جس طرح دنیا میں ہر شخص مثلاً والدین، استاد اور پیر وغیرہ کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح امتِ مصطفٰے پر بھی نبی ِکریم ﷺکے کچھ حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا ہم پہ فرض و واجب ہے کہ حضورﷺ کو اپنی امت سے اس قدر محبت ہے کہ پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کیلئے در بار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گر یہ وزاری فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبار ک پر ورم آجا تا تھا۔ چنانچہ آپﷺ نے اپنی امت کیلئے جو مشقتیں اٹھائیں ان کاتقا ضا ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کر نا ہر امتی پر فرض و واجب ہے اور اس پر آپ کی شفقت و رحمت کی اس کیفیت پر خود قرآن بھی شاہد ہے، ہم بھی اپنے نبی ﷺ سے سچی محبت کریں اور ان حقوق کو ادا کریں۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ11،التوبۃ:128) ترجمہ کنز الایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہرباں مہربان۔

جب نبی کریم ﷺ ہم پر اتنے مہر بان اور شفقت فرمانے والے ہیں تو ہم پر بھی فرض ہے کہ ہم بھی ان کے تمام حقوق ادا کریں۔ حقوق بیان کرنے سے پہلے بتاتی چلوں کہ حق کہتےکسےہیں؟

حق کسے کہتے ہیں؟حق کے لغوی معنی صحیح، درست، وا جب، سچ، انصاف یا جائز مطالبہ کے ہیں۔ ایک طرف حق سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور با ضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔

تو اس وضاحت کے بعد حقوق کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ وہ اصول جو ایک فرد کو دیگر افرا دکی جانب سے اجازت یا واجب الادا ہیں۔

حق کی تعریف کرنے کے بعد امت پر حضورﷺ کے 5حقوق بیان کرتی چلوں جن کا مختصر جائزہ صحابیات کی سیرت کی روشنی میں پیشِ خدمت ہے:

1-ایمان بالرسول: رسولِ خدا ﷺ پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدق ِدل سے اس کو سچا ماننا یہ اُمتی پر فرض عین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔اس لئے صرف توحید و رسالت کو مان لینے سے کوئی مسلمان نہیں یا اس کا ایمان کامل نہیں؛ اس کا ایمان تب ہی کامل ہوگا جب وہ حضور ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب جانے۔ اس بارے میں مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک(کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔

2-اطاعتِ رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسول اللہﷺ کا حق ہے کہ آپ جس بات کا حکم دیں اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے۔ کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر ِتسلیم خم کر دینا امتی پر فرض عین ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ حضور ﷺ کی اطاعت دل و جان سے کریں۔

3-سرکارﷺ کی تکلیف برداشت نہ ہوتی: صحابیات طیبات رضی الله عنہن حضور ﷺ سے جس قدر محبت کرتی تھیں اس کی مثالیں شمار سے باہر ہیں۔ اس کے متعلق ایک روایت ملاحظہ ہو۔ مروی ہے کہ جب امہات المومنین رضی اللہ عنہن مرض الموت کے دوران بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو آپ کی تکلیف نہ برداشت کر سکیں تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے بارگاه خد اوندی میں عرض کی: اللہ پاک کی قسم! یا نبی الله!کاش!میں آپ کی جگہ ہوتی۔آپ ﷺ کی بات کی تصدیق کرنے کے بعد حضور ﷺ نے ار شاد فرمایا: اللہ پاک کی قسم ! یہ سچ بولنے والی ہیں۔

4- آداب بار گاہ رسالت کی انوکھی مثال: حضور ﷺ کی اطاعت و فرما نبرداری سے ایمان کامل ہوتا ہے۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ دو جہاں کے تاجور ﷺ نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے معذرت کرتے ہو ئے عرض کی:مجھے آپ سے نکاح میں کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ آپ تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں مگر میرے بچے ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ وہ آپ کیلئے تکلیف کا باعث بنیں۔

5-درود شریف: اللہ پاک نے ہمیں اپنے حبیبﷺ پر درودپاک پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ اس آیتِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ زندگی میں ایک مرتبہ حضور ﷺ پر درود پڑھنا فرض ہے لہٰذا ہمیں حضور ﷺپر درود کی کثرت کرنی چاہیے۔ اسی لیے صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم کے مقدس زمانے سے لے کر آج تک تمام مسلمان آپﷺپر درود و سلام کے گجرے نچھاور کرتے رہتے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔اللہ کریم ہمیں یہ حقوق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (صحابیات وصالحات کے اعلیٰ اوصاف،ص 75-76-78-79-81)

کاش! دیدارِ رسول ہو جائے التجا ہے قبول ہو جائے