دین اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے آپس کے حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت حاصل ہے اسی لیے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب اور معاشرتی آداب کے خلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا اور بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا چونکہ جھوٹی گواہی دینے سے بھی ایک شخص ایک گروہ کا حق ضائع ہوتا ہے اسی لئے جھوٹی گواہی دینے سے منع کیا گیا ہے آئیے اسی سلسلے میں احادیث مبارکہ عرض کرتی ہوں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو اسلام کے سوا کسی دین پر جھوٹی قسم کھائے تو وہ ایسا ہے جیسا کہے اور جو جھوٹا دعوی کرے تاکہ اس سے مال بڑھائے تو اللہ نہ بڑھائے مگر کمی۔ اس حدیث پاک کی شرح میں ہے: جو اپنا مال بڑھانے کے ليے لوگوں کے مال پر جھوٹے دعوی کرے اس کا مال ان شاء اللہ گھٹے گا برھے گا نہیں، کیونکہ حقیر عرض کے ليے اتنا بڑا گناہ کرتا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/ 211)

2۔ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے، پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا فرمایا جھو ٹی گواہی دینا ہے۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (

3۔ حضرت خریم بن فا تک اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار نامدار ﷺ نے نماز فجر ادا فرمائی، جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر تین مرتبہ ارشاد فرمایا: حھوٹی گواہی دینا اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے، پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- (پ 17، الحج: 30-31) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک) کسی کو نہ کرو۔ (ابو داود، 3/427،حدیث: 3599)

اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی سمیت دیگر تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔