سود عصر حاضر کا ایک حساس موضوع ہے اور ایک ناسور اور طاغوتی وبا کی شکل
اختیار کر چکا ہے، شریعت محمدی کے پیروکار ذرا رک کر اپنا موازنہ زمانہ جاہلیت کے
طاقتور اور جابر و ظالم سے کریں تو خود کو ترقی یافتہ اور مہذب اور باشعور کہنے سے
پہلے سر شرم سے جھک جائے گا، زمانہ جاہلیت میں سود خوری ایک مصروف تجارت سمجھی
جاتی تھی، اسلام نے اس کا خاتمہ کیا اور اسلامی معاشرے کو اس سے پاک و صاف کرنے کی
خاطر مسلمانوں پر کڑی شرطیں عائد کی ہیں تاکہ مسلمان کی جان اور عزت و آبرو کے
ساتھ اس کے مال و دولت کی حفاظت کا بھی سامان کیا جائے۔
سود عربی زبان میں (ربا) زیادتی اور اضافہ کو کہتے ہیں سود قرآن کریم، سنتِ
رسول اور اجماع سے حرام ہے۔
1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے،
کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ
یہ سب کے سب برابر ہیں۔(صحیح مسلم، ص 862، حدیث: 1597)
2۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے
کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)
3۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آج کی شب میں نے خواب میں دیکھا کہ دو شخص میرے پاس
آئے اور مجھے ایک مقدس جگہ پر لے گئے چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ ایک خون کی نہر کے
پاس آئے جس میں ایک شخص کھڑا تھا اور نہر کے درمیانی حصہ میں ایک شخص تھا جس کے
سامنے ایک پتھر تھا تو وہ شخص جو نہر میں تھا آتا اور جب نکلنا چاہتا تو دوسرا
شخص ایک پتھر اس کے منہ میں دے مارتا تو وہ شخص جہاں تھا وہیں لوٹ جاتا اسی طرح جب
جب وہ شخص نکلنا چاہتا دوسرا شخص پتھر سے اس کے منہ میں مارتا اور وہ لوٹ کر وہیں
چلا جاتا جہاں تھا، تو میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ فرشتے نے جواب دیا:
جسے آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھا۔ (بخاری، 3/11، حدیث: 2085)
4۔ سود کے 73 مراتب ہیں ان میں سب سے کم تر کا گناہ آدمی کے اپنی ماں سے زنا
کرنے کے مثل ہے اور سب سے بڑا سود مرد مسلم کی آبرو ہے۔(شعب الایمان، 4/394،
حدیث: 5520)
5۔ یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس بات کی قطعاً کوئی
پروا نہیں کرے گا کہ وہ مال کہاں سے حاصل کر رہا ہے حلال ذریعہ سے یا حرام ذریعہ
سے۔(بخاری، 4/313، حدیث: 2083)
آہ افسوس صد افسوس! آج ہم خود کو عاشق رسول گردانتے ہوئے بڑے بڑے دعویٰ کرتے
ہیں لیکن ہمارے اعمال سنتِ رسول کی پیروی کے منافی ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو شریعت
کا پابند بنائے اور شبہات میں مبتلا نہ کرے کہ شبہات حرام امور کا دروازہ کھولتے
ہیں۔