یاد رکھئے! ہر وقت، ہر حال، ہر لمحے، ہر لہجہ، ہر لفظ، ہر
کلمے، ہر سوچ، ہر تصور اور ہر خیال الغرض ہر صورت میں زبان کی حفاظت بے حد ضروری
ہے۔ چونکہ بے کنٹرول زبان سے ادا ہونے والا ہر شب نہ جانے کیا سے کیا کر ڈالتا ہے،
ایسے گہرے زخم چھوڑتا ہے جو لا علاج ہو جاتے ہیں، جن کا بھرنا ناممکن و محال ہو
جاتا ہے ، تیر کے زخم بھر جاتے ہیں، تلوار کے زخم کی مرہم مل جاتی ہے، چھری چاقو
کے گھاؤ پر پٹی باندھی جاتی ہے لیکن جو زبان کا زخم ہے نہ اس کی دوا ہے اور نہ ہی
مرہم ، زبان کی اذیت زیادہ دینا تیر کے ذریعے اذیت دینا زیادہ سخت ہے۔ مشہور تابعی
بزرگ حضرتِ سیدنا سفیان ثَوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:لوگوں کا
تیرپھینکنا زَبان کے ذریعے اذیّت پہنچانے سے زیادہ آسان ہے کیونکہ کمان کا تیر خطا
ہو سکتا ہے لیکن زَبان کا تیر کبھی خطا نہیں ہوتا۔(تنبیہ المغترین، ص189) عربی
مقولہ ہے: جَرْحُ الْکَلَامِ اَصْعَبُ مِنْ جَرْحِ الْحُسَامِ۔ یعنی زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ سخت ہو تا ہے۔
(المستطرف، 1/47) بعض لوگوں کی عادتِ قبیحہ و خبیثہ ہوتی ہے کہ بات بات پر لڑتے،
جھگڑتے، غیبت کرتے اور سب بڑا گھناؤنا اور غیبت سے دگنا گناہِ کبیرہ کسی مسلمان پر
زبان کے ذریعے بہتان تراشی کر کے کئی مسلمانوں کو زبان کے ذریعے اذیت و تکلیف
پہنچانے کا باعث بنتے ہیں، اسلام نے یہاں تک تعلیمات دی ہیں کہ زبان کا زخم سِنَان یعنی بھالے کے زخم سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کہ یہ مرہم
سے بھر جاتا ہے مگر وہ نہیں بھرتا ۔ شیرِ خدا حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کرم اللہ
وجہہ الکریم فرماتے ہیں:
جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَہَا الْتِیَام وَلَا یَلْتَامُ مَا
جَرَحَ اللِّسَان
کسی اردو شاعر نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:
چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا لگا جو زخم زبان کا رہا ہمیشہ ہرا
ہمارے معاشرے کی تباہ کاریوں کا حصہ بننے کا ایک ذریعہ یہ
بھی ہے کہ بے قصور مسلمان پر چوری، رشوت، جادو، ٹونے، بدکاری، بد دیانتی، خیانت،
قتل و غارت، بہتان تراشی جیسے کبیرہ گناہوں کا بند باندھ کر اس کی گھریلو،
کاروباری، معاملاتی، تجارتی، و دفتری و مزدوری زندگی کا اطمینان تباہ و برباد کر
کے رکھ دیتے ہیں۔
آئیے اسلام کی روشنی میں بہتان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
کہ بہتان :۔ جھوٹ موٹ اپنی طرف سے گڑھ کر کسی پر کوئی الزام یا عیب لگانا اس کو
افتراء ، تہمت اور بہتان کہتے ہیں۔ یہ بہت خبیث اور ذلیل عادت ہے اور بہت بڑا گناہ
ہے۔ (جنتی زیور، ص 121)سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اگر تم کسی ایسے عیب کو اس کی طرف منسوب کرو جو اس میں نہ ہو تو بے شک تم نے اس پر
بہتان لگا دیا۔(ترمذی،3/375،حدیث: 1941) بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرمائیں:
(1) ردغۃ الخبال ٹھکانہ : نبیِّ
رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی
بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک رَدْغَۃ
ُ الخَبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع
ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ (ابوداؤد،3/427،
حدیث: 3597)(2) سو سال کی
نیکیاں برباد: سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو
برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023) فیض القدیر میں ہے: یعنی اگر بالفرض وہ شخص
سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بُہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کردے گا۔
(فیض القدیر،2/601،تحت الحدیث: 2340)
(3) مسلمان کی برائی
کرنے کا وبال: فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو کسی
مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک
دوزخیوں کے کیچڑ ،پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ
نکل آئے۔(سنن ابوداود، ج3، ص427، حدیث:3597)
(4)امیر المؤمنین
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خوفِ خدا: ایک مرتبہ
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہُ عنہ
سے فرمایا: میں نے رات پارہ 22، سورہ احزاب کی اس آیت(58):( وَ الَّذِیْنَ
یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ
احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان
والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر
لیا ۔)کو پڑھا تومیں اس کی وجہ سے بہت ڈر گیا کیونکہ خدا کی قسم! میں مسلمانوں کو
مارتا ہوں اور انہیں جھڑکتا ہوں ، حضرت اُبی رضی اللہُ عنہ نے ان سے عرض کی :اے
امیر المؤمنین! رضی اللہُ عنہ، آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں ، آپ تو محض معلم
اور نظام کو قائم کرنے والے ہیں ۔( تفسیر قرطبی، الاحزاب، تحت الآیۃ: 58،7 /178،
الجزء الرابع عشر)
(5)تہمت کی سزا : تمام نبیوں کے سردار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمایا: کیا تم جانتے ہو
مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: ہم میں مفلس(یعنی غریب مسکین)
وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس
وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی
دی ہو گی، فلاں پر تہمت لگائی ہو گی، فلاں کا مال کھایا ہو گا، فلاں کا خون بہایا
ہو گا اور فلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دے دیا
جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو
گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا
جائے گا۔ (مسلم، ص1069، حدیث:6578)
توبہ کرلیجئے : اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت و بہتان سے توبہ کر لیجئے۔ بہارِ
شریعت حصّہ 16صَفْحَہ 538 پر ہے: بُہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور مُعافی مانگنا
ضَروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضَروری ہے کہ
میں نے جھوٹ کہا تھا جو فُلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔ (بہارِ شریعت،3/538)