جھوٹی گواہی
کی مذمت از بنت اقدس علی، جامعہ مہریہ نصیریہ شمس العلوم چنیوٹ
یوں تو ہر
جھوٹی بات حرام و گناہ ہے۔ مگر جھوٹی گواہی خاص طور سے بہت ہی سخت گناہ کبیرہ اور
جہنم میں گرا دینے والا جرمِ عظیم ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں خصوصیت کے ساتھ
جھوٹی گواہی پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری قسموں کے جھوٹ
سے تو صرف جھوٹ بولنے والے ہی کی دنیا و آخرت خراب ہوتی ہے۔ مگر جھوٹی گوا ہی سے
تو گوا ہی دینے والے کی دنیا و آخرت خرا ب ہونے کے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کا حق
مارا جاتا ہے یا بلا قصور کوئی مسلمان سزا پا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں
باتیں شرعاً کتنے بڑے گناہ کے کام ہیں۔لہٰذا بہت ہی ضروری ہےکہ مسلمان جھوٹی گوا
ہی کو جہنم کی آگ سمجھ کر ہمیشہ اس سے دور بھاگیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم تمام ایسے کاموں سے بچیں جن میں نہ صرف لوگوں کی حق تلفی ہے
بلکہ اللہ و رسول کی ناراضی بھی ہے۔
گناہ کبیرہ کسے کہتے ہیں: گناہ
کبیرہ اس گناہ کو کہتے ہیں جس سے بچنے پر خداوند قدوس نے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے۔
(کتاب الکبائر،ص 7) ویسے تو گناہ کبیرہ بہت سے ہیں جن کی
تعداد کے بارے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ جھوٹی گواہی دینا بھی ایک
کبیرہ گناہ ہے، آئیے اس کے متعلق مفید معلومات حاصل کرتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید
میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5،
النساء:29) ترجمہ کنز الايمان: اے ايمان والو! آپس ميں ايک دوسرے کے مال ناحق نہ
کھاؤ۔ اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا
چھین کر، چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے
یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔(احکام القرآن، 1/304)
ایک مرتبہ سرورِ
عالم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھنے کے بعد تین مرتبہ فرمایا: جھوٹی گواہی شرک کے برابر
ہے،پھر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا
الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ
لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- (پ 17، الحج: 30-31) ترجمہ کنز
الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس
کا ساجھی(شریک) کسی کو نہ کرو۔ (ابو داود، 3/427، حدیث: 3599) ایک حدیث پاک میں تین
مرتبہ ارشاد فرمایا: سن لو! تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں بتاتا ہوں۔ (1)شرک(2)والدین
کی نافرمانی اور (3)جھوٹی گواہی۔ (بخاری،4/95، حدیث: 5976)
جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی
یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔
جھوٹی گواہی کا حکم: جھوٹی گواہی
گناہ کبیرہ،حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
احادیث ِ مبارکہ میں جھوٹی گواہی کی مذمت:
1۔ حضرت ابوموسیٰ
رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور
اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی
دینے والا۔ (معجم اوسط، 3/156،، حدیث:4167)
2۔ نبی پاک ﷺ نے کبیرہ
گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا
اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے
گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا ہے۔
(بخاری، 4/95، حدیث:5977 (
3۔ جھوٹے
گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن
ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
4۔ جو
کسی مسلمان پر جھوٹی گواہی دیتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ (موسوعہ ابن
ابی الدنیا، 4/398، حدیث: 123)
5۔ جس
نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے،
اس نے (اپنے اوپر) جہنم (کا عذاب) واجب کر لیا۔ ( معجم کبیر، 11/172،
حدیث:11541)