جھوٹی گواہی کا مطلب ہے غلط گواہی دینا یعنی کہ حق
کے خلاف گواہی دینا اور یہی جھوٹی گواہی کا عام مطلب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ
الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ
کنز الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ
اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔
تفسیر: جس
بات کا علم نہیں اس بات کے پیچھے پڑنے سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اس کے
بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ
نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔
یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی
مذموم فعل ہے۔ یہاں اس سے متعلق چند احادیث پیش خدمت ہیں۔
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
2۔ جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر
الزام عائد کیا تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہے ہوئے
کہ مطابق سزا پالے۔ (ابو داود، 4/354، حدیث: 4883)
3۔ جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے
بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے جیسے ردغۃ الخبال (جہنمیوں کے
خون اور پیپ جمع ہونے کا مقام ) میں اس وقت تک رکھے گا جب تک اپنے الزام کے مطابق
عذاب نہ پائے۔ (مصنف عبدالرزاق، 11/ 425، حدیث: 20905)
افسوس فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام
سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں جس کا جو
دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگاتا ہے اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں
تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی بات کا مطلب
یہی تھا! اب کس نے بتایا؟ بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اس کو کہاں سے پتا چلا؟ اس کے
پاس کیا قابل قبول ثبوت ہے؟ اس بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی
معلوم نہیں۔ مذکورہ آیت اور احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز
عمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے۔