سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد احسن، فیضانِ فاطمۃ الزہرا،مدینہ کلاں،لالہ موسی
سُود کی مذمت پر تمہیدی کلمات: اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے :یَمْحَقُ اللّٰهُ
الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ
اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ3 ، البقرۃ:276)ترجمہ کنز الایمان : اللہ ہلاک کرتا ہے سُود کو اور بڑھاتاہے
خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی
ناشکرا بڑا گنہگار۔
سُود کی تعریف:فقہا نے لکھا ہے
:الربا ھو الفضل المستحق لاحد المتعاقدین فی
المعاوضہ الخالی عن عوض شرط فیہ سود اس اضافے کو
کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض
سے خالی ہو ۔(ہدایہ)
سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفٰے:
1-شہنشاہِ مدینہ ﷺ کا فرمانِ باقرینہ ہے:سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ وبرباد
کرنے والی ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا (2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا
قتل کرنا اللہ پاک نے
حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6)جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ
پھیر کر بھاگ جانا اور (7) پاک دامن ، شادی شدہ ، مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔
(بخاری ، 2 /242، حدیث : 2766)
2-حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں بدکاری
اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی
والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی ، ص69)
3-نبیوں کے سلطان،سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے:جس قوم میں سود پھیلتا
ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔( کتاب الکبائر للذہبی ، ص 70)
4-حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے
والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب
(گناہ میں) برابر ہیں۔ (مسلم ، ص862، حدیث : 1598)
5-مکی مدنی آقا ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے : بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ۔ ان
میں سے کم ترین یہ ہے کہ کوئی مرد اپنی
ماں سے بدکاری کرے۔ (معجم اوسط ،5
/227،حدیث : 7151)
سود کے چند معاشرتی نقصانات :سود خور ، گھر کے گھر تباہ وبرباد
کرتا ہے ۔ سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے ۔مال کی محبت میں دیوانہ وار گھومتا
رہتا ہے۔ صدقہ وخیرات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔ آخر
کار دولت کی یہی ہوس و حرص اسے جہنم کی آگ کا ایندھن بنا ڈالتی ہے۔سود خور کے دل
سے رحم نکل جاتا ہے۔ اسے کسی پر ترس نہیں آتا ۔ مجبور سے مجبور شخص اس کے آگے
ایڑیاں رگڑے بلکہ سرکی ٹوپی اتار کر اس کے پاؤں پر رکھ دے تو بھی اسے رحم نہیں
آتا۔کیونکہ سود نے اس کے قلب کو کالا کر دیا ہوتا ہے۔سود خور حاسد بن جاتا ہے ۔ اس
کی تمنا ہوتی ہے کہ اس سے قرض لینے والا نہ تو کبھی پھلے پھولے اور نہ ہی ترقی
کرے کہ اُس کے پھلنے پھولنے میں اِس کی
آمدنی تباہ ہوتی ہے۔ کیونکہ جس نے اِس سے سود پر قرض لیا اگر وہ ترقی کر جائے گا
اور قرض اتار دے گا تو اس کی آمدنی ختم ہوجائے گی۔ یہی حسد اس کو تباہ و برباد کر
دیتا ہے ۔
سود سے بچنے کی ترغیب:دنیا کے مال و دولت کی کوئی حیثیت
نہیں، بلکہ حقیقی دولت تقویٰ ،پرہیز گاری ،خوفِ خدا اورعشقِ مصطفٰے ہے۔ اللہ پاک یہ
دولت اسے عطا فرماتا ہے جس سے راضی ہوتا ہے۔ لہٰذا دولت و حکومت کا ہونا فضیلت کی
بات نہیں ہے۔کیونکہ فرعون ، نمرود اور قارون بھی تو دولت و حکومت والے تھے۔ مگر ان
کی دولت و حکومت انہیں ابدی لعنت سے محفوظ نہ رکھ سکی ۔ معلوم ہوا کہ حکومت اور
دولت کا ہونا فضیلت کا باعث نہیں،بلکہ فضیلت کا باعث تو یہ ہے کہ اللہ پاک ہم
سے راضی ہو جائے۔ہمیں تقویٰ وپرہیز گاری مل جائے۔ اگر دولت ملے تو وہ جس کے ملنے
پر ربّ راضی ہو،وہ حلال اور شبہ سے پاک ہو۔ جیسا کہ دولت تو حضرت عثمانِ غنی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے پاس بھی
تھی ، مگر ان کی دولت حرام اور شبہ کے مال سے پاک تھی اور انہیں جو دولت بھی ملتی اسے اسلام کے نام
پر قربان کرتے چلے جاتے اور اللہ پاک اور رسولِ کریم ﷺ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے
تھے۔ چنانچہ دولت مند صحابہ کرام نے اپنی
دولت سے ایسے ایسے غلام آزاد کئے کہ انہوں نے عشقِ رسول کی لازوال مثالیں رقم کیں۔
کرلے توبہ رب کی
رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ
سزا ہوگی کڑی
ایک دن مرنا ہے
آخر موت ہے کرلے جو
کرنا ہے آخر موت ہے
آگاہ اپنی موت سے
کوئی بشر نہیں سامان سو
برس کا ہے پل کی خبر نہیں