹا یہ ہے کہ
آدمی اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے۔(مستدرک، 2/ 338، حدیث: 2306)
سود سے بچنے کی ترغیب:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ پاک سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے ،نہ حج، نہ
جہاد،نہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک۔(تفسیرِ قرطبی ، 2/ 274)
سود کے چند معاشرتی نقصانات:سود ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے ایک شخص کو معاشرے میں طرح طرح کے نقصانات
پہنچتے ہیں مثلاً لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں
سود سے کس قدر منع کیا گیا ہے۔لیکن آج کل کئی لوگ اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ خدارا !اپنے ایمان کو خطرے میں نہ
ڈالیے۔ اپنی آخرت کے بارے میں سوچئے۔ دنیاوی زندگی تو آپ بہت آرام و سکون کے ساتھ
گزار لیں گے ،لیکن آخرت میں کیا کریں گے! اللہ پاک ہمیں بھی سود اور دیگر ناجائز
حرام کاموں سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنی آخرت بہتر کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد اشرف، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
تنگیِ رِزْق کے اسباب میں سے ایک سبب سُود خوری بھی ہےجیساکہ مروی ہے:اِیَّاکُمْ وَالرِّبَا فَاِنَّہُ یُوْرِثُ الْفَقْرَ یعنی سُود سے بچو کہ یہ تنگدستی لاتا ہے۔یاد رکھئے! سُود
ایک ایسی بُرائی ہے جس نے ہمیشہ مَعِیْشت و روزگار کو تباہ و برباد کیا ہے۔قرآن و
حدیث میں سُود کی نہایت سخت الفاظ میں بُرائی بیان کی گئی ہے،حتی کہ سُود سے
باز نہ آنے والوں کے خلاف اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا
ہے۔چنانچہ پارہ 3 سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 278 اور 279 میں ارشادِ باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا
اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا
فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ
رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان
والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور
اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور
اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ
دوسرا تم پر ظلم کرے۔
٭سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سُود خوار کو بے محنت مال کا حاصل
ہونا تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی
کمی انسانی معاشرت کو نقصان پہنچاتی ہے۔٭
سُود کے رواج سے باہمی محبّت کے سُلوک کو نُقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سُود کا
عادی ہوتو وہ کسی کو قرضِ حسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا ۔ ٭ سُود سے انسان
کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بےرحمی پیدا ہوتی ہے اور ٭سُود خوار اپنے مقروض کی
تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی سُود میں اور بڑے بڑے
نقصانات ہیں اور شریعت کی مُمانَعَت عین حکمت ہے۔
سود کی تعریف:سود کو عربی
میں”ربا“ کہتے ہیں۔ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پر وہ اضافی مالی رقم ہے جس کا
مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔
سُود کی مذمت پر 5فرامینِ مُصطفٰے:
1-رسول اللہﷺنے سُود لینے والے اور سُود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اُس
کے گواہوں پر لعنت فرمائی اورفرمایا کہ وہ سب (گناہ میں)برابر ہیں۔( مسلم،
حدیث:1598)
2- سُود کا ایک دِرہم جس کو جان کر کوئی کھائے،وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت
ہے۔(مسند امام احمد، حدیث:2201)
3- شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا،جس کےپیٹ گھر کی طرح(بڑے بڑے) ہیں،ان
پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔میں نے پوچھا:اے جبرائیل!یہ کون
لوگ ہیں؟ کہا:یہ سُود خور ہیں۔ (ابن ماجہ، حدیث:2273)
4- سُودسے(بظاہر) اگرچہ مال زیادہ
ہو،مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔( مسندامام احمد، حدیث:3754)
5- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سود کے ستر حصے ہیں اور ان میں سب سے کم ترین حصہ
یہ ہے کہ انسان خود اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے ۔ ( ابنِ ماجہ )
سود کے معاشرتی نقصانات:موجودہ معاشی نظام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پوری طرح سودی نظام پر مبنی ہے اور
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں معاشی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔دنیا کی ساری دولت
سمٹ کر گنتی کے چند ارب پتیوں کی تجوری میں جمع ہورہی ہے۔ ایک عام غریب آدمی کے
لیے زندگی گزارنا ایسا دشوار ہورہا ہے کہ وہ خود کشی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔سود
کے اخلاقی و روحانی نقصانات ہیں، کیونکہ ہم سودی معاملہ کرنے والے جس انسان کو بھی
دیکھتی ہیں اس کی طبیعت میں بخل و کنجوسی ،تنگیٔ صدر،سخت دلی، مال کی بندگی
اورمادیت کی ہوس وغیرہ جیسے گندے اوصاف رچے بسے ہوتے ہیں۔
سود سے بچنے کا درس:کسی بھی
کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے اور اس کام کو احسن طریقے سے انجام دینے کے لیے
پکا ارادہ انتہائی ضروری ہے۔ اگر اللہ پاک کے فضل و کرم سے آپ کے دل میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ سود ایک گندگی
و بیماری اور گناہ کا کام ہے اور اس سے
نجات حاصل کرنی ہے تو آپ اس پر ڈٹ جائیے۔ اس سود نے ہماری انفرادی زندگی ، گھریلو
ماحول ، ہمارے معاشرے بلکہ کُل نسلِ انسانی کو پریشانی ،بے چینی ،اقتصادی بدحالی
،مہنگائی اور بے راہ روی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یقین جانئے کہ اگر آپ ارادہ کر لیں
گی اور اس پر ڈٹ جائیں گی تو آپ یقینی طور پر اپنی زندگی کو اس غلاظت سے پاک کر
لیں گی۔ ہر نیک کام جو اللہ کے ڈر اور اس کی رضا کے لیے کیا جائے ، اس رب کی
رحمتوں کو آواز دیتا ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور کبھی مایوس نہیں
کرتا۔
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد رشید، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے۔اس کی
حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا ارتکاب کرے وہ فاسق ہے ۔سود لینا اور دینا
دونوں حرام کام ہیں ۔حدیثِ مبارکہ میں ان دونوں پر لعنت فرمائی گئی ہے ۔
سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ(یعنی
لین دَین کے کسی مُعَامَلے)میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس
کے مُقَابِل (یعنی بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سُود ہے۔(بہارِ شریعت ،
2/769، حصہ:11)
سود کی مذمت
پر فرامینِ مصطفٰے:
1- حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے سود لینے والے اور سود
دینے والے اور سود لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ
وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث: (1597) )
2- فرمانِ آخری نبی ﷺ: سود کا ایک
درہم جس کو جان کر کوئی کھائے ، وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔(مسند امام
احمد، 8 /223، حدیث: 22016)
3- مکی مدنی آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:
سود (کا گناہ) ستر حصے ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی اپنی ماں سے نکاح
کرے۔ (مشکاۃ المصابیح،2/142، حدیث: 2826)
4-مدینے کے تاجدار ،مکی مدنی آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک
قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر
سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا:
یہ سود خوار ہیں۔( ابنِ ماجہ،3/72، حدیث:
2273)
5- رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (سود
سے بظاہر ) اگرچہ مال زیادہ ہو ، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہو گا۔(مسند امام
احمد،2/50، حدیث: 3754)
سود کے چند معاشرتی نقصانات: آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرضِ حسن جو بغیر سود کے
ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے ۔لوگ اپنی وسعت سے زیادہ خرچ کرنا چاہتے اور سود کی
آفت میں خود کو مبتلا کرتے ہیں۔ مال کا لالچ اور فضول خرچی جیسی آفات معاشرے میں
سود کی بدولت ہی ہیں۔
سود
سے بچنے کی ترغیب:سود سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کیجئے۔ لمبی اُمیدوں سے
کنارہ کشی اختیار کیجیے۔ دنیا و آخرت کے تباہ کن نتائج ، سود کے عذابات اور اس کے
نقصانات کو پیشِ نظر رکھیے۔اللہ پاک ہمیں سود جیسے گناہ اور اس کے تباہ کن نتائج
سے محفوظ فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد منیر، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر کافر
ہے۔ جو حرام سمجھ کر اس کا ارتکاب کرے وہ فاسق اور اس کی گواہی معتبر نہیں۔
سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ میں
جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی
ہو کہ اس کے مقابلے (بدلے) میں دوسری طرف کچھ
نہ ہو تو یہ سود ہے۔ الله پاک نے متعدد
مقامات پر سود کی مذمت بیان فرمائی۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: وَ
اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- (پ 3، البقرۃ: 275)ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام
کیا سود۔
سو دکی مذمت پر 5 فرامین مصطفٰے:
1-حضرت عبد اللہ بن خنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:سود کاایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری سےبھی
سخت ہے ۔(مسند امام احمد، حدیث: 22016)
2-حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ ستر
حصہ ہے، اس میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ
کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔( ابنِ
ماجہ ،حدیث : 2274 )
3-حضرت جابر سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ
نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور
سود کا کاغذلکھنے والے اور ان کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا:وہ سب(گناہ
میں)برابر ہیں۔(مسلم ،حدیث: 105 )
4-حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر کی طرح
ہیں۔ ان کے پیٹوں میں سانپ ہیں جوبا ہرسے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا :اے
جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا :یہ سود خوار ہیں۔(ابنِ ماجہ، حدیث:2273)
5-حضرت عمربن خطاب سے روایت ہے :رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کو چھوڑو
اورجس میں سود کا شبہ ہوا سے بھی چھوڑ دو۔( ابنِ ماجہ، حدیث: 2276)
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سودلینا اور دینادونوں حرام ہے۔ دونوں پر
حدیثوں میں لعنت آئی ہے۔ سود کے دنیاوی اور اخروی نقصانات ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اس گناہِ کبیرہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ ناصر، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
سود حرامِ قطعی ہے۔سود لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ سود لینے والا
دنیا میں فائدہ حاصل کر لیتا ہے، لیکن اپنی آخرت برباد کر لیتا ہے۔ سود کے بہت سے
نقصانات ہیں ۔یہ طبیعت میں بے رحمی پیدا کرتا ہے۔سود کا انکار کرنے والا کافر
ہے۔سود کا ایک درہم جس کو جان بوجھ کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت
ہے ۔ارشادِ باری ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ
اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ
بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ
الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ
فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ
فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ
اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ
اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ3، البقرۃ: 275-276) ترجمہ
کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا
ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو
سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے
پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام
خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں
گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا
کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔
سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف
زیادتی ہو اس کے مقابل دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔
فرامینِ مصطفٰے:
1-شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں ۔ان
پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا :اے جبریل !یہ کون
لوگ ہیں ؟انہوں نے کہا :یہ سود خور ہیں۔ ( ابنِ ماجہ ،حدیث: 2273)
2-حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے،انہوں نے فرمایا: سود کو چھوڑ دو اور جس میں
سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو ۔(ابنِ ماجہ، حدیث: 2276)
3-ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں جبکہ جنس
مختلف ہو۔( حدیث: 1082)
4-لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا۔ اگر سود
نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے یعنی سود دے گا یا اس کی گواہی دے گا یا
دستاویز لکھے گا یا کسی کو کھلانے کی کوشش کرے گا یا سود خور کے ہاں دعوت کھاے گا
یا اس کا ہدیہ قبول کرے گا۔ ( ابو داود
،حدیث: 3331)
5-سونا بدلے میں سونے کے، چاندی بدلے میں چاندی کے اور گیہوں بدلے میں گیہوں
کے اور جو بدلے میں جو کے اور کھجور بدلے میں کھجور کے اور نمک بدلے میں نمک کے
برابر برابر دست بدست بیع کرو اور جب اصناف میں اختلاف ہو اور تو جیسے چاہو بیچو یعنی
کم و بیش میں اختیار ہے جبکہ دست بدست ہو اور اس کی مثل ابو سعید خدری سے مروی ہے ۔اس میں اتنا
اضافہ ہے کہ لینے والا ،دینے والا دونوں برابر ہیں اور صحیحین میں حضرت عمر سے بھی
اسی کی مثل مروی ہے۔ (مسلم ،حدیث: 1081)
درس: سود حرام ہے
۔اللہ پاک ہمیں اس بُرے فعل سے بچائے اور ہمیں حلال مال کھانے کی توفیق عطا فرمائے
اور ہمیں دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ وسیم، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
سود حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ سود دینے والا اور لینے والا
دونوں جہنمی ہیں۔ لوگ چند پیسوں کے لیے آخرت اور دنیا دونوں کو تباہ کر لیتے ہیں
۔سود سے خود کو بچانا چاہیے۔ قرآن میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔جو اس کا انکار
کرے وہ کافر ہے۔ سود کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ
مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا
فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ
رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان
والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور
اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور
اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ
دوسرا تم پر ظلم کرے۔
سود کی تعریف:سود کو عربی میں
ربا کہتے ہیں، جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا، پرو ان چڑھنا اور بلندی کی طرف
جانا ہے۔ شرعی اصطلاح میں سود یہ ہے کہ
کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت کچھ رقم زیادہ دے گا مثلا
ًکسی کو سال یا چھے ماہ کے لئے 100 روپے قرض دیئے اور اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ مہلت کے عوض سو کے
بجائے 120 روپے واپس لے گا تویہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے ہیں سود ہے۔
فرامینِ مصطفٰے:
1-(سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔( بخاری،
حدیث : 280)
2-(سود کا گناہ) ستر حصے ہے ان میں سے سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی
ماں سے بدکاری کرے۔ (ابنِ ماجہ،حدیث: 2274)
3-سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے گا وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت
ہے۔اسی کی مثل بیہقی نے ابنِ عباس سے روایت کی ہے۔(مسند امام احمد ،حدیث:22012)
4-سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کا شعبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔( ابنِ ماجہ، حدیث: 22722)
5-ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے :دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جب کہ
جنس مختلف ہو۔ (حدیث:1082)
اللہ پاک ہم سب کو سود سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھے اور ہمیں حلال مال کھانے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد احسن، فیضانِ فاطمۃ الزہرا،مدینہ کلاں،لالہ موسی
سُود کی مذمت پر تمہیدی کلمات: اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے :یَمْحَقُ اللّٰهُ
الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ
اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ3 ، البقرۃ:276)ترجمہ کنز الایمان : اللہ ہلاک کرتا ہے سُود کو اور بڑھاتاہے
خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی
ناشکرا بڑا گنہگار۔
سُود کی تعریف:فقہا نے لکھا ہے
:الربا ھو الفضل المستحق لاحد المتعاقدین فی
المعاوضہ الخالی عن عوض شرط فیہ سود اس اضافے کو
کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض
سے خالی ہو ۔(ہدایہ)
سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفٰے:
1-شہنشاہِ مدینہ ﷺ کا فرمانِ باقرینہ ہے:سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ وبرباد
کرنے والی ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا (2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا
قتل کرنا اللہ پاک نے
حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6)جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ
پھیر کر بھاگ جانا اور (7) پاک دامن ، شادی شدہ ، مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔
(بخاری ، 2 /242، حدیث : 2766)
2-حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں بدکاری
اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی
والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی ، ص69)
3-نبیوں کے سلطان،سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے:جس قوم میں سود پھیلتا
ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔( کتاب الکبائر للذہبی ، ص 70)
4-حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے
والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب
(گناہ میں) برابر ہیں۔ (مسلم ، ص862، حدیث : 1598)
5-مکی مدنی آقا ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے : بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ۔ ان
میں سے کم ترین یہ ہے کہ کوئی مرد اپنی
ماں سے بدکاری کرے۔ (معجم اوسط ،5
/227،حدیث : 7151)
سود کے چند معاشرتی نقصانات :سود خور ، گھر کے گھر تباہ وبرباد
کرتا ہے ۔ سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے ۔مال کی محبت میں دیوانہ وار گھومتا
رہتا ہے۔ صدقہ وخیرات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔ آخر
کار دولت کی یہی ہوس و حرص اسے جہنم کی آگ کا ایندھن بنا ڈالتی ہے۔سود خور کے دل
سے رحم نکل جاتا ہے۔ اسے کسی پر ترس نہیں آتا ۔ مجبور سے مجبور شخص اس کے آگے
ایڑیاں رگڑے بلکہ سرکی ٹوپی اتار کر اس کے پاؤں پر رکھ دے تو بھی اسے رحم نہیں
آتا۔کیونکہ سود نے اس کے قلب کو کالا کر دیا ہوتا ہے۔سود خور حاسد بن جاتا ہے ۔ اس
کی تمنا ہوتی ہے کہ اس سے قرض لینے والا نہ تو کبھی پھلے پھولے اور نہ ہی ترقی
کرے کہ اُس کے پھلنے پھولنے میں اِس کی
آمدنی تباہ ہوتی ہے۔ کیونکہ جس نے اِس سے سود پر قرض لیا اگر وہ ترقی کر جائے گا
اور قرض اتار دے گا تو اس کی آمدنی ختم ہوجائے گی۔ یہی حسد اس کو تباہ و برباد کر
دیتا ہے ۔
سود سے بچنے کی ترغیب:دنیا کے مال و دولت کی کوئی حیثیت
نہیں، بلکہ حقیقی دولت تقویٰ ،پرہیز گاری ،خوفِ خدا اورعشقِ مصطفٰے ہے۔ اللہ پاک یہ
دولت اسے عطا فرماتا ہے جس سے راضی ہوتا ہے۔ لہٰذا دولت و حکومت کا ہونا فضیلت کی
بات نہیں ہے۔کیونکہ فرعون ، نمرود اور قارون بھی تو دولت و حکومت والے تھے۔ مگر ان
کی دولت و حکومت انہیں ابدی لعنت سے محفوظ نہ رکھ سکی ۔ معلوم ہوا کہ حکومت اور
دولت کا ہونا فضیلت کا باعث نہیں،بلکہ فضیلت کا باعث تو یہ ہے کہ اللہ پاک ہم
سے راضی ہو جائے۔ہمیں تقویٰ وپرہیز گاری مل جائے۔ اگر دولت ملے تو وہ جس کے ملنے
پر ربّ راضی ہو،وہ حلال اور شبہ سے پاک ہو۔ جیسا کہ دولت تو حضرت عثمانِ غنی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے پاس بھی
تھی ، مگر ان کی دولت حرام اور شبہ کے مال سے پاک تھی اور انہیں جو دولت بھی ملتی اسے اسلام کے نام
پر قربان کرتے چلے جاتے اور اللہ پاک اور رسولِ کریم ﷺ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے
تھے۔ چنانچہ دولت مند صحابہ کرام نے اپنی
دولت سے ایسے ایسے غلام آزاد کئے کہ انہوں نے عشقِ رسول کی لازوال مثالیں رقم کیں۔
کرلے توبہ رب کی
رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ
سزا ہوگی کڑی
ایک دن مرنا ہے
آخر موت ہے کرلے جو
کرنا ہے آخر موت ہے
آگاہ اپنی موت سے
کوئی بشر نہیں سامان سو
برس کا ہے پل کی خبر نہیں
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ جاوید احمد، فیضانِ ماریہ قبطیہ،مورو
ہمارے معاشرے میں پائےجانے والے
گناہوں میں ایک ظاہری گناہ سود ہے ۔
سود کی تعریف: لین دین کے کسی
معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری
طرف کچھ نہ ہو تو یہ سود ہے ۔اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ
حاصل ہو وہ بھی سود ہے۔
سود کی مثال: جو چیز ماپ یا
تول سے بکتی ہوں جب اس کو اپنی جنس سے بدلہ جائے مثلا گندم کے بدلے گندم، جو کے
بدلے جو لئے اور ایک طرف زیادہ ہو تو یہ حرام ہے۔سود حرامِ قطعی ہے۔ حرام ہونے کا
انکار کرنے والا کافر ہے۔جس طرح سود لینا حرام ہے تو دینا بھی حرام ہے۔اللہ پاک
قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا
یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ
الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں
قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط
کر دیا ہو۔
سود کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ:
1-مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود
لینے والے، سود دینے والے ،سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور
فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔ (مسلم،ص 862،حدیث: 105-106 )
2-ابنِ ماجہ،دارمی امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے راوی ہے کہ
فرمایا:سود کو چھوڑو اور جس کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔ ( ابنِ ماجہ،2 /83 ،
حدیث:2286)
3- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ ادھار
میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست
ہو تو سود نہیں یعنی جب کہ جنس مختلف ہو۔(بہارِ شریعت) ( حدیث: 1584)
4-امام احمد، ابنِ ماجہ، بیہقی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: (سود
سے بظاہر) مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (مسند امام
احمد،2/50،حدیث: 3854)
5-ابنِ ماجہ ،بیہقی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: سود کا گناہ 70 حصے ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں
سے بدکاری کرے۔(بہارِ شریعت)(ابنِ ماجہ، 3/
82 ، حدیث:2284)
سود میں پڑنے کے اسباب: مال کی حرص ،فضول خرچی ،خاص طور پر شادی وغیرہ تقریبات میں فضول رسموں کی
پابندی،علم دین کی کمی وغیرہ ۔سود سے بچنے کے لیے ہمیں قناعت اختیار کرنی چاہیے۔لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجئے اور موت کو کثرت سے یاد کیجیے۔
ان شاءاللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کا ذہن بنے گا۔
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ
ظفر الاسلام،نواں پنڈ آرائیاں سیالکوٹ
دُرود شریف کی فضیلت:خواجۂ خواجگان ،حضرت خواجہ غلام حسن سواگ المعروف پیر سَواگ رحمۃُ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:جب بہت غم اور مشکلات آجائیں تو درود شریف کی کثرت ہی تمام مشکلات کو
حل کرتی ہے۔ (فیوضاتِ حسینہ ،ص 193)
مشکل جو سر پہ آپڑی
تیرے ہی نام سے ٹلی مشکل
کُشا ہے تیرا نام تجھ پر درود اور سلام
صَلُّوا عَلَی
الْحَبِیب صَلَّی
اللہُ علٰی مُحَمَّد
قرآنِ کریم میں سود کی حرمت کا بیان:سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔اس کی حُرمت کا منکر کافر
اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردودُ الشہادہ ہے(یعنی
اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔)اللہ پاک نے قرآن میں اس کی بھرپور مذمت فرمائی ہے ۔چنانچہ سورۂ بقرہ آیت نمبر 275 تا 278 ہے: ترجمہ:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے
ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو اس لئے کہ
انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے اللہ پاک نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود تو جسے اس
کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس
کا کام خدا کے سپرد ہے اور جواب ایسی حرکت
کرے گاتو وہ دوزخی ہےوہ اس میں مدتوں رہے گا اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا
ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکر بڑا گنہگار بے شک وہ جو ایمان
لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی اور زکوۃ دی ان کا نیگ(اجر و ثواب)ان کے
رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ ہی غم۔
سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ
منصور، فیضانِ غزالی،نیول کالونی،کراچی
سُود(Interest) ایک صریح نا
انصافی ہے۔سود اُس زیادتی کا نام ہے جوعقدِ معاوضہ میں عاقدین میں سے کسی ایک کے لیے مشروط ہواور عو ض سے خالی ہو ۔( فتح القدیر،6/151)
قرآنِ کریم میں اس کی خوب مذمت بیان
کی گئی ہے۔چنانچہ سورہ ٔبقرۃ کی آیت
275تا279میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سود کھانے
والے بروزِ قیامت ایسے کھڑے ہوں گے جیسے آسیب زدہ شخص سیدھا کھڑا ہونے کی بجائے
گرتے پڑتے چلتاہے۔ اللہ نے سود کو
حرام کیا ہے۔سود نہ چھوڑنے والا مدتوں
دوزخ میں رہے گا۔اللہ پاک سود کو ہلاک(برکت سے محروم ) کرتا ہے۔پس اگر تم سود نہیں
چھوڑتے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے لڑائی
کے لیے تیار ہوجاؤ۔(دلچسپ معلومات سوالا جوابات حصہ 1 ص46)نیز احادیث میں بھی سود
کی سخت مذمت اور شدید وعیدات بیان کی گئی
ہیں۔ چنانچہ
1-سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں
پاگل پن پھیلتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی ، ص 70)
2- آقا ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے
گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا:یہ سب(گناہ میں) برابر ہیں۔ (مسلم ،ص862،حدیث: 1598)
3-ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا : شبِ
معراج میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح(بڑے بڑے ) تھے، ان کے پیٹوں
میں سانپ موجود تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے۔میں نے پوچھا: اے جبرائیل!یہ کون
لوگ ہیں؟کہا:یہ سُود خور ہیں۔ (ابنِ ماجہ،ص363،حدیث:2273 )
4- بے شک سود کے 72 دروازے ہیں،ان میں سے کم ترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی
ماں سے بدکاری کرے۔(معجم اوسط ،5 /227،حدیث:7151)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ
اللہِ علیہ لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول
اﷲ ﷺ کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا
نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر(70)بار بدکاری کرنا! سود لینا حرامِ قطعی و
کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا (جائز)نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ،17/ 307)
5-آپ ﷺ نے سات
مہلکات بیان فرمائے؛جن میں چوتھے نمبر پر سود کا ذکر فرمایا۔(بخاری، 2/422،حدیث:
2766)
سودکے سبب معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوتیں ہیں۔انسان بے رحم اور خود غرض
ہو جاتا ہے۔اس میں سے ہمدردی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔سود خور انتہائی بخیل
ہوجاتا اور دوسروں سے حسد کرنے لگتا ہے۔افسوس!آج کل سود بہت عام ہوتا جارہا ہے۔
سود آخرت کی خرابی کے ساتھ ساتھ معاشرے
میں کئی خرابیوں کا باعث ہے۔اللہ پاک ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سود عصر حاضر کا ایک حساس موضوع ہے اور ایک ناسور اور طاغوتی وبا کی شکل
اختیار کر چکا ہے، شریعت محمدی کے پیروکار ذرا رک کر اپنا موازنہ زمانہ جاہلیت کے
طاقتور اور جابر و ظالم سے کریں تو خود کو ترقی یافتہ اور مہذب اور باشعور کہنے سے
پہلے سر شرم سے جھک جائے گا، زمانہ جاہلیت میں سود خوری ایک مصروف تجارت سمجھی
جاتی تھی، اسلام نے اس کا خاتمہ کیا اور اسلامی معاشرے کو اس سے پاک و صاف کرنے کی
خاطر مسلمانوں پر کڑی شرطیں عائد کی ہیں تاکہ مسلمان کی جان اور عزت و آبرو کے
ساتھ اس کے مال و دولت کی حفاظت کا بھی سامان کیا جائے۔
سود عربی زبان میں (ربا) زیادتی اور اضافہ کو کہتے ہیں سود قرآن کریم، سنتِ
رسول اور اجماع سے حرام ہے۔
1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے،
کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ
یہ سب کے سب برابر ہیں۔(صحیح مسلم، ص 862، حدیث: 1597)
2۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے
کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)
3۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آج کی شب میں نے خواب میں دیکھا کہ دو شخص میرے پاس
آئے اور مجھے ایک مقدس جگہ پر لے گئے چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ ایک خون کی نہر کے
پاس آئے جس میں ایک شخص کھڑا تھا اور نہر کے درمیانی حصہ میں ایک شخص تھا جس کے
سامنے ایک پتھر تھا تو وہ شخص جو نہر میں تھا آتا اور جب نکلنا چاہتا تو دوسرا
شخص ایک پتھر اس کے منہ میں دے مارتا تو وہ شخص جہاں تھا وہیں لوٹ جاتا اسی طرح جب
جب وہ شخص نکلنا چاہتا دوسرا شخص پتھر سے اس کے منہ میں مارتا اور وہ لوٹ کر وہیں
چلا جاتا جہاں تھا، تو میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ فرشتے نے جواب دیا:
جسے آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھا۔ (بخاری، 3/11، حدیث: 2085)
4۔ سود کے 73 مراتب ہیں ان میں سب سے کم تر کا گناہ آدمی کے اپنی ماں سے زنا
کرنے کے مثل ہے اور سب سے بڑا سود مرد مسلم کی آبرو ہے۔(شعب الایمان، 4/394،
حدیث: 5520)
5۔ یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس بات کی قطعاً کوئی
پروا نہیں کرے گا کہ وہ مال کہاں سے حاصل کر رہا ہے حلال ذریعہ سے یا حرام ذریعہ
سے۔(بخاری، 4/313، حدیث: 2083)
آہ افسوس صد افسوس! آج ہم خود کو عاشق رسول گردانتے ہوئے بڑے بڑے دعویٰ کرتے
ہیں لیکن ہمارے اعمال سنتِ رسول کی پیروی کے منافی ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو شریعت
کا پابند بنائے اور شبہات میں مبتلا نہ کرے کہ شبہات حرام امور کا دروازہ کھولتے
ہیں۔
21 جنوری سےحضرت خواجہ معین الدین چشتی کے سالانہ عرس کے مو قع پر مدنی مذاکروں کا
انعقاد کیا جائیگا
شہنشاہِ
چشت، تاجُ الاولیا، سلطان الہند، خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ معینُ الدِّین سید حسن
سنجری اجمیری (المعروف حضور خواجہ غریب نواز) رحمۃُ اللہِ علیہ کا سالانہ عرس انتہائی عقیدت
واحترام سے منانے کے لئے 21 جنوری 2023ء بروز ہفتہ سے 6 رجب المرجب 1444ھ تک دعوت
اسلامی کے زیر اہتمام عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں مدنی مذاکروں کا
انعقاد کیا جائیگا۔
مدنی مذاکروں
کے آغاز میں جلوس غریب نواز کا اہتمام ہوگا جبکہ شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد
الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ شہنشاہِ چشت،
تاجُ الاولیا، سلطان الہند، خواجۂ خواجگاں حضور خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرت و دینی خدمات پر گفتگو
کرتے ہوئے عاشقان رسول کی جانب سے ہونے والے سوالات کے جوابات ارشاد فرمائیں گے۔
تمام
عاشقان اولیاء سے ان مدنی مذاکروں میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔
Dawateislami