جھوٹ بولنا غیبت کرنا گناہ کبیرہ میں سے ہیں جن کے حوالے سے صریح طور پر وعیدات وارد ہوئی ہیں یہ دونوں گناہ مذموم تو ہیں ہی مگر اس سے انتہائی سخت اور بدتر گناہ بہتان تراشی ہے کیونکہ اس سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے، اس لیے یہ ایک الگ کبیرہ گناہ میں شمار ہوتا ہے۔کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔(حدیقہ نديہ، 2/ 200) اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بُرائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے یا رُوبَرو وہ برائی اس کی طرف منسوب کردی تو یہ بُہتان ہوا، مثلاً پیچھے یا منہ کے سامنے ریاکار کہہ دیا اور وہ ریاکار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو کیوں کہ ریاکاری کا تعلق باطنی امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریاکار کہنا بہتان ہوا۔ کسی مسلمان کو تہمت لگانی حرامِ قطعی ہے خصوصاً مَعَاذَاﷲ اگر تہمتِ زنا ہو۔(فتاویٰ رضویہ،24/386) قرآن و حدیث میں اس کی نہ صرف مذمت بیان ہوئی بلکہ کئی وعیدات بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہیں، چنانچہ

1۔ حضور ﷺنے گناہ کبیرہ کی فہرست بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ پاک دامن مومن انجان عورتوں کو تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری،2/242،حدیث:2766)

2۔حضورﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مَناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تُہمت لگانےوالے ہیں۔ (شرح الصدور، ص182)

3۔جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وَقت تک ردغۃ الخبال (دوزخیوں کے کیچڑ، پِیپ اور خون) میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(سنن ابی داود،3/427،حدیث:3597)

4۔میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کوگالی دی ہو گی،فُلاں پر تہمت لگائی ہو گی،فُلاں کا مال کھایا ہو گا،فُلاں کا خون بہایا ہو گا اورفُلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم،ص1069،حدیث:6578)

5۔جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا۔(معجم الاوسط، 6/327،حدیث:8936)

تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس گناہ سے باز رہنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ پاک سے اس سے بچنے کی دعا کرتے رہیں اس کی صورتوں کے حوالے سے علم حاصل کریں اور مسلمان کا احترام بجا لائیں،اور اگر یہ گناہ سرزد ہو چکا تو توبہ کے ساتھ اس سے معافی طلب کریں۔اللہ پاک ہمیں اس گناہ سے بچائے۔ آمین