بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت محمد شاہد،جامعۃ المدینہ فیض مدینہ کراچی
کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر
گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے کہیں زیادہ برا ہے،ہمارے معاشرے
میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تہمت و بہتان بھی ہے۔
بہتان کی تعریف: کسی شخص
کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا، تہمت لگانا بہتان کہلاتا ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں
پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کا پیپ اور خون جمع
ہوگا) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔(ابو داود،3/427،حدیث:
3597)اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوا کہ بہتان لگانے والوں کو پیپ اور خون میں رکھا
جائے گا جب تک کہ وہ پوری سزا نہ پالے۔
2۔تم لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھو یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر
کروگے۔(بخاری،2/150، حدیث:2518)اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ناحق ایذا
اور تکلیف نہیں دینی چاہیے اگر ہم کسی پر بہتان لگائیں گے تو اس سے اسے تکلیف
پہنچے گی اور حدیث میں دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔
3۔سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟صحابہ کرام نے
عرض کی:اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا:مسلمان وہ ہے جس کی زبان
اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(مسند امام احمد،2/54،حدیث:4942) اس حدیث پاک
سے معلوم ہوا کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں وہ مسلمان ہے
یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنی زبان سے کسی پر جھوٹا الزام نہ لگائے نہ کسی کو تکلیف
پہنچائے۔
4۔بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔(ابو
داود،4،حدیث:427)کسی مسلمان کی نا حق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہ ہے مگر افسوس اب ایسا
دور آگیا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے پیچھے پڑا ہوا ہے بلا تکلف تہمت لگانا
تو ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔
5۔خاتم النبیین ﷺ نے کعبہ معظمہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:مومن کی حرمت تجھ
سے زیادہ ہے۔ (ابن ماجہ، 4/319، حدیث: 3932)اس حدیث پاک سے ہمیں مومن کی عزت و
حرمت معلوم ہوتی ہے کہ وہ کس قدر زیادہ ہے،ہم نے احادیث ملاحظہ کیں جن میں پیارے آقا
ﷺ نے بہتان کی مذمت، کسی پر تہمت لگانا اور مومن کی حرمت کے بارے میں بیان
فرمایا،ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بہتان تراشی سے بچیں اگر کسی پر بہتان باندھنے کو دل
چاہے تو فورا اپنے آپ کو یوں ڈرائیے کہ اگر میں کسی پر بہتان باندھوں تو جہنم کا
حقدار قرار پاؤں گا۔
بہتان کی مثالیں:بہتان کی
چند مثالیں ملاحظہ کیجیے مثلا کسی عورت پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگانا،کسی پر
چوری کا الزام لگانا،کسی پر بدسلوکی کا الزام لگانا وغیرہ۔
بہتان کے معاشرتی نقصانات:بہتان کے بہت سے معاشرتی نقصانات بھی
ہیں جیسا کہ اگر کسی پر بہتان و تہمت لگائی گئی ہوگی تو وہ دل برداشتہ ہو کر اپنی
جان بھی لے سکتا ہے،اگر کسی عورت پر تہمت لگائی گئی ہوگی تو معاشرے میں اس کی عزت
و وقار باقی نہیں رہے گا وغیرہ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تہمت و بہتان سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت منظور الہی،جامعۃ المدینہ فیض مدینہ کراچی
کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر
جھوٹ باندھنا، تہمت لگانا بہتان کہلاتا ہے۔ اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ
برائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے یا روبرو وہ برائی اس کی طرف منسوب کر دی
تو یہ بہتان ہوا،مثلا پیٹھ پیچھے یا منہ کے سامنے ریاکار کہہ دیا اور وہ ریا کار
نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو کیونکہ ریاکاری کا تعلق باطنی
امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریا کار نہیں کہیں گے،کیونکہ یہ بہتان ہے۔بہتان
تراشی غیبت سے زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ جھوٹ ہے اس لیے یہ ہر ایک پر گراں
گزرتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ بہتان تراشی کبیرہ گناہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں اس کی
شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک
اسے جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس
شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پا کر) نہ نکل جائے۔
2۔ جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس کو عیب زدہ کرے تو
اللہ اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات
ثابت کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا۔
3۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (دوزخیوں کے کیچڑ پیپ اور خون) میں رکھے گا جب تک کہ وہ
اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل جائے۔(ابو داود،3 / 427، حدیث: 3597)
جہنم کا عذاب ایک منٹ کے کروڑویں حصے میں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے لہٰذا
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے۔
معاشرتی نقصانات:سورۂ نور کی آیت نمبر 16 میں فرمایا
گیا ہے: وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ
اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا ﳓ (النور:16) ترجمہ: اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے سنا تھا تو کہہ
دیتے کہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ یہ بات کہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ جس کے سامنے کسی
مسلمان پر کوئی بہتان باندھا جا رہا ہو اور کسی مسلمان پر بہتان تراشی کر کے اسے
ذلیل کیا جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ خاموش نہ رہے بلکہ بہتان لگانے والوں کا رد
کرے اور انہیں اس سے منع کرے او ر جس مسلمان پر بہتان لگایا جا رہا ہو اس کی عزت
کا دفاع کرے۔افسوس ہمارے معاشرے میں لوگوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے
میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے سر و پا باتیں سنتے ہیں لیکن اکثر جگہ پر
خاموش رہتے ہیں اور بہتان تراشی کرنے والوں کو منع کرتے ہیں نہ ان کا رد کرتے ہیں
یہ طرز عمل اسلام کے احکام کے بر خلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ
ایسا طرز عمل اپنائے۔
اللہ پاک مسلمان کو عقل سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔آمین
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت منصور،جامعۃ المدینہ فیضان غزالی نیول کالونی کراچی
جھوٹ بولنا غیبت کرنا گناہ کبیرہ میں سے ہیں جن کے
حوالے سے صریح طور پر وعیدات وارد ہوئی ہیں یہ دونوں گناہ مذموم تو ہیں ہی مگر اس
سے انتہائی سخت اور بدتر گناہ بہتان تراشی ہے کیونکہ اس سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے،
اس لیے یہ ایک الگ کبیرہ گناہ میں شمار ہوتا ہے۔کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی
میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔(حدیقہ نديہ، 2/ 200) اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھئے
کہ بُرائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے یا رُوبَرو وہ برائی اس کی
طرف منسوب کردی تو یہ بُہتان ہوا، مثلاً پیچھے یا منہ کے
سامنے ریاکار کہہ دیا اور وہ ریاکار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس
کوئی ثبوت نہ ہو کیوں کہ ریاکاری کا تعلق باطنی امراض سے ہے لہٰذا اس
طرح کسی کو ریاکار کہنا بہتان ہوا۔ کسی مسلمان کو تہمت لگانی حرامِ قطعی
ہے خصوصاً مَعَاذَاﷲ اگر تہمتِ زنا ہو۔(فتاویٰ رضویہ،24/386) قرآن و حدیث میں اس کی نہ صرف مذمت بیان ہوئی بلکہ
کئی وعیدات بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہیں، چنانچہ
1۔ حضور ﷺنے گناہ کبیرہ کی فہرست بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ پاک
دامن مومن انجان عورتوں کو تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری،2/242،حدیث:2766)
2۔حضورﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مَناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ
کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل سے اُن کے بارے میں پوچھا
تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تُہمت لگانےوالے ہیں۔ (شرح الصدور، ص182)
3۔جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وَقت تک ردغۃ الخبال (دوزخیوں کے کیچڑ، پِیپ اور خون) میں رکھے گا جب تک کہ وہ
اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(سنن ابی داود،3/427،حدیث:3597)
4۔میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر
آئے گا لیکن اس نے فُلاں کوگالی دی ہو گی،فُلاں پر تہمت لگائی ہو گی،فُلاں کا مال
کھایا ہو گا،فُلاں کا خون بہایا ہو گا اورفُلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں
میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورے ہونے
سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر
اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم،ص1069،حدیث:6578)
5۔جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی
ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر
دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی
کہی ہوئی بات ثابت کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا۔(معجم
الاوسط، 6/327،حدیث:8936)
تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس گناہ سے باز رہنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ پاک سے اس سے
بچنے کی دعا کرتے رہیں اس کی صورتوں کے حوالے سے علم حاصل کریں اور مسلمان کا
احترام بجا لائیں،اور اگر یہ گناہ سرزد ہو چکا تو توبہ کے ساتھ اس سے معافی طلب کریں۔اللہ
پاک ہمیں اس گناہ سے بچائے۔ آمین
کسی شخص کی موجودگی یا غیرموجودگی میں اُس پر جھوٹ
باندھنا بُہتان کہلاتا ہے۔ (حدیقہ ندیہ،2/200) ہمارے مُعاشرے میں موجود برائیوں
میں سے ایک ناسور تُہمت وبہتان (جھوٹا اِلزام لگانا) بھی ہے۔ چوری، رشوت، جادو
ٹونے، بدکاری، خِیانت، قتل جیسے جھوٹے اِلزامات نے ہماری گھریلو، کاروباری، دفتری
زندگی کا سُکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
دشمنی، حسد، اپنا راستہ صاف کرنے، بدلہ لینے کیلئے
تُہمت و بہتان تراشی کرنے والے تو اِلزام لگانے کے بعد اپنی راہ لیتے ہیں لیکن جس
پر جھوٹا الزام لگا، اس کو بقیہ زندگی رُسوائی اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ویسے تو زِنا کے علاوہ کسی دوسرے عیب مثلاً چوری یا ڈاکہ یا قتل وغیرہ کا اپنی طرف
سے گھڑ کر الزام لگا دینا بھی بہتان ہے البتہ کسی عورت پر بدکاری کا جھوٹا الزام
لگانا زیادہ خطرناک ہے۔ لیکن بعض بے باک لوگ یہ بھی کر گزرتے ہیں اور اتنانہیں
سوچتے کہ اس عورت اور اس کے گھر والوں پر کیا گزرے گی۔
مختصر یہ کہ بہتان نہ صرف انسان کی انفرادی زندگی
کیلئے بلکہ معاشرتی اعتبار سے بھی بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہونے کا باعث ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں یہ سخت گناہ و حرام ہے اور اس کی مذمت میں بہت سی احادیث
مبارکہ وارد ہیں۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔جس نے کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو
اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر
دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ اس سے مراد یہ ہے
کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا۔(معجم الاوسط،6/ 327، حدیث: 8936)
2۔حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے استفسار
فرمایا:کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صَحابہ کرام نے عرض کی: ہم میں مفلِس(غریب)
وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری اُمّت میں
مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی
کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون
بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصّہ دے
دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم
ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا
جائے گا۔ (مسلم، ص 1029، حدیث: 2581)
3۔کبیرہ گناہوں کی فہرست بیان فرماتے ہوئے ارشاد
فرمایا: پاک دامن مومن بےخبر عورتوں کو تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری، 2/242-243،حدیث:2766)
4۔جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام
عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی
ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کرکے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ
نکل جائے۔ (ابو داؤد،4 / 354، حدیث: 4883)
5۔رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مَناظر
کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے
جبرئیل سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی
تُہمت لگانےوالے ہیں۔(شرح الصدور، ص182)
لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے
اور جس نے کسی پربہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن
کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جاکر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا
جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔
جس کے سامنے کسی مسلمان پر کوئی بہتان باندھا جارہا
ہو اور کسی مسلمان پر بہتان تراشی کر کے اسے ذلیل کیا جارہا ہو تو اسے چاہئے کہ
خاموش نہ رہے بلکہ بہتان لگانے والوں کا رَد کرے اور انہیں اس سے منع کرے اور جس
مسلمان پر بہتان لگایا جا رہاہے اس کی عزت کا دفاع کرے۔ افسوس! ہمارے معاشرے میں لوگوں
کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے
سرو پاباتیں سنتے ہیں لیکن اکثر جگہ پر خاموش رہتے ہیں اور بہتان تراشی کرنے
والوں کو منع کرتے ہیں، نہ ان کا رد کرتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل اسلامی احکام کے برخلاف
ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایساطرزِ عمل اپنائے۔
اللہ پاک ہمیں بہتان سے بچنے اور مسلمانوں کی عزت
کی حفاظت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت جاوید احمد،جامعۃ المدینہ فیضان ماریہ قبطیہ مورو
کسی شخص کی
موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔آسان لفظوں میں
یوں کہ برائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے غیر موجودگی یا سامنے وہ برائی اس
کی طرف منسوب کر دیں تو یہ بہتان ہوا مثلاً پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا
حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا۔
بہتان کا حکم: بہتان تراشی حرام گناہ کبیرہ
اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
قرآن پاک میں
بہتان پر بہت سی آیتیں نازل ہوئی، ارشاد ہوا: اِنَّمَا
یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو
اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔
بہتان پر احادیث مبارکہ:
1۔ جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو
اللہ پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔ (ابو داود،3 / 427، حدیث: 3597)ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہو گا۔ (بہار شریعت،جلد
2، حصہ: 9)
2۔ جس نے کسی
کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس شخص کو عیب دار کرے
اللہ پاک اسے جہنم میں قید کرے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کریں۔(معجم
الاوسط، 6/328حدیث:8936)
3۔جس مرد یا
عورت نے اپنی لونڈی کو اے زانیہ! کہہ کر پکارا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو قیامت
کے دن وہ لونڈی اسے کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں اس کے لئے کوئی حد نہیں۔(
مستدرک،5/528،حدیث: 8171)
بہتان تراشی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب:
لڑائی جھگڑا، غصہ، بغض و کینہ، حسد، زیادہ بولنے کی عادت اور بدگمانی۔
ہمیں بہتان
تراشی کے گناہ میں مبتلا ہونے والے اسباب پر نظر رکھ کر ان سے بچنے کی کوشش کرنی
چاہیے جیسے کہ بہتان اور اس کے علاوہ بہت سارے گناہ زیادہ تر زبان سے ہی ہوتے ہیں
لہٰذا اسے قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے قرآن و حدیث میں ذکر کئے گئے ہیں ان کے
ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجئے اور غور کیجیے کہ بہتان کے سبب اگر ہم پر کوئی عذاب
مسلط کردیا گیا تو کیا بنے گا۔
ار یب بن یامین (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
کنزالایمان کراچی پاکستان)
زبان اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے
اللہ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہے۔ مگر اس کی آفتیں کم نہیں ہیں۔ اس زبان کی آفتوں
میں سے ایک بڑی آفت بہتان کی آفت ہے جو انسان کو اللہ کے دردناک عذاب کا مستحق بناتا
ہے۔ ارشادِ باری ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ(۲۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو عیب
لگاتے ہیں انجان پارسا ایمان والیوں کو ان پر لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اُن
کے لیے بڑا عذاب ہے۔(پ18،النور:23)
اس کے ساتھ ساتھ انسان معاشرتی طور پر بھی برا بن جاتا ہے ۔
اس طرح کہ وہ سب کے نزدیک برا بن جاتا ہے ، سب اس سے دور رہتے ہیں اور اس کی بات
کا کوئی اعتبار بھی نہیں کرتا۔ اس کی مذمت پر 5فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم درج ذیل ہیں:
(1) بہتان کیا ہے ؟ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمھیں معلوم ہے غیبت
کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کی، اللہ و رسول (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) خوب جانتے
ہیں ۔ ارشاد فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا اس چیز کے ساتھ ذکر کرے جو
اسے بری لگے۔ کسی نے عرض کی، اگر میرے بھائی میں وہ موجود ہو جو میں کہتا ہوں (جب
تو غیبت نہیں ہوگی)۔ فرمایا: جو کچھ تم کہتے ہو، اگر اس میں موجود ہے جب ہی تو غیبت
ہے اور جب تم ایسی بات کہو جو اس میں ہو نہیں، یہ بہتان ہے۔(بہارِ شریعت،3/529)
(2) بہتان کا عذاب: نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا : جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو
اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ ،پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی
ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔ (غیبت کی تباہ کاریاں، ص295) (3) غلام پر تہمت کا وبال : حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس نے اپنے مَملُوک (غلام یا لونڈی) پر زنا کی
تُہمت لگائی اگر وہ حقیقت میں ایسا نہ ہو جیسا اس نے کہا تو بروزِ قیامت اسے
حدِّقَذف لگائی جائے گی۔(76 کبیرہ گناہ،ص83)
(4) گناہ کے الزام کا عذاب: حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ
لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا ۔میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ
لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (غیبت کی تباہ کاریاں،ص 295) (5) ہلاک کرنے والا گناہ : سات
ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ یہ کہہ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان
میں بھولی بھالی پاکدامن مسلمان عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے کا بھی ذکر فرمایا۔(76
کبیرہ گناہ،ص82)
بہتان کی آفت جس
میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ملوث ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس کا علم نہ ہونا اور
نہ ہی اس سے بچنے کا احساس ہے۔ اللہ ہمیں بہتان کی آفت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد زوہیب حسن بن خلیل احمد(درجہ ثالثہ (جامعۃُ
المدينہ ڈگری، پاکستان)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! بہتان ایک قبیح فعل ہے۔ کسی
مسلمان پر بہتان باندھنا سخت قابلِ نفر ت عمل ہے۔ قراٰنِ مجید اور احادیث مبارکہ
میں بہتان کے متعلق سخت وعیدیں آئی ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی
الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی
باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105)
حدیث مبارکہ ہے جھوٹے الزامات لگانے والوں کا انجام: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ
کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے
بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے
والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)
بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ
باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/200) تعریف کی وضاحت اور مثال: اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھئے
کہ بُرائی نہ ہونے کے باوُجُود اگر پیٹھ پیچھے یا رُوبَرو وہ برائی اُس کی طرف
منسوب کردی تو یہ بُہتان ہوا مثلاً پیچھے یا منہ کے سامنے ریا کار کہہ دیا اور وہ
ریا کار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کو ئی ثُبُوت نہ ہو کیوں کہ ریا کاری کا
تعلُّق باطِنی امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریاکار کہنا بہتان ہوا۔ (فرض عُلوم
سیکھئے، ص698)
بہتان کا حکم : بہتان تراشی حرام ، گناہِ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا
کام ہے۔ (فرض علوم سیکھتے ، صفحہ 698) اعلی حضرت مولانا شاہ امام احمدرضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: کسی مسلمان کو
تہمت لگانی (بہتان باندھنا) حرامِ قطعی ہے۔ (فتاوی رضویہ ، 24/ 386)
بہتان کی مذمت پر 5
احادیث:(1) بہتان باندھنے والے کو جہنم کے ایک مقام رَدْغَۃُ
الْخَبَال میں رکھا جائے گا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں
پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وَقْت تک رَدْغَۃُ الْخَبَال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے
۔(ابوداؤد،3/428 ، حدیث:3597) رَدْغَۃُ الْخَبَال جہنّم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پِیپ جمع ہو
گا ۔(بہارِ شریعت ، 2/ 364)
(2) جھوٹے گواہ لگانے والے پر جہنم واجب : ہمارے پیارے آقا مکی
مدنی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد کے مایا: جھوٹے گواہ کے
قدم ہٹنے نہ پائے گے کہ اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ ( ابن ماجہ، 3/123،
حدیث: 2373 )(3) بہتان
لگانے والے کو جہنم کے پُل پر روک لیا جائے گا: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد
کرے (بہتان باندھے) تو اللہ پاک جہنم کے پُل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے
کہنے کے مطابق عذاب پائے۔ (ابوداؤد، جلد 4، حديث: 4883)
(4) بہتان باندھنے والا جہنم میں قید: فرمانِ آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ
اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ رب العزت اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں
تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب
میں مبتلا رہے گا) (معجم الأوسط، 6/ 327، حدیث: 8936)
(5) کسی دوسرے پر جان بوجھ کر بہتان نہ باندھو: حضرت عبادہ بن
صامت رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے اور وہ لیلۃ العقبہ کے نقیب بنائے
گئے تھے۔ یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسے
وقت ارشاد فرمایا جب کہ آپ کے گر دصحابہ کی ایک جماعت تھی کہ ان باتوں پر مجھ سے
بیعت کروں کہ اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروگے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ
کرو گے، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کرو گے، خود جان بوجھ کر کے کسی دوسرے پر بہتان
نہ باندھو گے، اچھی بات میں نافرمانی نہ کروگے، جس نے اس کو پورا کیا اس کا ثواب
اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے اور جو ان گناہوں میں کسی کا ارتکاب کر بیٹھے اور اس کو
دنیا میں سزا دی جائے تو یہ اس کیلئے کفارہ اور پاک کرنے والی ہے اور جو ان گناہوں
میں سے کچھ کرے اور الله پاک اس گناہ کو چھپائے رکھے تو یہ الله کے سپرد ہے چاہے
اس کو معاف فرمادے چاہے تو آخرت میں سزا دے، تو ہم نے ان سب باتوں پر حضورِ اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بیعت کی۔ (صحیح بخاری شریف ، 1/7)
بہتان سے بچنے کا
درس: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بہتان و تہمت کے کثیر دنیوی و
اخروی نقصانات ہیں۔ افسوس ! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا، بہتان و تہمت لگانا ایک
معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور بہتان و تہمت لگانا، الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام
ہے کہ کوئی حد ہی نہیں جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا ہے اور
جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے۔ یاد رہے کہ بہتان و تہمت لگانا، جھوٹی گواہی دینا اور کسی
پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم اور قبیح فعل ہے۔
جان لو ! برے کام ہر حالت میں اور ہمیشہ ہی برے ہیں۔ اس سے
پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے بہتان و تہمت سے توبہ کر لیجئے۔ بہارِ شریعت حصہ 16
صفحہ 538 پر ہے: بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن
کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا
تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔ (بہارِ شریعت ،3/ 538)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! قراٰن و احادیث سے واضح ہوا کسی
پر بہتان و تہمت لگانا حرام فعل ہے اور اسلامی تعلیمات کا لبِّ لُباب ہے کہ دوسروں
کو بلا وجہ تکلیف نہ دو۔ اللہ پاک ہمیں دوسروں پر بہتان و تہمت لگانے ، چھوٹی گواہی
اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم۔
محمد مدثر رضوی عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروقِ اعظم سادھو کی لاہور پاکستان)
اللہ پاک نے انسان پیدا کیا کہ وہ نیکی کرے اور گناہوں سے بچے۔
مگر انسان آج گناہوں کے سوا کوئی کام نہیں کرتا۔ انہی گناہوں میں سے جھوٹ، غیبت، بخل،
چغلی، حسد، تکبر ، وعدہ خلافی، بہتان تراشی وغیرہ
الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: لَوْ لَاۤ اِذْ
سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ
خَیْرًاۙ-وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایسا کیوں
نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بہتان سنا تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اپنے لوگوں پر نیک
گمان کرتے اور کہتے: یہ کھلا بہتان ہے۔(پ18،النور:12)
فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرمائیے
:۔
(1) حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسولِ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی
غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا
جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی
مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)
(2) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس
کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ
اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ
عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)
( 3) نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں
پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وَقْت تک رَدْغَۃُ الْخَبَال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے
۔(ابوداؤد،3/428 ، حدیث:3597) رَدْغَۃُ الْخَبَال جہنّم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پِیپ جمع ہو
گا ۔(بہارِ شریعت ، 2/ 364)
(4) روایت ہے حضرت
علی رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
کہ تم میں حضرت عیسیٰ کی مثال ہے جن سے یہود نے بغض رکھا حتی کہ ان کی ماں کو تہمت
لگائی اور ان سے عیسائیوں نے محبت کی حتی کہ انہیں اس درجہ میں پہنچا دیا جو ان کا
نہ تھا پھر فرمایا میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے محبت میں افراط کرنے
والے مجھے ان صفات سے بڑھائیں گے جو مجھ میں نہیں ہیں اور بغض کرنے والے جن کا بغض
اس پر ابھارے گا مجھے بہتان لگائیں گے ۔ (احمد)
اللہ پاک سے دعا ہیں کہ وہ ہمیں بہتان سے بچنے کی توفیق عطا فر مائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عطاء المصطفى صديق (درجہ دورة الحدیث مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضان مدینہ فیصل آباد پاکستان)
محترم اسلامی بھائیو! بہتان ایک
کبیرہ گناہ ہے۔ جس کی مذمت اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں بیان کی۔ ترجَمۂ
کنزُالایمان: وہ لوگ جو ایماندار مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تکلیف دیتے
ہیں بے شک انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے ذمے لے لیا۔(پ27،الاحزاب:58) بہتان کی
مذمت بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں ۔ (مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے)
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم بہتان جیسے گناہ سے بچیں۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ بہتان کسے کہتے ہیں؟ بہتان
یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص پر کوئی ایسی بات کہے جو اس میں نہ ہو تو یہ بہتان کہلاتا
ہے۔ مثال: ایک شخص دوسرے شخص کے بارے میں یہ کہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے۔ حالانکہ وہ
جھوٹ نہ بولتا ہو تو اس پہلے شخص نے دوسرے پر بہتان باندھا ہے۔
احادیث طیبہ میں مذمت
(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہم
الرضوان سے استفسار فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام علیہم
الرضوان نے عرض کی: ہم میں مفلس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور
نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ
اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی ہو گی، فلاں پر تہمت لگائی ہو
گی، فلاں کا مال کھایا ہو گا، فلاں کا خون بہایا ہو گا اور فلاں کو مارا ہو گا۔ پس
اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے
حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے
جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، ص1069، حدیث:6578)
(2) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: جس نے اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے
اللہ کی مخالفت کی اور جو جانتے ہوئے کسی باطل امر میں جھگڑے تو وہ اللہ کی ناراضگی
میں رہے گا یہاں تک کے اس جھگڑے سے دستبردار ہو جائے اور جس نے کسی مؤمن کے بارے
میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہ ہو یعنی (بہتان لگایا) اللہ اس کا ٹھکانہ
جہنمیوں میں بنائے گا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے توبہ کر لے (ابوداؤد
شریف )
(3) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ آپ فرماتے ہیں: بے
گناہ لوگوں پر الزام لگانا (بہتان باندھنا) آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے۔
(کنزالعمال) (4) حضرت
معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد
کرے(یعنی بہتان لگائے) تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ
اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع نہ کرلے۔( ابو داؤد)
(5) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں نہ تھی (یعنی بہتان باندھا) تو اللہ
پاک اسے دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آجائے۔ (مسند
احمد بن حنبل)
الغرض مسلمانوں پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات
لگانے پر بہت سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں اور اسے گناہِ کبیرہ کہا گیا ہے۔ تو ہمیں
اس عمل سے بچتے رہنا چاہیے اور اگر زندگی میں کسی پر بہتان باندھا ہے۔تو اس سے
معافی مانگنی چاہیے تاکہ آخرت میں ہم عذاب سے محفوظ رہ سکیں۔ اللہ پاک عمل کی
توفیق عطا فر مائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ظہیر احمد ( درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ صحابہ
و اہلبیت پاکپتن شریف، پاکستان)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں! بہتان ایک برا فعل ہے یہ گناہِ
کبیرہ ہے اور اس کو ہم عام سی چیز سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنا کیا ہوا کام
لوگوں کے سر پر تھوپ دیتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں فساد اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ بہتان کی تعریف : کسی بے
قصور شخص پر اپنی طرف سے گھڑ کر کسی عیب کا الزام لگانا بہتان کہلاتا ہے۔ جو سخت
حرام اور گناہِ کبیرہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ
پاک میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حکم فرمایا کہ مسلمان عورتوں سے چند باتوں کی بیعت لیں۔ انہی
باتوں میں یہ بھی ہے کہ وہ بہتان نہ لگائیں۔ زنا کے علاوہ کسی دوسرے عیب مثلاً کسی
پر چوری، ڈاکہ اور قتل وغیرہ کا اپنی طرف سے گھڑ کر الزام لگا دینا یہ بھی بہتان
ہے۔ جو گناہِ کبیرہ ہے۔ لہذا ہر طرح کے بہتانوں سے بچنا ضروری ہے۔ چنانچہ الله پاک
قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی خطا یا
گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔(پ5،
النسآء:112)
احادیث میں بھی بہتان کی مذمت آئی ہے۔ چنانچہ 5 احادیث
ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث نمبر (1) حضرت ابو
درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں
تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک
کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے
تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)
حدیث نمبر (2) امی امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ
نے فرمایا کہ کسی بے قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ
ہے۔(کنز العمال،کتاب الاخلاق،باب البہتان،3/322،حدیث:8806)حدیث نمبر (3) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،سرکارِ
دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ
مسلمان کون ہے؟صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ پاک اور اس کا رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی
زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا:تم جانتے ہو کہ مؤمن
کون ہے؟ صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ پاک اور اس کا رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم زیادہ جانتے ہیں ۔ارشاد فرمایا: مؤمن وہ ہے جس سے ایمان والے
اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں اور مہاجر وہ ہے جو گناہ کو چھوڑ دے اور اس
سے بچے۔( مسند امام احمد ، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما ، 2 / 654، حدیث: 6942)
حدیث نمبر(4) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی پاک دامن عورت پر زنا کا بہتان لگانا ایک سو
برس کے اعمالِ صالح کو غارت اور برباد کر دیتا ہے۔(کنزا لعمال، 3/ 322)حدیث نمبر(5) حضرت عمرو بن
العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا
سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان
کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)
ارباب علی عطّاری (درجہ دورۃ الحدیث جامعۃُ المدینہ
عالمی مرکز فیضان مدینہ کراچی ، پاکستان)
( 1) حضرت ابو
درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں
تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک
کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے
تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)
( 2 ) حضرت عمرو
بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا
سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان
کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)
(3)جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد
کیا تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب
پا لے۔(ابو داؤد،4/354، حدیث: 4883)(4)عن علی قال : البھتان علی البراء اثقل من السموات ترجمہ : حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے فرمایا کسی بے
قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ ہے۔ (کنزالعمال، 3/322، حدیث:8806 )(5) أتدرون ما الغيبة؟ ذكرك أخاك بما يكره، إن كان فيه ما
تقول فقد اغتبته، وإن لم يكن فيه فقد بهته. عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ ترجمہ: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ تمہارا بھائی
کا ایسی بات سے ذکر کرنا جو اسے ناپسند ہو ، اگر وہ برائی اس میں ہوا اور پھر تم
اس کا تذکرہ کرو تم نے اس کی غیبت کی ، اور اگر وہ برائی اس میں نہ ہو تو تم نے اس
پر بہتان لگایا ۔ (کنزالعمال ، حدیث: 2906 )
اللہ پاک ہمیں جھوٹی
گواہی اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اعضا کو اللہ پاک اور اس کے
پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِطاعت اور رضا و خوشنودی والے کاموں
میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ افنان عطاری (درجہ خامسہ، جامعۃُ المدینہ فیضانِ
بخاری لیاری، پاکستان)
بہتان کی تعریف: کسی شخص پر ایسی بات گھڑنا جو اس میں نہ ہو
بہتان کہلاتا ہے۔
افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا
جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل
کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو
یہ دلیل کہ طور پر کہتا ہے میں نے کہیں سُنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی
بات کا مطلب ہی یہی تھا، اب کس نے بتایا؟ بتانے والا کتنا مُعْتَبَر تھا؟ اُس کو
کہاں سے پتا چلا؟ اُس کے پاس کیا قابلِ قبول ثبوت ہیں؟ اُس نے بات کرنے والے کے دل
کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی معلوم نہیں۔ زیرِ آیت تفسیر اور بیان کردہ احادیث کو
سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز ِعمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے۔ارشاد
باری ہے : وَ مَنْ یَّكْسِبْ
خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ
بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی خطا یا
گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔(پ5،
النسآء:112)تفسیر صراط الجنان:
اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی بے گناہ پر الزام لگایا تو اس نے
بہتان اور بہت بڑے گناہ کا بوجھ اٹھایا۔ آیت میں گناہ سے مراد گناہِ کبیرہ اور
خطا سے مراد گناہِ صغیرہ ۔
بے گناہ پر تہمت
لگانے کی مذمت: اس آیت سے معلوم
ہو ا کہ بے گناہ کو تہمت لگانا سخت جرم ہے وہ بے گناہ خواہ مسلمان ہو یا کافر کیونکہ
طعمہ نے یہودی کافر کو بہتان لگایا تھا اس پر اللہ پاک نے ا س کی مذمت فرمائی
۔احادیث میں بھی بے گناہ پر تہمت لگانے کی وعیدیں بیان کی گئی ہیں ۔
بہتان کی مذمت کے متعلق قراٰن و احادیث میں کئی وعیدیں وارد
ہوئی ہیں جسے انسان پڑھے تو اس کی عقل دنگ رہ جائے کہ اتنی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
ہم ذیل میں 5 احادیث کو ذکر کرتے ہیں:
(1) نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ
قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ، أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ
حَتّٰى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ یعنی جس نے کسی مؤمن
کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں تھی تو ﷲ پاک اسے جہنمیوں کے پیپ
اور خون کے جمع ہونے کے مقام میں ڈالے گا یہاں تک کہ وہ اپنی بات سے باز آ جائے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الأقضية، باب فیمن يُعين على خصومة من غير أن يعلم أمرها، حدیث:
3597)(2) حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کو بیان کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام
سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا: هؤلاء الذين
يرمون المؤمنين والمؤمنات بغير ما اكتسبوا“ یعنی یہ
لوگوں پر بِلاوجہ بہتان لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص 184)
(3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لَنْ
تَزُوْلَ قَدَمَا شَاهِدِ الزُّوْرِ حَتَّى يُوْجِبَ اللّٰه لَهُ النَّارَ یعنی جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک
اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابنِ ماجہ، باب شھادة الزور، حدیث: 2373)(4) بہتان میں سب سے سخت ترین
عورت پر زنا کی تہمت لگانا ہے چنانچہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ قَذْفَ الْمُحْصَنَةِ یَھْدِمُ
عَمَلَ مِائَةِ سَنَة یعنی کسی پاک دامن عورت پر
زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، حدیث: 3023)
(5) نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ
رَمَىٰ مُسْلِمًا بِشَيْءٍ يُرِيْدُ شَيْنُهُ بِهٖ حَبسَهُ إللّٰهُ عَلٰى جَسرِ
جَهنَّمَ حَتّٰى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ یعنی جو
کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے
پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (اس شخص کو راضی کر کے یا
اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔
الغرض مسلمان پر
بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے
اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے۔
تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔