سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد منیر، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر کافر
ہے۔ جو حرام سمجھ کر اس کا ارتکاب کرے وہ فاسق اور اس کی گواہی معتبر نہیں۔
سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ میں
جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی
ہو کہ اس کے مقابلے (بدلے) میں دوسری طرف کچھ
نہ ہو تو یہ سود ہے۔ الله پاک نے متعدد
مقامات پر سود کی مذمت بیان فرمائی۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: وَ
اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- (پ 3، البقرۃ: 275)ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام
کیا سود۔
سو دکی مذمت پر 5 فرامین مصطفٰے:
1-حضرت عبد اللہ بن خنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:سود کاایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری سےبھی
سخت ہے ۔(مسند امام احمد، حدیث: 22016)
2-حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ ستر
حصہ ہے، اس میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ
کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔( ابنِ
ماجہ ،حدیث : 2274 )
3-حضرت جابر سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ
نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور
سود کا کاغذلکھنے والے اور ان کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا:وہ سب(گناہ
میں)برابر ہیں۔(مسلم ،حدیث: 105 )
4-حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر کی طرح
ہیں۔ ان کے پیٹوں میں سانپ ہیں جوبا ہرسے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا :اے
جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا :یہ سود خوار ہیں۔(ابنِ ماجہ، حدیث:2273)
5-حضرت عمربن خطاب سے روایت ہے :رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کو چھوڑو
اورجس میں سود کا شبہ ہوا سے بھی چھوڑ دو۔( ابنِ ماجہ، حدیث: 2276)
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سودلینا اور دینادونوں حرام ہے۔ دونوں پر
حدیثوں میں لعنت آئی ہے۔ سود کے دنیاوی اور اخروی نقصانات ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اس گناہِ کبیرہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین