سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ جاوید احمد، فیضانِ ماریہ قبطیہ،مورو
ہمارے معاشرے میں پائےجانے والے
گناہوں میں ایک ظاہری گناہ سود ہے ۔
سود کی تعریف: لین دین کے کسی
معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری
طرف کچھ نہ ہو تو یہ سود ہے ۔اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ
حاصل ہو وہ بھی سود ہے۔
سود کی مثال: جو چیز ماپ یا
تول سے بکتی ہوں جب اس کو اپنی جنس سے بدلہ جائے مثلا گندم کے بدلے گندم، جو کے
بدلے جو لئے اور ایک طرف زیادہ ہو تو یہ حرام ہے۔سود حرامِ قطعی ہے۔ حرام ہونے کا
انکار کرنے والا کافر ہے۔جس طرح سود لینا حرام ہے تو دینا بھی حرام ہے۔اللہ پاک
قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا
یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ
الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں
قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط
کر دیا ہو۔
سود کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ:
1-مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود
لینے والے، سود دینے والے ،سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور
فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔ (مسلم،ص 862،حدیث: 105-106 )
2-ابنِ ماجہ،دارمی امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے راوی ہے کہ
فرمایا:سود کو چھوڑو اور جس کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔ ( ابنِ ماجہ،2 /83 ،
حدیث:2286)
3- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ ادھار
میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست
ہو تو سود نہیں یعنی جب کہ جنس مختلف ہو۔(بہارِ شریعت) ( حدیث: 1584)
4-امام احمد، ابنِ ماجہ، بیہقی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: (سود
سے بظاہر) مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (مسند امام
احمد،2/50،حدیث: 3854)
5-ابنِ ماجہ ،بیہقی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: سود کا گناہ 70 حصے ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں
سے بدکاری کرے۔(بہارِ شریعت)(ابنِ ماجہ، 3/
82 ، حدیث:2284)
سود میں پڑنے کے اسباب: مال کی حرص ،فضول خرچی ،خاص طور پر شادی وغیرہ تقریبات میں فضول رسموں کی
پابندی،علم دین کی کمی وغیرہ ۔سود سے بچنے کے لیے ہمیں قناعت اختیار کرنی چاہیے۔لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجئے اور موت کو کثرت سے یاد کیجیے۔
ان شاءاللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کا ذہن بنے گا۔