تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۲۲۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اُترتے ہیں ہر بڑے بہتان والے گناہگار پر۔(پ19،الشعراء:222)

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر

ہمارے معاشرے کی بڑی اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائى الزام تراشی اور تہمت لگانا ہے۔ کسی پر بہتان باندھنا انتہائی سنگین جرم ہے جس طرح ترک صوم و صلوٰۃ، جھوٹ، غیبت، چغلی، شراب نوشی وغیرہ حرام و گناہِ کبیرہ ہیں۔ ویسے ہی دنیوی غرض کے لیے یا یونہی کسی مسلمان پر بے بنیاد الزام عائد کرکے ذلیل وخوار کرنا حرام و گناہِ کبیرہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے جس کی قراٰن و حدیث میں بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ۔بہتان کا لغوی معنی: بَهِتَ (س) بَهَتاً : ہکا بکا رہ جانا، چونک پڑنا، متحرک ہوکر خاموش ہوجانا، دلیل سے مغلوب ہوکر رنگ پھیکا پڑجانا۔ (المعانی) اصطلاحی معنی: غیبت کے یہ معنی ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے ۔(بہار شریعت، 3/535) یعنی کسی بے قصور شخص پر اپنی طرف سے گھڑ کر کسی عیب کا الزام لگانا یہ بہتان ہے۔

(1) چنانچہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)

(2) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936) (3)صحیح مسلم شریف میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مملوک پر زنا کی تہمت لگائے، قیامت کے دن اس پر حد لگائی جائے گی مگر جبکہ واقع میں وہ غلام ویسا ہی ہے، جیسا اس نے کہا۔(صحیح مسلم،کتاب الأیمان،باب التغلیظ علی من قذف ۔۔۔ إلخ،ص905،حدیث: 1660)

(4) عبدالرزاق عکرمہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں ایک عورت نے اپنی باندی کو زانیہ کہا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے زنا کرتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا، نہیں ۔ فرمایا: قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! قیامت کے دن اس کی وجہ سے لوہے کے اَسی ۸۰ کوڑے تجھے مارے جائیں گے۔(المصنّف،لعبدالرزاق،کتاب العقول) (5) ابو داؤد نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان کی سب چیزیں مسلمان پر حرام ہیں اس کا مال اور اس کی آبرو اور اس کا خون آدمی کو برائی سے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔( سنن أبي داؤد، کتاب الأدب، باب من رد عن مسلم غیبۃ،4/355، حدیث: 4883)

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بہتان تراشی نہایت قبیح و شنیع عمل ہے اور مسلمان کا احترام و اکرام اس کی عزت و آبرو کی حفاظت لازم و ضروری ہے لیکن افسوس! ہمارے معاشرے میں لوگوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے سرو پا باتیں سنتے ہیں اور انکو آگے بڑھانے میں کچھ تأمل نہیں کرتے حالانکہ حدیثِ پاک میں آتا ہے آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے ۔ یہ طرزِ عمل اسلامی احکام کے برخلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایساطرزِ عمل اپنائے۔

لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔

اللہ پاک مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین