آج کل ہمارے معاشرے میں کئی سنگین جرائم عام ہو چکے ہیں جن میں سے کئی ایسے جرائم بھی ہیں کہ جس کا علم عوام تو دور بعض خواص کو بھی نہیں ہوتا انہیں جرائم میں سے ایک قابلِ مذمت جرم بہتان بھی ہے۔ آۓ بہتان کی مذمت پر چند فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں اور اسے گریز دائمی کرنے کا عزم مسلم کرتے ہیں ۔

(1) سرکارِ دو جہان محبوبِ رحمن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)(2) نبیٔ رحمت شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاۓ تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک (ردغة الخبال یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہونگے) اس میں رکھے گا جب تک ان کی سزا پوری نہ ہو جائیں۔( ابو داؤد، 3/427، حدیث: 3597)

(3) سرکارِ نامدار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023) (4) تمام نبیوں کے سردار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی ہم میں مفلس (یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہیں کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی ہو گی، فلاں پر تہمت لگائی ہو گی، فلاں کا مال کھایا ہوگا ،فلاں کا خون بہایا ہوگا، فلاں کو مارا ہوگا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا اگر اس کے ذمہ آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئی تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ( مسلم، ص 1069، حدیث :6578)(5) جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے نہ پائے گے کہ اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ ( ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373 )

ان تمام احادیث کو ملاحظہ کرنے کے بعد ادنی قسم کا ایمان رکھنے والا مؤمن بھی اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ کسی مسلمان پر تہمت لگا کر عذاب نار کا حقدار ہو۔

اللہ پاک ہم سب کو تمام ظاہری و باطنی گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمين بجاه النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : (مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗؕ) ترجَمۂ کنزُالایمان: جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔(پ9،الاعراف:186)

اللہ پاک بہت کے انسانوں کو ظاہری فول و فعل میں مبتلاء کرکے گمراہ کرتا ہے تو کسی کو باطنی بیماریوں میں مبتلا کر کے۔ آئیے میں آج آپ کو ایک ایسی بیماری، ایک ایسے مرض کے بارے میں بتاتا ہوں کہ یہ بیماری ایک اعتبار سے قلبی بھی ہے اور فعلی بھی جسے ہم "بہتان" کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ بہتان ایک ایسا مرض مہلک ہے ایسا کبیرہ گناہ ہے جو کہ غیبت سے زیادہ سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ یاد رہے کہ ! جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے ۔

یہاں بہتان کی مذمت پر 5 احادیث ملاحظہ ہوں۔

(1) جھوٹے کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ )(2) جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ کہنے کے مطابق عذاب پا لے گا ۔ ( ابو داؤد )

(3) جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں خود بھی جانتا نہ ہو، تو اللہ پاک اسے( جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کا مقام ) " ردغۃ الخبال " میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے ۔(4) مسلمان کے لئے روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو ۔(5) جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں تو اللہ پاک اسے دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا یہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت کے باز آ جائے ۔( مشکاۃ المصابیح )

افسوس فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کا سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں ، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا ہے اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا وغیرہ کے ذریعے جواب ملتا ہے ، کسی کو کچھ معلوم نہیں رہتا ۔ارشاد باری ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ 15، بنی اسرائیل: 36)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو ۔ تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں جھوٹی گواہی دینے ، جھوٹے الزامات لگانے اور طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی ممانعت کی گئی۔

اللہ پاک ہمیں اس مہلک گناہ سے محفوظ رکھ کر تمام ظاہری و باطنی گناہوں کے اسباب اختیار کرنے سے بچا کر زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۲۲۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اُترتے ہیں ہر بڑے بہتان والے گناہگار پر۔(پ19،الشعراء:222)

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر

ہمارے معاشرے کی بڑی اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائى الزام تراشی اور تہمت لگانا ہے۔ کسی پر بہتان باندھنا انتہائی سنگین جرم ہے جس طرح ترک صوم و صلوٰۃ، جھوٹ، غیبت، چغلی، شراب نوشی وغیرہ حرام و گناہِ کبیرہ ہیں۔ ویسے ہی دنیوی غرض کے لیے یا یونہی کسی مسلمان پر بے بنیاد الزام عائد کرکے ذلیل وخوار کرنا حرام و گناہِ کبیرہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے جس کی قراٰن و حدیث میں بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ۔بہتان کا لغوی معنی: بَهِتَ (س) بَهَتاً : ہکا بکا رہ جانا، چونک پڑنا، متحرک ہوکر خاموش ہوجانا، دلیل سے مغلوب ہوکر رنگ پھیکا پڑجانا۔ (المعانی) اصطلاحی معنی: غیبت کے یہ معنی ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے ۔(بہار شریعت، 3/535) یعنی کسی بے قصور شخص پر اپنی طرف سے گھڑ کر کسی عیب کا الزام لگانا یہ بہتان ہے۔

(1) چنانچہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)

(2) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936) (3)صحیح مسلم شریف میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مملوک پر زنا کی تہمت لگائے، قیامت کے دن اس پر حد لگائی جائے گی مگر جبکہ واقع میں وہ غلام ویسا ہی ہے، جیسا اس نے کہا۔(صحیح مسلم،کتاب الأیمان،باب التغلیظ علی من قذف ۔۔۔ إلخ،ص905،حدیث: 1660)

(4) عبدالرزاق عکرمہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں ایک عورت نے اپنی باندی کو زانیہ کہا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے زنا کرتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا، نہیں ۔ فرمایا: قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! قیامت کے دن اس کی وجہ سے لوہے کے اَسی ۸۰ کوڑے تجھے مارے جائیں گے۔(المصنّف،لعبدالرزاق،کتاب العقول) (5) ابو داؤد نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان کی سب چیزیں مسلمان پر حرام ہیں اس کا مال اور اس کی آبرو اور اس کا خون آدمی کو برائی سے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔( سنن أبي داؤد، کتاب الأدب، باب من رد عن مسلم غیبۃ،4/355، حدیث: 4883)

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بہتان تراشی نہایت قبیح و شنیع عمل ہے اور مسلمان کا احترام و اکرام اس کی عزت و آبرو کی حفاظت لازم و ضروری ہے لیکن افسوس! ہمارے معاشرے میں لوگوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے سرو پا باتیں سنتے ہیں اور انکو آگے بڑھانے میں کچھ تأمل نہیں کرتے حالانکہ حدیثِ پاک میں آتا ہے آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے ۔ یہ طرزِ عمل اسلامی احکام کے برخلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایساطرزِ عمل اپنائے۔

لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔

اللہ پاک مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین


اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بہت ساری نعمتوں سے سرفراز کیا انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت زبان ہے۔ جی ہاں ! زبان وہ نعمت ہے جس کے ذریعے ہم ذکر اللہ کر سکتے ہیں، ہاں زبان وہ نعمت ہیں جس سے ہم تلاوتِ قراٰن سے قلب کو منور و مجلیٰ کر سکتے ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہی وہ زبان، جو نعمت ہیں مگر ہم اس سے رب کی نافرمانی کرتے ہیں، اسی زبان کے ذریعے نہ جانے ہم نے کتنے مسلمانوں کے دلوں کو شاق کیا ہوگا۔ زبان سے سرزد ہونے والے گناہ بہت زیادہ ہے۔ جیسے غیبت، چغلی، گالی گلوج، بہتان باندھنا وغیرہ۔ مگر ان میں سے آج ہم بہتان کی تعریف اور اس کے مذمت پر چند احادیث پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

بہتان کی تعریف: اس جھوٹ کو کہتے ہیں جسے سن کر آدمی مبہوت ہو جائے مثلاً جھوٹا الزام رکھنا، کسی پر جھوٹ باندھنا، اس کی نہ کہی ہوئی بات کو اس کے سر منڈھنا۔ (نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری، 1/324)

(1) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)( 2) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو اے زانیہ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، 5/ 529)

(3) آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ یعنی: اور جو کسی مسلمان میں برائی بیان کرے جو اس میں نہیں ہے تو اللہ اسے کچ لہو میں رکھے گا حتی کہ اپنے کہے سے نکل جائے۔ (ابوداؤد،3/305 ،حدیث 3597 ) ردغۃ الخبال کی شرح بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ردغۃ الخبال : ر کے فتحہ،دال کے سکون اور خ اور ب کے فتحہ سے کچا پیپ جسے اردو میں کچ لہو کہتے ہیں۔ اس سے مراد دوزخ کا وہ مقام ہے جہاں دوزخیوں کا پیپ و خون جمع ہوتا ہے۔

قوله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ یعنی دنیا میں جتنے روز تک یہ مسلمان بھائی کو عیب لگاتا رہا اتنے روز تک جہنم کے اس طبقہ میں رکھا جائے گا کہ وہاں رہے گا اور یہ کچ لہو ہی پیئے گا۔ اللہ کی پناہ! (مرآۃ المناجیح، جلد5 ، حدیث : 3611 )

(4) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمقَالَ: أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ یعنی: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے اِسْتِفْسَار فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے عرض کی: ہم میں مفلِس وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کو گالی دی ہوگی، فُلاں پر بہتان لگایا ہوگا ،فُلاں کا مال کھایا ہوگا، فُلاں کا خون بہایا ہوگا اور فُلاں کو مارا ہوگا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائےگا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔(مسلم )

(5)وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ۔ یعنی: روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میری حدیث روایت کرنے سے بچو سوا ان کے جن کو تم جانتے ہو کیونکہ جو عمدًا مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ آگ کا بنالے۔(مشکوۃ المصابیح، 1/35 ،حدیث : 216)شرح: اگرچہ ہر ایک پر جھوٹ باندھنا بہتان اور گناہ ہے، مگر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جھوٹ باندھنا بہت گناہ ہے کہ اس سے دین بگڑتا ہے۔(مرآۃ المناجیح، جلد1)

پیارے اسلامی بھائیوں ! پڑھا آپ نے کے بہتان لگانے کی کیسی کیسی وعیدیں ہیں۔ سب سے بڑی تو خرابی یہ ہے کہ حس پر بہتان لگایا ہوگا ان دونوں کا آپس میں جھگڑا چالوں، پھیر ہر ایک اس تہ میں رہے گا کہ وہ کچھ کرے میں اس کا پردہ فاش کروں۔ اسی طرح اس کی بہت دنیاوی نقصان بھی ہیں۔ تو پیارے بھائیوں ہمیں اس سے بچتے رہنا چاہیے تاکہ مسلمانوں کے ما بین بھائی چارگی قائم رہیں اور مسلمان باہم ہر ایک کے سکھ و دکھ میں سہارا بنے۔ تو پیارے بھائیوں اپنی زبان کو بالخصوص بہتان اور بالعموم تمام گناہوں سے پچا کر اپنی زبان پر ذکر اللہ ،تلاوتِ قراٰن، درود شریف کا ورد جاری رکھئے تاکہ سعادتِ دارین سے ہم کنار ہو۔

آخر میں اللہ سے دعا گوں ہو کہ اللہ پاک ہمیں سارے گناہوں سے بچا کر ہماری زندگانی تیری طاعت میں صرف ہو ۔اٰمین یا رب العالمین


ہمارے معاشرے میں متعدد سماجی واخلاقی برائیاں پھیل رہی ہیں، جن میں ایک بڑی برائی بہتان تراشی ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم اس فعل کی قباحت کو قراٰن و احادیث کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ نصیحت قبول کرنے والے افراد اس کی قباحت (برائی) جاننے کے بعد اس فعل باز آجائیں اب بہتان سے بچنےکے لئے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ بہتان کہتے کس کو ہیں بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/200) اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بُرائی نہ ہونے کے باوُجُود اگر پیٹھ پیچھے یا رُوبَرو وہ برائی اُس کی طرف منسوب کردی تو یہ بُہتان ہوا مثلاً پیچھے یا منہ کے سامنے ریا کار کہہ دیا اور وہ ریا کار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کو ئی ثُبُوت نہ ہو کیوں کہ ریا کاری کا تعلُّق باطِنی امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریاکار کہنا بہتان ہوا۔بہتان کا حکم: بہتان تراشی حرام و گناہ کبیرہ ہے۔ (منحۃ السلوک، کتاب الکسب والادب، فصل فی بیان انواع الکلام، ص483،دارالنوادرقطر )صدر الشریعہ ، مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جاکر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔(بہارشریت، 3/181)

اللہ پاک بہتان تراشی کے متعلق قراٰنِ کریم میں فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105) اس آیت کے تحت مفتی قاسم عطاری صاحب صراط الجنان میں فرماتے ہیں: آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنا بےایمانوں ہی کا کام ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: 105، 3 / 144، ملخصاً)

حدیث (1) سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ ، پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل آئے (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا )۔ (سنن ابوداؤد، 3/427، حدیث: 3597)حدیث (2)امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ کسی بے قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ ہے۔(کنز العمال، كتاب الاخلاق،باب البهتان،3/322،حديث: 8806)

حدیث (3)نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023) فیض القدیر میں ہے: یعنی اگر بالفرض وہ شخص سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بُہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کردے گا۔ (فیض القدیر،2/601،تحت الحدیث: 2340)حدیث (4)روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو ۔ لوگوں نے حضور وہ کیا ہیں ؟ فرمایا (1) اللہ کے ساتھ شریک (2)جادو ، اور (4)ناحق اس جان کو ہلاک کر ناجو اللہ نے حرام کی ، (4) سود خوری (5) یتیم کامال کھانا ،(6) جہاد کے دن پیٹھ دکھادینا، (7) پاکدامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ،جلد :6 ،حدیث:4828)

حدیث (5)جناب رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ الصلوۃ و السّلام سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تہمت لگانے والے ہیں ۔(شرح الصدور، ص 182)

پیارے بھائیوں! زبان کا قفلِ مدینہ لگائیے تاکہ بہتان اور اس کے علاوہ بہت سارے گناہوں سے بچ جائیں اور قراٰن و حدیث میں ذکر کئے گئے بہتان کے ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجئے اور اپنے نازک بدن پر غور کیجئے کہ بہتان کے سبب اگر ان میں سے کوئی عذاب ہم پر مسلط کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیوں ! بلاشبہ کسی مسلمان پر جھوٹ باندھنا بہتان ہے اور شریعت میں بہتان باندھنا حرام گناہِ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے جس کی مذمت قراٰن و حدیث میں جا بجا وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجمۂ کنز الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنی اسرآءیل:36) تفسیرِ صراط الجنان: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پرو ہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: 36، ص623)

یہاں غلط الزامات لگانے کی مذمت پر 5 وعیدیں ملاحظہ ہوں:

(1)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)(2) نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ (ابوداؤد،3/427، حدیث: 3597)

(3) حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)(4)جنابِ رسالتِ مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)

(5)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پانچ چیزوں کا کوئی کفارہ نہیں (1) اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا (2)ناحق قتل کرنا(3)مؤمن پر تہمت لگانا (4)میدان جنگ سے بھاگنا(5)ایسی جبری قسم جس کے ذریعے کسی کا ناحق مال لے لیا جائے۔(مسند احمد،3/286، حدیث: 8745 )

ان مذکورہ روایتوں سے معلوم ہوا کہ مسلمان پر بہتان باندھنا یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانا بہت بڑا گناہ ہے اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔ اللہ پاک ہمیں بہتان سے محفوظ رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بہتان ایک حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور قراٰنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں متعدد مقامات پر اس کی وعیدیں آئی ہیں۔ آئیے بہتان کی مذمت پر چند احادیث نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سماعت کرتے ہیں اور عبرت حاصل کرتے ہیں۔

(1) چنانچہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4 / 354، حدیث: 4883) (2)حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔(اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا)۔ (معجم الاوسط، من اسمہ مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

(3)حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171) (4) نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ (ابوداؤد،3/427، حدیث: 3597)

(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے ؟ صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی :اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ارشاد فرمایا: تم اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرو جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کی گئی :اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو۔ جسے میں بیان کرتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا: تم جو عیب بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہو جب ہی تو وہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ عیب نہیں ہے تو پھر وہ بہتان ہے۔(مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، ص1397، حدیث: 2589)

محترم قارئین! دیکھا آپ نے کہ ایک مسلمان بھائی کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنا جو اس میں نا پائی جاتی ہو کس قدر حرام کام ہے۔ اور آخرت میں اس کی رسوائی اور عذاب کس قدر سخت ہے۔ تو پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چائیے کہ اس فعل بد سے ہم دور رہیں جس میں کسی کی دل آزاری ہو اور گناہ کا سبب بنے۔ رب کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں بہتان جیسی مہلک بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارےاسلامی بھائیوں! ہم مسلمان ہے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امتی ہیں تو ہمیں علم دین حاصل کرنے کا حکم دیا گیا جیسے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : طلبُ العِلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ و مسلمة ، یعنی علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و ( عورت) پر فرض ہے۔ وہ علوم جن کا سیکھنا فرض ہیں، ان میں سے ایک باطنی بیماریوں (تکبر، حسد، ریاکاری، وغیرہ) کا علم بھی ہے ان میں سے ایک بہتان لگانا بھی ہے ۔ آئیے پہلے ہم بہتان کی تعریف اور بہتان کی مذمت پر فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنیں اور اس بیماری سے بچنے کی کوشش کریں ۔

‏ ‏بہتان کی تعریف : کسی شخص کی موجودگی یا غیرموجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے ۔(غیبت کی تبارہ کاریاں)

‏ (1) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔ ( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ) ‏ (2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: معراج میں میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے میں نے پوچھا: اے جبرائیل یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے۔(ابوداود، کتاب الادب باب فی الغیبۃ)

‏ (3) حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔ (مشکاة المصابيح، جلد 2 ) ‏ (4) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی اور جو جانتے ہو ئے کسی باطل امر کے لئے جھگڑے تو وہ اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبر دار ہو جائے اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے تو بہ کرلے۔(سنن ابوداؤد )

‏ (5) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : پانچ اعمال ایسے جن کا (توبہ کے علاوہ) کفارہ نہیں (1) اللہ کے ساتھ شرک کرنا، (2) ناحق کسی کو قتل کرنا، (3) کسی مؤمن پر بہتان لگانا، (4)دورانِ جہاد پیٹھ پھیر کر فرار ہونا، (5) جھوٹی قسم سے کسی کا مال ہڑپ کرنا۔( مسند احمد،14/ 350 )

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! کسی شخص پر جان بوجھ کر ایسا الزام لگانا جو اس میں نہ ہو اگر یہ بات اس کو معلوم چلے گی تو اس کی دل آزاری ہو گی اور بہتان لگانا یہ شرعی لحاظ سے گناہِ کبیرہ اور حرام ہیں اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لے تو کئی لوگ اس میں شامل ہیں ۔


آج ہمارا معاشرہ کون سا ایسا گناہ ہے جس کے چپیٹ میں نہیں ہو۔ حسد ہو یا غیبت، چغلی ہو یا جھوٹ، دھوکہ ہو یا وعدہ خلافی، تہمت ہو یا سود۔ الغرض کوئی بھی ایسا گناہ نہیں ہے جو ہمارے معاشرے میں نہیں ہوتا ہے ۔یقیناً ہمارا معاشرہ پریشان ہے مصیبتوں سے دوچار ہے یہ ہمارے ہی ہاتھوں کا کمایا ہوا ہے جس کے متعلق ارشاد باری ہے : وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰) ترجمۂ کنز الایمان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے۔(پ25، الشورٰی:30)

آج ہمارا معاشرہ گناہوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ مزاج ایسا بن گیا ہے کہ الزام تراشی اور بہتان کو تیزی سے پھیلانے والے کام کر رہے ہیں ۔کیوں کہ شیطان ان کو لایعنی اور بے کار کاموں کے لئے ابھارتا ہے اور لایعنی کاموں میں مشغول کر دیتا ہے ۔حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ(۴) اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْاۚ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجمۂ کنز الایمان: اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو اُنہیں اسّی کوڑے لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق ہیں مگر جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور سنور جائیں تو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ18،النور:5،4)

آئیے بہتان کے مذمت پر 5احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں ۔

(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں ہے تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کردے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کردے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 107) (2) حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔ ( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ)

(3) نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ (ابوداؤد،3/427)(4) جنابِ رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)

(5) مُفلِس کون؟ تمام نبیوں کے سردار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے اِسْتِفْسَار فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے عرض کی: ہم میں مفلِس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کو گالی دی ہو گی، فُلاں پر تہمت لگائی ہو گی،فُلاں کا مال کھایا ہو گا، فُلاں کا خون بہایا ہو گا اور فُلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم،ص1069،حدیث:6578)

ذکر کی گئی احادیث مبارکہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہتان کبیرہ گناہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے اس سے معافی مانگنا اور اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرنا ضروری ہے کیونکہ اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ قراٰن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے : اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمۂ کنز الایمان: بےشک اللہ پسندر کھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔(پ2،البقرۃ:222)

اللہ پاک ہمیں اس آیت مقدسہ کا مصداق بنائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ اسلام نے ہمیشہ اپنی پیروی کرنے والوں کو اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کیا ہے اور انسانوں کو گناہوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔ بہت سارے گناہ میں سے ایک بڑا گناہ " بہتان " ہے۔ جو انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی پر زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر بہتان لگاتا ہے، تو وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کر لیتا ہے۔ آج ہم بہتان کے بارے سنیں گے۔

بہتان ’’بھت‘‘ سے ہے جس کے معنی ہیں کہ کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جائے جو اس نے کی ہی نہ ہو۔ بہتان سے مراد افتراء بھی ہے۔(لسان العرب، 2/12) اللہ پاک قراٰنِ کریم میں فرماتا ہے: هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ(۱۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ بڑا بہتان ہے (پ18،النور:16) یعنی ایسا جھوٹ جسے سننے والا حیرت زدہ اور حیران و ششدر ہو کر مبہوت ہوجائے۔ قراٰنِ کریم میں ’’ بُهْتَانٌ ‘‘ کا لفظ بطور اسم 5 بار استعمال ہوا ہے۔ سورة النساء میں تین دفعہ جس میں سے ایک دفعہ آیت157میں حضرت مریمؑ پر بہتان کا ذکر ہے، سورة النور میں آیت17میں واقعہ افک کے موقع پر اور سورة الاحزاب آیت 59 میں مؤمنین اور مؤمنات کو ایذا دینے کے ضمن آیا ۔

(1) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہتان باندھنے کو کبائر گناہ میں شامل کرتے ہوئے فرمایا: پانچ اعمال ایسے ہیں جن کا (سچی توبہ کے علاوہ) کوئی کفّارہ نہیں: (1) اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،(2) کسی کو ناحق قتل کرنا، (3)کسی مؤمن پر بہتان لگانا، (4)دورانِ جہاد پیٹھ پھیر کر فرار ہونا ،(5)جھوٹی قسم سے کسی کا مال ناحق ہڑپ کرنا ۔(مسند احمد، 14/351)(2) نبی ٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معراج والی رات میں مشاہدہ فرما لیا تھا ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا تھا جو اپنے چہرے اور سینے اپنے پیتل کے ناخن سے نوچ رہے تھے ۔جب پوچھا گیا تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ وہ خبیث لوگ ہیں ،جو لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے۔ (ابو داؤد،حدیث:4878) آہ کس قدر درد ناک منظر ہوگا؟ کبھی غور کیا ۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو ،اس کے عذاب سے خوف کھاؤ۔

پیارے اسلامی بھائیوں !مسلمانوں کی عزت و آبرو قیمتی سرمایہ ہے، اس کی حفاظت ہی اصل مردانگی ہے (جسے ہم بھول بیٹھے ہیں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:آدمی کی طنطنہ بازی پر خوش نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ مرد وہ ہے جو امانت ادا کر دیا کرے اور لوگوں کے عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے ۔

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک روز صحابۂ کرام سے دریافت فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ تمہارا اپنے بھائی کا اس رنگ میں ذکر کرنا جسے وہ پسند نہ کرتا ہو ۔عرض کیا گیا کہ اگر وہ بات جو کہی گئی ہے سچ ہو اور میرے بھائی میں وہ بات موجود ہو تب بھی یہ غیبت ہوگی؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ عیب اس میں پایا جاتا ہے جس کا تو نے اس کی پیٹھ پیچھے ذکر کیا ہے تو یہ غیبت ہے اور اگر وہ بات جو تو نے کہی ہے اس میں پائی ہی نہیں جاتی تو یہ اس پر بہتان ہے۔ (4)ہمارے پیارے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا بہتان باندھے جس کے بارے میں وہ کچھ نہ جانتا ہو تو اللہ پاک اسے”رَدْغَۃُالْخَبَالْ“(جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام) میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ وہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ چکھ لے۔(مصنف عبد الرزاق)

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچنے کا حکم فرمایا جن میں ایک پاکدامن عورت پر تہمت لگانا بھی ہے۔(ابوداؤد)اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت وبہتان سے توبہ کر لیجئے ، ”بہارِ شریعت“حصّہ 16صَفْحَہ 538 پر ہے: بُہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور مُعافی مانگنا ضَروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضَروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فُلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔ (بہارِ شریعت،3/538) نفس کے لئے یقیناً یہ سخت گِراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سی ذِلّت اٹھانی آسان جبکہ آخِرت کا مُعامَلہ انتِہائی سنگین ہے، خدا کی قسم! دوزخ کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔

بعض اسلاف سے ان کے علاج کا طریقہ اس طور پر لکھا ہے کہ:(1) ان گناہوں سے بچنے کے لیے پاکی اور سچی نیت کی جائے کہ اب آئندہ زبان سے کسی کی غیبت نہیں کروں گا اور نہ کسی پر غلط بات کی تہمت لگاؤں گا۔(2) ان کا خیال آنے پر قراٰن و احادیث میں مذکور وعیدوں کو یاد کیا جائے۔(3)غیبت یا بہتان کرنے پر اپنے نفس کو سزا دیا جائے۔ (4) غیبت کی ہو یا جس پر بہتان لگایا ہو اس سے معافی تلافی کرلی جائے اور اس کے لیے توبہ و استغفار کیا جائے۔