کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص294) آج کل معاشرے میں ہر طرف جھوٹ کا سیلاب بہہ رہا ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی کی کامیابی سے حسد، بغض و کینہ رکھے ہوئے ہیں اور اسے بدنام، ناکام و برباد کرنے پر اڑا ہوا ہے جس کی وجہ بندہ کسی ایسے موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ کسی پر بہتان لگا کر اسے نامراد کر دے۔ جبکہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جھوٹا الزام لگانے والوں کی شدید مذمّت فرمائی ہے۔ بہتان کی مذمت کے متعلق فرمانِ باری ہے: وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔(پ5، النسآء:112) احادیثِ مبارکہ میں بہتان کی مذمت پر مشتمل 5 فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل ہیں :

(1) تہمت لگانا مثلِ قتل : فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے کسی پر تہمت لگائی، گویا اس کا قتل کیا۔ (صحیح البخاری، حدیث:6047)(2) مفلس و کنگال ہے : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص مفلس ہے جو قیامت کے دن نماز، روزوں اور زکوٰة کے ساتھ آئے اور اس حال میں ہو کہ کسی کو گالی دی ہو، اسے تہمت لگائی ہو، اس کا مال کھایا ہو، اس کا خون بہایا ہو، اس کو مارا ہو تو اس کی نیکیوں میں سے کچھ کسی مظلوم اور کچھ کسی مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں حقوق ادا کرنے سے پہلے ختم ہو گئیں تو مظلوم کی خطائیں ظالم پر ڈال دی جائیں گی اور ظالم کو آگ میں پھینک دیا جائے گا۔( صحیح مسلم، حدیث:6579)

(3) پل صراط پر روک دیا جائے گا: فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے کسی مسلمان کو تہمت لگائی اور اس تہمت سے اس کا ارادہ اسے ذلیل کرنا ہو تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داؤد، حدیث: 4883)(4) کوئی کفارہ نہیں : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:پانچ گناہ ایسے ہیں کہ ان کا کوئی کفارہ نہیں ہے، اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنا، ناحق جان کو قتل کرنا، مؤمن پر تہمت لگانا، لڑائی والے دن بھاگ جانا اور جھوٹی قسم، جس کے ذریعے وہ ناحق مال حاصل کرتا ہے۔ (مسند احمد، حدیث: 5010)

(5) ردغة الخبال ٹھکانا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کوئی کسی مؤمن کے بارے میں ایسی (بری) بات کہے جو اس میں نہ ہو تو اللہ پاک اسے ردغة الخبال میں رکھے گا۔(مشکاة المصابیح، حدیث:3611)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ردغۃ الخبال کا معنی کچا پیپ ہے۔ جسے اردو میں کچ لہو کہتے ہیں۔ اس سے مراد دوزخ کا وہ مقام ہے جہاں دوزخیوں کا پیپ و خون جمع ہوتا ہے۔(مراة المناجیح، ج:5، تحت الحدیث:3611)

ان مذمتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر اس شخص کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو کسی نہ کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش میں تہمتیں لگاتے ہیں۔ بعض بہتان ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر تحقیق و تصدیق کے لگادیے جاتے ہیں اور حقیقت معلوم ہونے کے بعد شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً گھر میں چوری ہو جائے یا کسی بھی قسم کا کوئی نقصان ہو جائے تو بلا ثبوت کسی کو بھی صرف شک کی بنیاد پر مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے، بالخصوص ملازم طبقہ کو، لیکن جب حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جس پر بلا تحقیق الزام لگایا اور اسے رسوا کیا وہ بے گناہ ہے تو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ یہ شرمندگی اور معافیاں اس مظلوم پر لگا بہتان کا داغ صاف نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے اولاً تو جانتے بوجھ کر کسی کو رسوا کرنے کے لیے بہتان ہرگز نہ لگایا جائے اور اگر کسی معاملے میں کسی پر شک ہو بھی تو الزام نہیں لگانا چاہیے جب تک کہ پختہ ثبوت حاصل نہ ہو جائے، ورنہ الزام بہتان کی صورت اختیار کر گیا تو دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت کا عذاب الگ۔

اللہ پاک ہمیں بہتان، غیبت، چغلی اور ہر طرح کے باطنی مرض سے شفا عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم