دینِ اسلام نے ہمیشہ اپنی پیروی کرنے والوں کو اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کیا ہے اور انسانوں کو گناہوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔ بہت سارے گناہ میں سے ایک بڑا گناہ " بہتان " ہے۔ جو انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی پر زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر بہتان لگاتا ہے، تو وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کر لیتا ہے۔ آج ہم بہتان کے بارے سنیں گے۔

بہتان ’’بھت‘‘ سے ہے جس کے معنی ہیں کہ کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جائے جو اس نے کی ہی نہ ہو۔ بہتان سے مراد افتراء بھی ہے۔(لسان العرب، 2/12) اللہ پاک قراٰنِ کریم میں فرماتا ہے: هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ(۱۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ بڑا بہتان ہے (پ18،النور:16) یعنی ایسا جھوٹ جسے سننے والا حیرت زدہ اور حیران و ششدر ہو کر مبہوت ہوجائے۔ قراٰنِ کریم میں ’’ بُهْتَانٌ ‘‘ کا لفظ بطور اسم 5 بار استعمال ہوا ہے۔ سورة النساء میں تین دفعہ جس میں سے ایک دفعہ آیت157میں حضرت مریمؑ پر بہتان کا ذکر ہے، سورة النور میں آیت17میں واقعہ افک کے موقع پر اور سورة الاحزاب آیت 59 میں مؤمنین اور مؤمنات کو ایذا دینے کے ضمن آیا ۔

(1) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہتان باندھنے کو کبائر گناہ میں شامل کرتے ہوئے فرمایا: پانچ اعمال ایسے ہیں جن کا (سچی توبہ کے علاوہ) کوئی کفّارہ نہیں: (1) اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،(2) کسی کو ناحق قتل کرنا، (3)کسی مؤمن پر بہتان لگانا، (4)دورانِ جہاد پیٹھ پھیر کر فرار ہونا ،(5)جھوٹی قسم سے کسی کا مال ناحق ہڑپ کرنا ۔(مسند احمد، 14/351)(2) نبی ٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معراج والی رات میں مشاہدہ فرما لیا تھا ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا تھا جو اپنے چہرے اور سینے اپنے پیتل کے ناخن سے نوچ رہے تھے ۔جب پوچھا گیا تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ وہ خبیث لوگ ہیں ،جو لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے۔ (ابو داؤد،حدیث:4878) آہ کس قدر درد ناک منظر ہوگا؟ کبھی غور کیا ۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو ،اس کے عذاب سے خوف کھاؤ۔

پیارے اسلامی بھائیوں !مسلمانوں کی عزت و آبرو قیمتی سرمایہ ہے، اس کی حفاظت ہی اصل مردانگی ہے (جسے ہم بھول بیٹھے ہیں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:آدمی کی طنطنہ بازی پر خوش نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ مرد وہ ہے جو امانت ادا کر دیا کرے اور لوگوں کے عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے ۔

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک روز صحابۂ کرام سے دریافت فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ تمہارا اپنے بھائی کا اس رنگ میں ذکر کرنا جسے وہ پسند نہ کرتا ہو ۔عرض کیا گیا کہ اگر وہ بات جو کہی گئی ہے سچ ہو اور میرے بھائی میں وہ بات موجود ہو تب بھی یہ غیبت ہوگی؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ عیب اس میں پایا جاتا ہے جس کا تو نے اس کی پیٹھ پیچھے ذکر کیا ہے تو یہ غیبت ہے اور اگر وہ بات جو تو نے کہی ہے اس میں پائی ہی نہیں جاتی تو یہ اس پر بہتان ہے۔ (4)ہمارے پیارے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا بہتان باندھے جس کے بارے میں وہ کچھ نہ جانتا ہو تو اللہ پاک اسے”رَدْغَۃُالْخَبَالْ“(جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام) میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ وہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ چکھ لے۔(مصنف عبد الرزاق)

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچنے کا حکم فرمایا جن میں ایک پاکدامن عورت پر تہمت لگانا بھی ہے۔(ابوداؤد)اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت وبہتان سے توبہ کر لیجئے ، ”بہارِ شریعت“حصّہ 16صَفْحَہ 538 پر ہے: بُہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور مُعافی مانگنا ضَروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضَروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فُلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔ (بہارِ شریعت،3/538) نفس کے لئے یقیناً یہ سخت گِراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سی ذِلّت اٹھانی آسان جبکہ آخِرت کا مُعامَلہ انتِہائی سنگین ہے، خدا کی قسم! دوزخ کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔

بعض اسلاف سے ان کے علاج کا طریقہ اس طور پر لکھا ہے کہ:(1) ان گناہوں سے بچنے کے لیے پاکی اور سچی نیت کی جائے کہ اب آئندہ زبان سے کسی کی غیبت نہیں کروں گا اور نہ کسی پر غلط بات کی تہمت لگاؤں گا۔(2) ان کا خیال آنے پر قراٰن و احادیث میں مذکور وعیدوں کو یاد کیا جائے۔(3)غیبت یا بہتان کرنے پر اپنے نفس کو سزا دیا جائے۔ (4) غیبت کی ہو یا جس پر بہتان لگایا ہو اس سے معافی تلافی کرلی جائے اور اس کے لیے توبہ و استغفار کیا جائے۔