کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو جس کا وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو، اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا غیبت ہے اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے اور بہتان تراشی غیبت سے زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ جھوٹ ہے، اس لئے کہ یہ ہر ایک پر گراں گزرتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ بہتان تراشی کبیرہ گناہ ہے اور حدیث پاک میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)

حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔

بہتان تراشی کرنے والوں کا رَد کرنا چاہئے: فرمایا گیا کہ’’ اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے سنا تھا تو تم کہہ دیتے کہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ یہ بات کہیں ‘‘اس سے معلوم ہوا کہ جس کے سامنے کسی مسلمان پر کوئی بہتان باندھا جا رہا ہو اور کسی مسلمان پر بہتان تراشی کر کے اسے ذلیل کیا جا رہا ہو تو اسے چاہئے کہ خاموش نہ رہے بلکہ بہتان لگانے والوں کا رَد کرے اور انہیں اس سے منع کرے اور جس مسلمان پر بہتان لگایا جا رہا ہے اس کی عزت کا دفاع کرے۔ افسوس! ہمارے معاشرے میں لوگوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے سرو پا باتیں سنتے ہیں لیکن اکثر جگہ پر خاموش رہتے ہیں اور بہتان تراشی کرنے والوں کو منع کرتے ہیں نہ ان کا رد کرتے ہیں ۔ یہ طرزِ عمل اسلامی احکام کے برخلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایسا طرزِ عمل اپنائے۔ اللہ پاک مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ترغیب کے لئے یہاں ایک حدیث پاک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جہاں کسی مسلمان مرد کی بے حرمتی اور بے عزتی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اُس کی مدد نہ کی (یعنی یہ خاموش سنتا رہا اور اُن کو منع نہ کیا) تو اللہ پاک وہاں اس کی مدد نہیں کرے گا جہاں اسے پسند ہو کہ اس کی مدد کی جائے اور جو شخص ایسے موقع پر کسی مسلمان مرد کی مدد کرے گا جہاں اُس کی بے حرمتی اور بے عزتی کی جارہی ہو، تو اللہ پاک ایسے موقع پراس کی مدد فرمائے گا جہاں اسے محبوب ہے کہ مدد کی جائے۔ ( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4 / 355، حدیث: 4884)


ایذائے مسلم حرام ہے۔ مسلمان کو ایذا دینے کے طریقے میں سے ایک بہتان بھی ہے۔

بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ ( غیبت کی تباہ کاریاں، ص 294) مثلاً پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا

اس کی مذمّت قراٰنِ مجید میں بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105) احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمّت بیان کی گئی ہے ۔چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:۔

حدیث (1)حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ،4/354، حدیث: 4883)حدیث (2) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

حدیث (3) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)حدیث (4) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ سب نے عرض کیا: الله رسول ہی خوب جانیں۔ فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا ناپسندیدہ ذکر کرنا۔ عرض کیا گیا فرمایئے تو اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جو میں کہتا ہوں۔ فرمایا :اگر اس میں وہ ہو جو کہتا ہے تو تونے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ نہ ہو جو تو کہتا ہے تو تونے اسے بہتان لگایا اور ایک روایت میں ہے کہ جب تو اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہے تو تونے اس کی غیبت کی اور اگر تو وہ کہے جو اس نے نہ کیا ہو تو تونے اسے بہتان لگایا۔ ( مشکوہ المصابیح کتاب الآداب باب حفظ اللسان الفصل الاول ،حدیث: 4613)

اللہ پاک ہمیں بہتان تراشی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


زبان کا درست استعمال بندے کو جنت میں جبکہ غلط استعمال جہنم میں پہنچا سکتا ہے۔ زبان کے غلط استعمال میں سے ایک طریقہ بہتان باندھنا بھی ہے۔

بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ ( غیبت کی تباہ کاریاں ،ص 294) مثلاً پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا۔ اس کی مذمّت قراٰنِ مجید میں بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105)

احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمّت بیان کی گئی ہے پانچ احادیث ملاحظہ فرمائیں:۔

حدیث (1)روایت ہے عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حالانکہ آپ کے آس پاس صحابہ کی جماعت تھی کہ مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، نہ چوری کرنا اور نہ زنا، نہ اپنی اولاد کو قتل کرنا، نہ اپنے سامنے گھڑا ہوا بہتان لگانا اور کسی اچھی بات میں نافرمانی نہ کرنا تم میں سے جو وفائے عہد کرے گا اس کا ثواب الله کے ذمہ کرم پر ہے اور جوان میں سے کچھ کر بیٹھے اور دنیا میں سزا پالے تو وہ سزا کفارہ ہے اور جو ان میں سے کچھ کرلے، پھر رب اُس کی پردہ پوشی کرے تو وہ الله کے سپرد ہے۔ اگر چاہے معافی دے دے چاہے سزا دے لہذا ہم نے اس پر آپ سے بیعت کی۔( مشکوٰۃ، کتاب الایمان، حدیث 18)

حدیث (2)حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام،6/327، حدیث: 8936)حدیث (3) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)

حدیث (4) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ سب نے عرض کیا: الله رسول ہی خوب جانیں۔ فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا ناپسندیدہ ذکر کرنا۔ عرض کیا گیا فرمایئے تو اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جو میں کہتا ہوں۔ فرمایا :اگر اس میں وہ ہو جو کہتا ہے تو تونے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ نہ ہو جو تو کہتا ہے تو تونے اسے بہتان لگایا اور ایک روایت میں ہے کہ جب تو اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہے تو تونے اس کی غیبت کی اور اگر تو وہ کہے جو اس نے نہ کیا ہو تو تونے اسے بہتان لگایا۔ ( مشکوہ المصابیح کتاب الآداب باب حفظ اللسان الفصل الاول ،حدیث: 4613)

حدیث (5)روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے پوچھا حضور وہ کیا ہیں ؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ جادو ،اور ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی، اور سود خوری، یتیم کا مال کھانا ،جہاد کے دن پیٹھ دکھا دینا ،پاکدامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا۔ (مشکوٰۃ، کتاب الایمان، حدیث: 52)

اللہ پاک ہمیں بہتان تراشی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص294) آج کل معاشرے میں ہر طرف جھوٹ کا سیلاب بہہ رہا ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی کی کامیابی سے حسد، بغض و کینہ رکھے ہوئے ہیں اور اسے بدنام، ناکام و برباد کرنے پر اڑا ہوا ہے جس کی وجہ بندہ کسی ایسے موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ کسی پر بہتان لگا کر اسے نامراد کر دے۔ جبکہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جھوٹا الزام لگانے والوں کی شدید مذمّت فرمائی ہے۔ بہتان کی مذمت کے متعلق فرمانِ باری ہے: وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔(پ5، النسآء:112) احادیثِ مبارکہ میں بہتان کی مذمت پر مشتمل 5 فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل ہیں :

(1) تہمت لگانا مثلِ قتل : فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے کسی پر تہمت لگائی، گویا اس کا قتل کیا۔ (صحیح البخاری، حدیث:6047)(2) مفلس و کنگال ہے : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص مفلس ہے جو قیامت کے دن نماز، روزوں اور زکوٰة کے ساتھ آئے اور اس حال میں ہو کہ کسی کو گالی دی ہو، اسے تہمت لگائی ہو، اس کا مال کھایا ہو، اس کا خون بہایا ہو، اس کو مارا ہو تو اس کی نیکیوں میں سے کچھ کسی مظلوم اور کچھ کسی مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں حقوق ادا کرنے سے پہلے ختم ہو گئیں تو مظلوم کی خطائیں ظالم پر ڈال دی جائیں گی اور ظالم کو آگ میں پھینک دیا جائے گا۔( صحیح مسلم، حدیث:6579)

(3) پل صراط پر روک دیا جائے گا: فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے کسی مسلمان کو تہمت لگائی اور اس تہمت سے اس کا ارادہ اسے ذلیل کرنا ہو تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داؤد، حدیث: 4883)(4) کوئی کفارہ نہیں : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:پانچ گناہ ایسے ہیں کہ ان کا کوئی کفارہ نہیں ہے، اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنا، ناحق جان کو قتل کرنا، مؤمن پر تہمت لگانا، لڑائی والے دن بھاگ جانا اور جھوٹی قسم، جس کے ذریعے وہ ناحق مال حاصل کرتا ہے۔ (مسند احمد، حدیث: 5010)

(5) ردغة الخبال ٹھکانا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کوئی کسی مؤمن کے بارے میں ایسی (بری) بات کہے جو اس میں نہ ہو تو اللہ پاک اسے ردغة الخبال میں رکھے گا۔(مشکاة المصابیح، حدیث:3611)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ردغۃ الخبال کا معنی کچا پیپ ہے۔ جسے اردو میں کچ لہو کہتے ہیں۔ اس سے مراد دوزخ کا وہ مقام ہے جہاں دوزخیوں کا پیپ و خون جمع ہوتا ہے۔(مراة المناجیح، ج:5، تحت الحدیث:3611)

ان مذمتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر اس شخص کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو کسی نہ کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش میں تہمتیں لگاتے ہیں۔ بعض بہتان ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر تحقیق و تصدیق کے لگادیے جاتے ہیں اور حقیقت معلوم ہونے کے بعد شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً گھر میں چوری ہو جائے یا کسی بھی قسم کا کوئی نقصان ہو جائے تو بلا ثبوت کسی کو بھی صرف شک کی بنیاد پر مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے، بالخصوص ملازم طبقہ کو، لیکن جب حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جس پر بلا تحقیق الزام لگایا اور اسے رسوا کیا وہ بے گناہ ہے تو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ یہ شرمندگی اور معافیاں اس مظلوم پر لگا بہتان کا داغ صاف نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے اولاً تو جانتے بوجھ کر کسی کو رسوا کرنے کے لیے بہتان ہرگز نہ لگایا جائے اور اگر کسی معاملے میں کسی پر شک ہو بھی تو الزام نہیں لگانا چاہیے جب تک کہ پختہ ثبوت حاصل نہ ہو جائے، ورنہ الزام بہتان کی صورت اختیار کر گیا تو دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت کا عذاب الگ۔

اللہ پاک ہمیں بہتان، غیبت، چغلی اور ہر طرح کے باطنی مرض سے شفا عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


یاد رکھئے! ہر وقت، ہر حال، ہر لمحے، ہر لہجہ، ہر لفظ، ہر کلمے، ہر سوچ، ہر تصور اور ہر خیال الغرض ہر صورت میں زبان کی حفاظت بے حد ضروری ہے۔ چونکہ بے کنٹرول زبان سے ادا ہونے والا ہر شب نہ جانے کیا سے کیا کر ڈالتا ہے، ایسے گہرے زخم چھوڑتا ہے جو لا علاج ہو جاتے ہیں، جن کا بھرنا ناممکن و محال ہو جاتا ہے ، تیر کے زخم بھر جاتے ہیں، تلوار کے زخم کی مرہم مل جاتی ہے، چھری چاقو کے گھاؤ پر پٹی باندھی جاتی ہے لیکن جو زبان کا زخم ہے نہ اس کی دوا ہے اور نہ ہی مرہم ، زبان کی اذیت زیادہ دینا تیر کے ذریعے اذیت دینا زیادہ سخت ہے۔ مشہور تابعی بزرگ حضرتِ سیدنا سفیان ثَوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:لوگوں کا تیرپھینکنا زَبان کے ذریعے اذیّت پہنچانے سے زیادہ آسان ہے کیونکہ کمان کا تیر خطا ہو سکتا ہے لیکن زَبان کا تیر کبھی خطا نہیں ہوتا۔(تنبیہ المغترین، ص189) عربی مقولہ ہے: جَرْحُ الْکَلَامِ اَصْعَبُ مِنْ جَرْحِ الْحُسَامِ۔ یعنی زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ سخت ہو تا ہے۔ (المستطرف، 1/47) بعض لوگوں کی عادتِ قبیحہ و خبیثہ ہوتی ہے کہ بات بات پر لڑتے، جھگڑتے، غیبت کرتے اور سب بڑا گھناؤنا اور غیبت سے دگنا گناہِ کبیرہ کسی مسلمان پر زبان کے ذریعے بہتان تراشی کر کے کئی مسلمانوں کو زبان کے ذریعے اذیت و تکلیف پہنچانے کا باعث بنتے ہیں، اسلام نے یہاں تک تعلیمات دی ہیں کہ زبان کا زخم سِنَان یعنی بھالے کے زخم سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کہ یہ مرہم سے بھر جاتا ہے مگر وہ نہیں بھرتا ۔ شیرِ خدا حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:

جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَہَا الْتِیَام وَلَا یَلْتَامُ مَا جَرَحَ اللِّسَان

کسی اردو شاعر نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:

چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا لگا جو زخم زبان کا رہا ہمیشہ ہرا

ہمارے معاشرے کی تباہ کاریوں کا حصہ بننے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ بے قصور مسلمان پر چوری، رشوت، جادو، ٹونے، بدکاری، بد دیانتی، خیانت، قتل و غارت، بہتان تراشی جیسے کبیرہ گناہوں کا بند باندھ کر اس کی گھریلو، کاروباری، معاملاتی، تجارتی، و دفتری و مزدوری زندگی کا اطمینان تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔

آئیے اسلام کی روشنی میں بہتان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بہتان :۔ جھوٹ موٹ اپنی طرف سے گڑھ کر کسی پر کوئی الزام یا عیب لگانا اس کو افتراء ، تہمت اور بہتان کہتے ہیں۔ یہ بہت خبیث اور ذلیل عادت ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ (جنتی زیور، ص 121)سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر تم کسی ایسے عیب کو اس کی طرف منسوب کرو جو اس میں نہ ہو تو بے شک تم نے اس پر بہتان لگا دیا۔(ترمذی،3/375،حدیث: 1941) بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرمائیں:

(1) ردغۃ الخبال ٹھکانہ : نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ (ابوداؤد،3/427، حدیث: 3597)(2) سو سال کی نیکیاں برباد: سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023) فیض القدیر میں ہے: یعنی اگر بالفرض وہ شخص سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بُہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کردے گا۔ (فیض القدیر،2/601،تحت الحدیث: 2340)

(3) مسلمان کی برائی کرنے کا وبال: فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ ،پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(سنن ابوداود، ج3، ص427، حدیث:3597)

(4)امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خوفِ خدا: ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہُ عنہ سے فرمایا: میں نے رات پارہ 22، سورہ احزاب کی اس آیت(58):( وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا ۔)کو پڑھا تومیں اس کی وجہ سے بہت ڈر گیا کیونکہ خدا کی قسم! میں مسلمانوں کو مارتا ہوں اور انہیں جھڑکتا ہوں ، حضرت اُبی رضی اللہُ عنہ نے ان سے عرض کی :اے امیر المؤمنین! رضی اللہُ عنہ، آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں ، آپ تو محض معلم اور نظام کو قائم کرنے والے ہیں ۔( تفسیر قرطبی، الاحزاب، تحت الآیۃ: 58،7 /178، الجزء الرابع عشر)

(5)تہمت کی سزا : تمام نبیوں کے سردار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: ہم میں مفلس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی ہو گی، فلاں پر تہمت لگائی ہو گی، فلاں کا مال کھایا ہو گا، فلاں کا خون بہایا ہو گا اور فلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، ص1069، حدیث:6578)

توبہ کرلیجئے : اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت و بہتان سے توبہ کر لیجئے۔ بہارِ شریعت حصّہ 16صَفْحَہ 538 پر ہے: بُہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور مُعافی مانگنا ضَروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضَروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فُلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔ (بہارِ شریعت،3/538)


یاد رہے کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو جس کا وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو۔ اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا غیبت ہے۔ اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے۔ اور بہتان تراشی غیبت سے زیادہ تکلیف دہ ہے ۔کیونکہ یہ جھوٹ ہے۔ اس لیے یہ ہر ایک پر گراں گزرتی ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ بہتان تراشی کبیرہ گناہ ہے۔ قراٰن و حدیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔

چنانچہ قراٰنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105) اس آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنا بے ایمانوں ہی کا کام ہے۔

(1) تفسیر مدارک میں ہے،شاہ کرمانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :بندے پر شیطان کے غالب آنے کی علامت یہ ہے کہ شیطان اسے کھانے، پینے اور پہننے میں مشغول کر دیتا ہے، بندے کے دل کو اللہ پاک کی نعمتوں اور اس کے انعامات میں غور و فکر کرنے اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے غافل کر دیتا ہے، بندے کو اس کے رب تعالیٰ کا ذکر کرنے سے غافل کر کے جھوٹ، غیبت اور بہتان تراشی میں مصروف کر دیتا ہے اور بندے کے دل میں دنیا (کا مال) جمع کرنے اور دنیا سنوارنے کی لگن ڈال کر اسے غور و فکر کرنے اور اپنے انجام کے بارے میں سوچنے سے غافل کر دیتا ہے۔( مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: 19، ص1221، ملخصاً)

اس کے علاوہ حدیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

(2) حضرت سیدنا معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے۔ سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)(3) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

مذکورہ آیتِ مبارکہ اور بزرگانِ دین کا قول اور اس کے علاوہ احادیثِ مبارکہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا بہت ضروری ہے۔ اللہ پاک ہمیں بہتان تراشی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/200) اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بُرائی نہ ہونے کے باوُجُود اگر پیٹھ پیچھے یا رُوبَرو وہ برائی اُس کی طرف منسوب کردی تو یہ بُہتان ہوا مثلاً پیچھے یا منہ کے سامنے ریا کار کہہ دیا اور وہ ریا کار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کو ئی ثُبُوت نہ ہو کیوں کہ ریا کاری کا تعلُّق باطِنی امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریاکار کہنا بہتان ہوا۔

سرکار عالی وقار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ، پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔ (ابوداود ، 3 / 427 ، حدیث : 3597)

حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)

سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023)

اس حدیثِ پاک سے ان لوگوں کو عبرت حاصِل کرنی چاہئے جو صِرف شک کی بنا پر پارسا عورتوں پر تُہمتِ زنا باندھ بیٹھتے ہیں ۔ حضرت علامہ مولانا عبدالرءُوف مناوی شافعی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القوی مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : یعنی اگر بالفرض وہ شخص سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کردے گا۔ اس فرمانِ عالیشان میں اس عمل پر سخت تنبیہ اور زبان کی حفاظت پر بھر پور ترغیب ہے۔ اس طرح کی دیگر روایات پر قیاس کرتے ہوئے ظاہر یہ ہے کہ سو سے مراد مخصوص عدد نہیں بلکہ کثرت ہے، اس روایت میں موجود شدید وعید سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ یہ عمل کبیرہ گناہ ہے۔ (فیض القدیر ، 2 / 601 ، تحت حدیث:2340)

حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

رحمت عالم، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: پانچ چیزوں کا کوئی کفارہ نہیں : (1)…اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا (2)…ناحق قتل کرنا (3)…مؤمن پر تہمت لگانا (4)…میدان جنگ سے بھاگ جانا اور (5)…ایسی جبری قسم جس کے ذریعے کسی کا مال ناحق لے لیا جائے۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرۃ،3/286، حدیث:8745)

اللہ پاک ہمیں بہتان جیسے گناہ سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آج کل انسان آپس میں ایک دوسرے کے اوپر بہتان لگاتا نظر آرہا ہے۔ بھائی بھائی سے ذرا ذرا سے بات پر لڑنے لگتا اور بہتان لگاتا ہے۔

(1) نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (2) نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاۓ تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک (ردغة الخبال یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہونگے) اس میں رکھے گا جب تک ان کی سزا پوری نہ ہو جائیں۔( ابو داؤد، 3/427، حدیث: 3597)

(3)حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171) (4) ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔

(5) حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی چھوٹی بات ثابت کرے۔ (معجم الاوسط ،حدیث : 8936)


بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/200) بہتان تراشی کا حکم : بہتان تراشی حرام ، گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

آیتِ مبارکہ: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105)

(1) فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاۓ تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک (ردغة الخبال یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہونگے) اس میں رکھے گا جب تک ان کی سزا پوری نہ ہو جائیں۔( ابو داؤد، 3/427، حدیث: 3597) ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔ (بہارِ شریعت)(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)

(3) فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ ( ابن ماجہ، 3/123)(4) فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)


آج کل انسان آپس میں ایک دوسرے کے اوپر بہتان لگاتے نظر آتے ہیں۔ بھائی بھائی سے ذرا ذرا سی بات پر بہتان لگاتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کو اس بات سے آگاہ کریں کے بہتان لگانا کتنا بڑا گناہ ہے۔ آئیے اس پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش کرتا ہوں:۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! کسی پر بہتان لگانا شرعاً گناہ اور حرام ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے یعنی بڑا گناہ ہے۔

ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے: مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔

ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی ( الزام لگایا ، تہمت یا جھوٹی بات منسوب کی ) جو اس میں حقیقت میں بھی ہی نہیں تو اللہ اسے (الزام لگانے والے تہمت لگانے والے ، چھوٹی بات منسوب کرنے والے کو دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اس کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آجائے (رک جائے،توبہ کرے تو پھر نجات ممکن ہے) ۔(مشكاة المصابيح )

سرکارِ نامدار مدینے کے تاجدار نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! ابھی ہم نے فرامین ِمصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنا۔ اللہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں پر بہتان لگانے سے بچائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلام بھائیو ! کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔ بہتان کہتے ہیں کسی پر وہ الزام لگانا جو اس نے نہ کیا ہو۔ بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے ۔ یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔

(1)ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے ۔ حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

(2) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)(3) جب سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فتح ِمکہ کے دن مردوں کی بیعت لے کر فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر عورتوں سے بیعت لینا شروع کی، تو آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میں تم سے اس پر بیعت لیتا ہوں کہ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان کوئی بہتان نہ گھڑو گی۔ حضرت ہند رضی اللہُ عنہا نے کہا :خدا کی قسم ! بہتان بہت بری چیز ہے اور حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں نیک باتوں اور اچھی خصلتوں کا حکم دیتے ہیں ۔ (خازن،الممتحنۃ، تحت الآیۃ: 12، 4 / 260)

(4) ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے ۔ مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔(5) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے یعنی بڑا گناہ ہے۔

پیارے پیارے اسلام بھائیوں ! الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اس لئے اس عمل سے باز آنا چاہئے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے ، تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔ اللہ پاک اس بری بیماری سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آج کل لوگوں کے درمیان آپس میں جھگڑے فساد بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے بغض و کینہ جیسی باطنی بیماری میں مبتلا ہیں۔ انہیں جیسی باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری بہتان بھی ہے۔ کسی انسان پر ایسا جھوٹا الزام لگانا جو اس نے نہ کیا ہو، بہتان کہلاتا ہے۔

آئیے اب بہتان کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں:۔

(1)سرکارِ دوجہاں محبوبِ رحمن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)(2) نبیٔ رحمت شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاۓ تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک (ردغة الخبال یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہونگے) اس میں رکھے گا جب تک ان کی سزا پوری نہ ہو جائیں۔( ابو داؤد، 3/427، حدیث: 3597)

(3) جب سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فتح ِمکہ کے دن مردوں کی بیعت لے کر فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر عورتوں سے بیعت لینا شروع کی، تو آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میں تم سے اس پر بیعت لیتا ہوں کہ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان کوئی بہتان نہ گھڑو گی۔ حضرت ہند رضی اللہُ عنہا نے کہا :خدا کی قسم ! بہتان بہت بری چیز ہے اور حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں نیک باتوں اور اچھی خصلتوں کا حکم دیتے ہیں ۔ (خازن،الممتحنۃ، تحت الآیۃ: 12، 4 / 260)

(4)حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)(5) ایک حدیثِ پاک میں ارشادِ نبوی ہیں کہ جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے کی طرف لوٹتا ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ احادیث کریمہ میں بہتان لگانے والے کیلئے کس قدر وعیدیں آئیں ہیں۔ اللہ پاک ہمیں بہتان اور سبھی باطنی بیماریوں سے ہمیشہ بجائے رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم