مسلمانوں کے پہلے خلیفہ عاشق رسول،عاشق اکبر، امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بہت بلند ہستی ہیں، حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بہت محبت فرماتے تھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول پاک ﷺ کے سب سے پیارے دوست اور ساتھی تھے۔آپ کا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے۔ جانِ ایمان،نبیوں کے سلطان ﷺ نے فرمایا: ابو بکر سے محبت کرنا،ان کا شکریہ ادا کرنا میری ا مت پر واجب ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا کہ جسے دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا ہو وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔ (معجم اوسط، 6/456، حدیث: 9384)

حضور ﷺ نے فرمایا اے ابوالحسن(یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:)میرے نزدیک ابو بکر کا وہی مقام ہے جو اللہ پاک کے ہاں میرا مقام ہے۔ (الریاض النضرۃ،1/185)

مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے،مگر ابو بکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک روز قیامت انہیں عطا فرمائے گا۔ (ترمذی،5/374، حدیث:3681) ابو بکر دنیاوآخرت میں میرا بھائی ہے، اللہ پاک اس پر رحم فرمائے اور اللہ کے رسول کی طرف سے بہتر جزا دے کہ اس نے اپنی جان و مال سے میری مدد کی ہے۔ (الریاض النضرۃ، 1/131)

ایک مرتبہ آپ ﷺ نے داہنے دست اقدس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ لیا اور بائیں دست مبارک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ لیا اور فرمایا:ہم قیامت کے روز یو ہیں اٹھائے جائیں گے۔ (ترمذی،5/378،حدیث:3689)

حضور ﷺ ایک دن اپنی مرض وفات کے دنوں میں سر مبارک پر پٹی باندھ کر تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ کر حمد و ثنا بیان کی،پھر فرمایا:لوگوں میں ابو بکر کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس نے اپنی جان اور مال کے ذریعے مجھ پر بہت احسان کیے ہو،اگر میں لوگوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بنا سکتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا لیکن اسلام کی اخوت سب سے بہتر ہے،پھر آپ نے حکم دیتے ہوئے فرمایا:ابو بکر کے دروازے کے سوا اس مسجد کے تمام دروازے بند کر دو۔ (بخاری، 2/591،حدیث:3904)

جب رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو منبر پر چڑھے اور اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا:لوگو!بے شک ابو بکر نے کبھی مجھے تکلیف نہیں دی پس تم ان کا مرتبہ پہچانو۔لوگو!میں ان سے راضی ہوں۔ (الخلفاء الراشدین، ص 42)

نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان بہت گہری محبت تھی۔ ایسی محبت جو کہ اس دنیا سے پردہ فرما لینے کے بعد بھی برقرار رہی کہ آج بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پیارے آقا جان ﷺ کے پہلو میں مدفون ہیں۔ قربان جائیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان پر!

یقیناً منبع خوف خدا صدیق اکبر ہیں حقیقی عاشق خیرالوریٰ صدیق اکبر ہیں

جو یار غار محبوب خدا صدیق اکبر ہیں وہی یار مزار مصطفےٰ صدیق اکبر ہیں

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بعد انبیائے کرام علیہم السلام سب سے افضل بشر ہیں۔ آپ کی محبت اور عزت ہر مسلمان پر لازم ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بے پناہ محبت نصیب فرمائے۔ آئیے مل کر دعا کرتے ہیں:

الٰہی رحم فرما!خادم صدیق اکبر ہوں تری رحمت کے صدقے،واسطہ صدیق اکبر کا


حضرت ابو بکر صدیق کا اسم گرامی عبد اللہ ہے آپ کا نسب حضور ﷺ کے نسب پاک سے مرہ میں ملتا ہے آپ کا لقب عتیق اور صدیق ہے۔

محبت صدیق اکبر کی جھلکیاں حدیث مبارکہ سے:

حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ایک روز میں مکان میں تھی اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب صحن میں تھے میرے اور ان کے درمیان پردہ پڑا تھا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو حضور انور ﷺ نے فرمایا: جس کو عتیق من النار کو دیکھنا اچھا معلوم ہو تو وہ ابو بکر کو دیکھے اس روز سے آپ کا لقب عتیق ہوا۔ (مسند یعلی، 4/272، حدیث:4878)

دار قطنی و حاکم ابو یعلیٰ سے روایت ہے کہ میں شمار نہیں کر سکتا کتنی مرتبہ میں نے علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو بر سر منبر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ پاکٰ نے اپنے نبی کی زبان پر ابو بکر کا نام صدیق رکھا۔ (تاریخ الخلفاء، ص 23)

حضور ﷺ کی محبت نماز میں بھی: ابن ابو خیشمہ نے یہ سند صحیح زید بن ارقم سے روایت کی کہ سب سے پہلے حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے والے صدیق اکبر ہیں۔ (فصل فی اسلام، ص 25)

حضور ﷺ کی آپ رضی اللہ عنہ سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے ایمان لانے سے لے کر تادم آخر تک حضور ﷺ کی صحبت سے فیض یاب رہے تمام مشاہدات میں حضور انور ﷺ کے ساتھ حاضر رہے حضور ﷺ کے ساتھ ہجرت کی اور اپنے اہل وعیال کو خدا اور رسول کی محبت کے لئے چھوڑ دیا اسلام لانے کے وقت آپ کے پاس 40ہزار دینار تھے جو اسلام کی حمایت میں خرچ فرمائے۔

حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ہم پر کسی شخص کا احسان نہ رہا ہم نے سب کا بدلہ کردیا سوائے ابو بکر کے کہ ان کا بدلہ اللہ روز قیامت عطاء فرمائے گا اور مجھے کسی کے مال نے وہ نفع نہیں دیا جو ابو بکر کے مال نے دیا۔ (ترمذی،5/374،حدیث:3681)

صدیق اکبر کی فضیلت: اہلسنت کا اجماع ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام عالم میں افضل ابو بکر صدیق ہیں

حضرت ابو بکر صدیق کی شان میں بکثرت آیتیں نازل ہوئی جن سے آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل جلیلہ معلوم ہوتے ہیں۔

فضیلت بزبان مصطفی ﷺ: ترمذی میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے صدیق اکبر سے فرمایا: تم میرے صاحب ہو کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔ (ترمذی،5 / 378 ،حدیث: 3690)

رسول کی محبت اور بغض صدیق: رسول اکرم ﷺ کے لئے سب سے بہتر ابو بکر وعمر ہیں ایک دل میں حضور ﷺ کی محبت اور ابو بکر و عمر کا بغض جمع نہیں ہو سکتا کیونکہ حضور ﷺ کو ابو بکر سے محبت ہے۔

حضور ﷺ کا ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ حضور ﷺ کے مبارک قدموں میں مدفون ہوئے۔ سبحان اللہ کتنے خوش نصیب ہیں صدیق اکبر خود صحابی،والد صحابی، بیٹے صحابی،پوتے صحابی اور بیٹی ام المومنین ہے۔

زہے نصیب صدیق اکبر کے کہ حضور اکرم ﷺ نے آپ کی شان میں فرمایا: صدیق اکبر صحابہ میں سب سے اعلیٰ واذکیٰ ہیں۔


حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہیں آپ رضی اللہ عنہ رسول کریم ﷺ کے پیارے دوست اور ساتھی تھے۔آپ کا شمار ان چارخوش نصیبوں میں ہوتا ہے جو رسول اللہ ﷺ پر پہلے ایمان لائے اور آپ رضی اللہ عنہ نے بہت سادہ زندگی بسر کی۔اور آپ رضی اللہ عنہ دل کھول کر راہ خدا میں خرچ کیا کرتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی آپ ﷺ کے نکاح میں دی۔آپ بہت سچے اور کھرے انسان تھے اور آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا اور گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ اللہ پاک کے سچے رسول ہیں اس لئے آپ کو صدیق کا لقب ملا۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس طرح میرے لئے میری آنکھیں اور کان ہے اس طرح ابو بکر بھی میرے لئے یہی حثیت رکھتا ہے جس طرح بندہ آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا ہے فرمایا ابو بکر تو بھی میرے لئے اس طرح ہے گویا میں تیری صورت میں ہی دنیا کو دیکھتا ہوں آپ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بہت پیار کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے ہجرت کے وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مختص فرمایا اور یہ شرف تمام صحابہ کرام میں سے آپ کو ہی ملا رسول اللہ ﷺ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی اور تمام صحابہ میں حضرت ابو بکر صدیق،سول کریم ﷺ کے زیادہ قریب تھے اس لئے آپ ﷺ کے بعد خلافت کے حق دار بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے حضور ﷺ نے اپنے مرض وصال میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی نماز پڑھانے کے لئے منتخب فرمایا اور کسی دوسرے صحابی کو اس کی اجازت نہ تھی آپ یار غار بھی ہیں اور یار مزار بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی نظر میں جو اتنے محبوب اور مکرم ہوئے اور یہ سب کچھ اس وجہ سے تھا کہ حضرت ابو بکر رسول ﷺ کے مثالی اور سچے ساتھی تھے۔میری جان کی قسم!رسول ﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وہ مثالی محبت ہے۔ جسے اللہ اور رسول پر ایمان رکھنے والے ہر شخص پر اختیار کرنا لازم اور ضروری ہے۔

نہایت متقی و پارسا صدیق اکبر ہیں تقی ہیں بلکہ شاہ اتقیا صدیق اکبر ہیں

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں اپنا خلیل بناتا تو ضرور ابو بکر کو ہی اپنی خلیل بناتا۔ (ترمذی، 5/373، حدیث:3680)

نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ مجھے کسی مال نے اتنا فائدہ نہ دیا جتنا ابو بکر کے مال نے دیا۔ (ابن ماجہ، 1/ 72، حدیث:11)


حضور ﷺ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے درمیان بے مثال محبت اور عقیدت کا رشتہ تھا۔حضور ﷺ کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت تھی۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔وہ نبی کریم ﷺ کے سچے عاشق اور وفادار ساتھی تھے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے یار غار تھے۔وہ حضور ﷺ کے ساتھ رہےاور آپ کی ہر بات کی تصدیق کی۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے شخص جنہوں نے اسلام قبول کیا اور نبی کریم ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔ وہ نبی کریم ﷺ کے سب سے زیادہ قریب ساتھیوں میں سے تھے اور ہجرت کے موقع پر بھی آپ کے ساتھ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے صدیق اکبر سے بے پناہ اپنی محبت کا اظہار فرمایا اور قریبی دوست قرار دیا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی اطاعت کی اور ان کے ہر حکم پر لبیک کہا۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق بنے اور مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ ان کی زندگی نبی کریم ﷺ سے محبت اور اطاعت کی بہترین مثال ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے شمار فضائل سے نوازا تھا۔

محبت کا اظہار:نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فرمایا اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو صدیق اکبر کو بناتا۔ (بخاری، 2/591،حدیث:3904)یہ کہہ کر اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ شان صدیق اکبر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں اور ہم سے زیادہ بہتر ہیں اور رسول ﷺ کے نزدیک ہم میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ (ترمذی،5/372، حدیث:3676)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سب سے مشہور لقب صدیقہے۔جس کا مطلب سچایا تصدیق کرنے والا۔ انہیں یہ لقب اس لئے دیا گیا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے رسول ﷺ کے نبی اور رسول ہونے کی تصدیق کی تھی۔ان کا ایک اور لقب عتیق ہے جس کا مطلب جہنم سے آزاد۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ حضور جان عالم ﷺ کے تمام صحابہ کرام سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس محبت سے سبق لیں اور ان کی سیرت کو اپنائیں۔ آمین


اسلام کی تاریخ میں بہت سی خوبصورت اور سچی دوستیوں کی مثالیں ملتی ہیں لیکن سب سے بہترین اور سچی دوستی نبی کریمﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے۔

حضرت ابو بکر صدیق نبی کریمﷺ کے سب سے قریبی ساتھی اور پہلے مرد مسلمان تھے۔وہ ہر وقت رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتے ان کا ساتھ دیتے اور کسی بھی مشکل میں ان کا ساتھ نہ چھوڑتے تھے۔

نبی کریمﷺ بھی حضرت ابو بکر صدیق سے بہت محبت کرتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ کو یار غار یعنی غار کے ساتھی کا لقب ملا۔کیونکہ جب نبی ﷺ ہجرت کر کے مدینہ جا رہے تھے تو حضرت ابو بکر صدیق ہی ان کے ساتھ تھے۔

یہ محبت صرف دو دوستوں کے درمیان نہ تھی،بلکہ یہ دین،اخلاص اور سچائی پر مبنی ایک عظیم رشتہ تھا۔نبی کریمﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق سے محبت ہمیں سکھاتی ہے کہ سچے دوست وہی ہوتے ہیں جو دین اور اچھائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ اللہ قرآن کریم کے پارہ 10 سورہ توبہ کی آیت نمبر 40 میں ارشاد فرماتا ہے: لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰) ترجمہ کنز الایمان: غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ(اطمینان)اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھی اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت مبارکہ میں تاجدار رسالت ﷺ کے عظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیت مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم ﷺ کے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم ﷺ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا،یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر آپ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ (تفسیر کبیر،6/50)

رحمت عالمیان،مکی مدنی سلطان،محبوب رحمٰن ﷺ کا فرمان حقیقت نشان ہے: مجھے کبھی کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو ابو بکر کے مال نے دیا بارگاہ نبوّت سے یہ بشارت سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رو دئیے اور عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ میں اور میرے مال کے مالک آپ ﷺ ہی تو ہیں۔ (ابن ماجہ، 1/72، حدیث: 94)

وہی آنکھ ان کا جو منہ تکے وہی لب کہ محو ہوں نعت کے

وہی سر جو ان کے لئے جھکے وہی دل جو ان پہ نثار ہے

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مبارک عقیدہ بھی یہی تھا کہ ہم محبوب ربّ الانام ﷺ کے غلام ہیں اور غلام کے تمام مال و منال کا مالک اس کا آقا ہی ہوتا ہے ہم غلاموں کا تو اپنا ہے ہی کیا؟

کیا پیش کریں جاناں کیا چیز ہماری ہے یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے

وفاداری کی قدر کریں: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہر مشکل گھڑی میں حضورﷺ کا ساتھ دیا اور حضور ﷺ نے ان کی وفاداری کو سراہا اور ان سے بے پناہ محبت کی۔

دوستی میں قربانی ضروری ہے: جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سب کچھ دین کے لئے قربان کیا ویسے ہی حضورﷺ نے بھی ان کے لئے دعا،عزت اور قربت عطا فرمائی۔

اللہ سے دعا ہے کہ حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سچی دوستی کا واسطہ ہمیں بھی ان کی سچی، حقیقی محبت عطا فرمائے۔ آمین


جن خوش نصیبوں نے ایمان کے ساتھ حضور ﷺ کی صحبت پائی چاہے یہ صحبت ایک لمحے کے لئے ہی ہو اور پھر ایمان پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہا جاتا ہے۔یوں تو تمام ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل،متقی،پرہیزگار اپنے پیارے آقا ﷺ پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الٰہی کی خوش خبری پانے کے ساتھ ساتھ بے شمار فضائل وکمالات رکھتے ہیں لیکن ان مقدس حضرات کی طویل فہرست میں سر فہرست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔

حضور کی ابوبکر سے محبت پر احادیث:

(1)اے ابو الحسن میرے نزدیک ابو بکر کا وہی مقام ہے جو اللہ پاک کے ہاں میرا مقام ہے۔(الریاض النضرة،1/185)

(2) مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہ دیا جتنا ابو بکر صدیق کے مال نے دیا۔ (ابن ماجہ، 1/72، حدیث: 94)

(3) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ نے مجھے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوا دیکھا تو ارشاد فرمایا: اے ابودرداء! کیا تم ابو بکر کے آگے چلتے ہو حالانکہ انبیاء مرسلین علیہم السلام کے بعد ابو بکر سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع و غروب نہیں ہوا۔ (فضائل الصحابہ، ص 187، حدیث: 135)

(4) مسجد میں ابو بکر صدیق کے دروازے کے علاوہ سارے دروازے بند کر دو۔ (بخاری،1/177، حدیث: 466)

(5) جو جہنم سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔(معجم اوسط،6/456، حدیث: 9384)

(6)ابو بکر کی محبت اور ان کا شکر میری تمام امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 44)

(7)مجھے آسمانوں کی سیر کرائی گئی بس میرا جس آسمان سے گزر ہوا میں نے وہاں اپنا نام لکھا ہوا پایا اور اپنے بعد ابو بکر کا نام بھی لکھا ہوا پایا۔ (مجمع الزوائد، 9/19، حدیث: 14496)

(8) مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے مگر ابو بکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک روز قیامت انہیں عطا فرمائے گا۔ (ترمذی،5/374،حدیث:3681)

(9)ابو بکر دنیا و آخرت میں میرا بھائی ہے اللہ پاک اس پر رحم فرمائے اور اللہ کے رسول کی طرف سے اسے بہتر جزا دے کہ اس نے اپنی جان و مال سے میری مدد کی۔ (ریاض النضرۃ، 1/131)

(10)ابو بکر کو کسی کو فضیلت مت دو کیونکہ وہ دنیا و آخرت میں تم سب صحابہ سے افضل ہے۔(ریاض النضرۃ، 1/37)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حضور ﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت ایک مثالی اور بے مثال محبت تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے صدیق کا لقب عطا فرمایا اور یہ لقب انہیں اللہ کی طرف سے ملا تھا۔ حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور ان پر بے حد اعتماد فرماتے تھے۔ کچھ اہم پہلو جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کتنی محبت کرتے تھے۔

غار ثور میں ساتھ: ہجرت کے وقت جب نبی کریم ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ رکھا اور وہ دونوں غار ثور میں چھپے رہے یہ واقعہ دونوں کی گہری محبت اور اعتماد کی ایک روشن مثال ہے۔

نماز کی امامت: نبی کریم ﷺ کی بیماری کے دوران آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر کتنا بھروسہ کرتے تھے۔

حضور ﷺ اکثر معاملات میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرماتے تھے اور ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس قدر رسول کریم ﷺ سے فیض حاصل کیا وہ کسی اور صحابی کو نصیب نہ ہوا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے آقا کریم ﷺ کے ساتھ سفر و حضر میں دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں زیادہ وقت گزارا اور خصوصاً سفر ہجرت کے قرب و صحبت کی تو کوئی برابری کر ہی نہیں سکتا کہ ایام ہجرت میں بلا شرکت گہرے قرب و فیضان مصطفی ﷺ سے تن تنہا فیض یاب ہوتے رہے اسی لئے عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسی ہستی نے تمنا کی تھی کہ کاش!میرے سارے اعمال ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک دن اور ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ان کی رات تو وہ جس میں آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غار ثور تک پہنچے آقا کریم ﷺ سے پہلے غار میں جا کر سوراخوں کو اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دیئے وہاں سے سانپ نے ڈس لیا تب بھی نبی کریم ﷺ کے آرام کی خاطر پاؤں نہ ہٹایا اور(کاش کہ میرے اعمال کے مقابلے میں مجھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایک دن مل جائے)ان کا وہ دن جب رسول ﷺ کے وصال کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہو گئے اور کئی قبیلوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تو ان نازک و کمزور حالات میں آپ رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کو غالب کر کے دکھایا(یہ فرمان عمر فار وق رضی اللہ عنہ کا معنوی خلاصہ ہے)۔ (خازن،2/244)

آپ رضی اللہ عنہ کا رسول ﷺ کا ساتھی ہونا خود اللہ پاک نے قرآن مجید میں بیان فرمایا یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا۔

صدیق اکبر کے گھر رسول اللہ کی روزانہ آمد: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے مابین ایسی گہری دوستی تھی کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر روزانہ تشریف لاتے تھے، چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جس کی صبح و شام رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں۔ (بخاری،1/180، حدیث:476)

ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم ﷺ ظہور اسلام سے قبل بھی ایک دوسرے کے دوست تھے۔ (ریاض النضرۃ،1/84)

اسلام قبول کرنے کے بعد ہجرت مدینہ تک آپ رضی اللہ عنہ اسلام کی مالی خدمت کرتے رہے لہذا ہجرت کے وقت آپ کے پاس کل مال پانچ یا چھ ہزار درہم تھا جو آپ نے اپنے ساتھ لے لئے اور رسول اللہ ﷺ پر صرف کر دیئے۔ (السیرۃ النبویۃلابن ھشام، 1/441)

یارِ غار و یارِ مزار،خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام مبارک عبد اللہ،کنیت ابو بکر اور لقب عتیق وصدیق ہے صدیق کے معنی ہے زیادہ سچ بولنے والے اور عتیق کے معنی ہے آزاد۔ عتیق کا لقب نبی کریم ﷺ نے صدیق اکبر کو بشارت دیتے ہوئے عطا فرما یا کہ تم جہنم سے آزاد ہو۔

نبی کریم ﷺ صدیق اکبر سے بہت محبت فرماتے تھے، تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ نے صدیق اکبر سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔ آئیے اس متعلق ایک حدیث پاک ملاحظہ فرماتے ہیں، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان مال اور محبت میں ابو بکر کا ہے اگر میں(خدا کے علاوہ)کسی کو خلیل(یعنی دوست)بناتا تو ابو بکر کو بناتا،لیکن اسلام کی اخوت باقی ہے۔ (مسلم، ص 501، حدیث: 1459)

سبحان اللہ قربان جائیے آقا ﷺ کے انداز پر کس قدر خوبصورت انداز میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار فرما رہے ہیں جس شخص کے دل میں حضور اکرم ﷺ کی محبت ہوتی ہے تو اسے دونوں جہاں کی بھلائیاں نصیب ہو جاتی ہیں قربان جائیں صدیق اکبر کی شان پر کہ خود نبی اکرم ﷺ ان سے محبت کا اظہار فرما رہے ہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں شریک رہے،غار میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تین دن رات تک قیام کیا اور ہر موقع پر آپ ﷺ کا ساتھ دیا۔

ایک موقع پر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ لوگوں میں سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے؟ فرمایا:عائشہ رضی اللہ عنہا سے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی مردوں میں سے؟ فرمایا: ان کے والد سے۔ (مسلم، ص 502، حدیث: 1466)

سبحان اللہ قربان جائیے ابو بکر صدیق کی شان پر کہ نبی کریم ﷺ کو ان سے اتنی محبت تھی کہ فرما رہے ہیں کہ لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب صدیق اکبر ہے اسی طرح جب صدیق اکبر نے اذان میں حضور اکرم ﷺ کے نام مبارک کو سنا اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگائے تو حضور ﷺ نے فرمایا:٫٫ جو شخص میرے اس پیارے دوست کی طرح کرے تو اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوگئی۔ (فیضان صدیق اکبر، ص 187)

اسی طرح بہت سی احادیث میں نبی کریم ﷺ نے صدیق اکبر کو دوست کہہ کر مخاطب کیا اور صدیق اکبر سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔

اللہ کریم ہمیں بھی صدیق اکبر سے محبت کرنے اور ان کا طریقہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین


حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبد اللہ کنیت عقیق و ابو بکر ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کو عاشق اکبر بھی کہا جاتا ہے۔سب سے پہلے آپ ہی اسلام لائے۔آپ اور آپ کے ماں،باپ،آپ کی ساری اولاد اور آپ کی اولاد کی اولاد تمام کے تمام صحابی ہیں یہ شرف کسی کو نصیب نہیں ہوا۔آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کی طرح بے شمار ہیں۔آپ کے وصال ظاہری کے بعد سب سے پہلے خلیفہ آپ ہی تھے۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: سارے انسانوں میں مجھ پر بڑا احسان کرنے والے اپنی صحبت و مال میں ابو بکر ہیں اور اگر میں کسی کو ولی دوست بناتا تو میں ابو بکر کو دوست بناتا لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسکی دوستی ہے۔ مسجد میں کوئی کھڑکی نہ رکھی جائے سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے دوسری روایت میں یوں ہے کہ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر کو دوست بناتا۔ (مراة المناجيح، 8/290)

حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں ذات سلاسل کے لشکر پر امیر بنا کر بھیجا۔ فرماتے ہیں کہ میں آقا ﷺ کے پاس آیا میں نے کہا: لوگوں میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟آپ نے فرمایا: عائشہ۔ میں نے کہا مردوں میں؟فرمایا: ان کے والد۔ میں نے عرض کیا پھر کون؟ فرمایا: عمر۔ پھر حضور نے چند حضرات گنائے تو میں چپ ہو گیا اس خوف سے کہ مجھے ان سب کے آخر میں کر دیں۔ اس حدیث مبارکہ میں ان کے والد سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔

حضور نے ابو بکر سے فرمایا کہ تم میرے غار میں ساتھی ہو اور حوض پر میرے ساتھی ہو۔ (ترمذی،5 / 378، حدیث: 3690)

غار سے مراد یا تو غار ثور ہے جہاں ہجرت کے موقع پر 3 دن حضور کے ساتھ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قیام فرمایا یا مراد قبر ہے۔پہلا احتمال قوی ہے رب تعالیٰ فرماتا ہے: اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰) (پ 10، التوبۃ: 40) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ(اطمینان)اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھی اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔حضرت صدیق اکبر کی صحابیت قطعی یقینی ہے اس کا انکار کفر ہے کیونکہ یہ قرآن سے ثابت ہے۔ یعنی دونوں جہان میں تم میرے خاص ساتھی ہو جس ہمراہی میں کسی کی شرکت نہیں ورنہ حضور کے سارے غلام حوض پر حضور کے ساتھ ہوں گے

(ترمذی،5 / 378 ،حدیث: 3690) اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

یعنی اس افضل الخلق بعد الرّسل ثانی اثنین کی ہجرت پر لاکھوں سلام

جمادی الاخر کی بائیس تاریخ منگل کی شب 13 ھ میں مغرب و عشا کے درمیان مدینہ منورہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ بلا فصل حضور کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔اللہ پاک ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے اور ہمارے دل کو پیارے آقا ﷺ کی محبت میں میٹھا مدینہ بنائے۔ آمین


نبی پاک ﷺ نے اپنے جس صحابی میں جس خوبی کو ممتاز پایا تو اسی وصف میں اسے کامل بنایا لہذا اپنے پیارے صحابی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں صدیق بننے کی صلاحیت کو واضح طور پر محسوس کیا تو اسی وصف میں ان کو ممتاز و کامل فرمایا اور اس وصف کے سب سے زیادہ مستحق بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں اور اس وصف کو آپ رضی اللہ عنہ نے زندگی کے ہر معاملے میں نمایاں فرمایا، آپ کے ہر فعل سے اس کا خوب مظاہرہ ہوا اور ہوتا بھی کیوں نہ کہ آپ اللہ کے حبیب ﷺ کے محبوب مقرب دوست جو ہیں!

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہے یار کار محبوب خدا صدیق اکبر کا

تمام لوگوں سے افضل: سرکار اقدس ﷺ نے فرمایا: سوائے نبی کے اور کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس پر آفتاب طلوع اور غروب ہوا ہو اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل ہو۔ (فضائل الصحابہ، ص 187، حدیث: 135)

سب سے پہلے داخل جنت: نبی کر یم ﷺ نے فرمایا: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے یعنی اے ابو بکر سن لو میری امت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہو گے۔ (ابو داود، 4/280، حدیث: 4652)

آپ کی محبت واجب ہے:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر ادا کرنا میری امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص، 40)

میرے یار کا مرتبہ تم کیا جانو: حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کچھ سخت کلامی کی مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی قرابت داری کا خیال کرتے ہوئے حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کو کچھ نہیں کہا اور حضور ﷺ کی خدمت میں پورا واقعہ بیان کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پورا ماجرہ سن کر نبی پاک ﷺ مجلس میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو سن لو!میرے دوست کو میرے لئے چھوڑ دو تمہاری حیثیت کیا ہے؟ اور ان کی حیثیت کیا ہے تمہیں کچھ معلوم ہے خدا کی قسم تم لوگوں کے دروازوں پر اندھیرا ہے مگر ابو بکر کے دروازے پر نور کی بارش ہو رہی ہے خدائے ذوالجلال کی قسم تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور ابوبکر صدیق نے میری تصدیق کی تم لوگوں نے مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ابو بکر نے میرے لئے اپنا مال خرچ کیا اور تم لوگوں نے میری مدد نہیں کی مگر ابو بکر نے میری غم خواری کی اور میری اتباع کی۔ (تاریخ الخلفاء، ص 37)

محبت ایک لازوال جذبہ ہے جسے اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے لیکن جب محبت کا تعلق ان ہستیوں سے ہو جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے محبوب بنایا،تو وہ محبت عبادت بن جاتی ہے۔محبت کے بہت سے پہلو ہیں جس کا ایک پہلو دوستی ہے۔ایسے ہی ایک عظیم رفیق،محسن اور محبوب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں، جن سے سرکار دو عالم کو خاص محبت تھی۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔حضرت ابو بکر صدیق کو رسول اللہ ﷺ کا یارغار بھی کہا جاتا ہے۔جنہوں نے ہر گھڑی میں اپنے محبوب کا ساتھ دیا۔

نبی ﷺ کو اپنے یارغار سے بہت محبت تھی، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے نہ صرف حضور ﷺ محبت فرماتے تھے بلکہ رب تعالیٰ بھی ان سے محبت فرماتا ہے۔قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰) (پ 10، التوبۃ: 40) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ(اطمینان)اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھی اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں لفظ صاحب سے مراد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ آیت مبارکہ کے علاوہ بے شمار احادیث میں آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات بیان کیے گئے ہیں۔جیسا کہ امام ترمذی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں،رسول پاک ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق سے فرمایا:تم حوض کوثر پر اور غار میں میرے ساتھی ہو۔ (ترمذی،5/378،حدیث:3690)

ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا:اگر میں اللہ کے سوا کسی کو اپنا خلیل بناتا تو صدیق اکبر کو بناتا۔ (ترمذی، 5/373،حدیث:3680)

یہ الفاظ اس محبت کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں جو آپ کے دل میں صدیق اکبر کے لئے تھی۔

ایک دفعہ سرکار کائنات ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا: جہاں محبت ہو وہاں کم آیا کرو تو صحابہ کرام علیہم الرضوان آتے ہیں نماز پڑھتے اور چلے جاتے صدیق اکبر بھی ایسے ہی کرتے ایک دن نبی ﷺ نے صحابہ سے پوچھا:ابو بکر کہاں مصروف ہیں آج کل؟ تو صحابہ کرام عرض کرنے لگے: وہ باغ میں کام کر رہے ہیں۔ فرمایا: جاؤ انہیں بلا کر لاؤ جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو نبی ﷺ نے اپنا رخ زیبا پھیر لیا۔جب صدیق اکبر نے چہرہ انور کی طرف دیکھا تو نبی ﷺ کی آنکھوں سے آنسو آ رہے تھے پوچھا:اے ابو بکر!تم اتنے دن سے کہاں تھے،عرض کی آپ نے خود ہی فرمایا تھا کہ جہاں محبت ہو وہاں کم آیا کرو تو نبی ﷺ نے فرمایا:اے ابو بکر تم دوسرے صحابہ کی طرح نہیں ہو۔جب تم میری بارگاہ سے چلے جاتے ہو تو میری ساری توجہ تمہاری طرف ہو جاتی ہے اور جب تم میرے پاس ہوتے ہو تو میری ساری توجہ اللہ پاک کی طرف ہو جاتی ہے۔

عمر بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: آپ سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں؟ فرمایا:عائشہ کے ابا ابو بکر صدیق سے۔میں نے پوچھا:ان کے بعد کس سے زیادہ محبت کرتے ہیں؟آپ نے فرمایا:عمر سے۔ (بخاری، 2/519، حدیث:3662)

نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری ایام میں ارشاد فرمایا:مسجد نبوی شریف میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے مگر ابو بکر کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔ (بخاری، 1/177، حدیث:466)

بس ایک ہی در کھلے مسجد نبوی میں یہ افتخار ہے ابن ابی قحافہ کا

ایک دفعہ صدیق اکبر نے اذان میں حضور ﷺ کے نام محمد کو سنا اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگائے تو حضور ﷺ نے فرمایا:جو شخص میرے اس پیارے دوست کی طرح کرے اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو گئی۔ (فیضان صدیق اکبر،ص 187)

ابن عساکر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کا شکر میری تمام امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 44)

یوں تو دنیا میں کئی رشتے ہیں لیکن حضور ﷺ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا تعلق بے مثال و بے نظیر ہے نبی علیہ السلام نے جہاں صدیق اکبر کو اپنی محبت کا شرف بخشا وہیں صدیق اکبر نے بھی اپنی ساری زندگی محبت رسول ﷺ میں فنا کردی۔

شان صدیق اکبر پہ قربان میں رازدارِ رسالت کی کیا بات ہے

جس کو صدیق ہے مصطفی نے کہا اس سراپا صداقت کی کیا بات ہے

اللہ پاک ہمیں بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسی سچی اور بے لوث محبت عطا فرمائے اور ہمیں آقا ﷺ کا سچا پیروکار بنائے۔ آمین


پیارے آقا ﷺ اپنے یار غار سے بہت محبت کرتے تھے۔ سب سے پہلے پیارے آقا ﷺ نے حضرت صدیق اکبر کو بے شمار القابات عطا فرمائے۔

عتیق و صدیق دو خاص القابات: حمایت مصطفی ﷺ میں چاروں پہر رہنے والے صدیق اکبر کو بارگاہ رسالت سے جو القابات ملے ان میں سے ایک لقب عتیق ہے۔

ام المو منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے فرماتی ہیں:میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرماتھے،میرے اور ان کے مابین چارپائی رکھی تھی،اچانک میرے والد گرامی امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لےآئے تو حضور نبیٔ کریم ﷺ نے ان کی طرف دیکھ کراپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا: جسے دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا ہو وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔ اس کے بعد سے آپ عتیق مشہور ہوگئے۔ (معجم اوسط، 6/456، حدیث: 9384)

صرف ابو بکر کا دروازہ کھلا رہے گا:نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا:مسجد(نبوی)میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے،مگر ابو بکر کادروازہ بند نہ کیا جائے۔

جنّت میں پہلے داخلہ:حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جبریل امین علیہ السّلام میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امّت جنّت میں داخل ہوگی۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یارسول اللہ!میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا،تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:ابو بکر! میری امّت میں سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہوگے۔ (ابو داود، 4/280، حدیث: 4652)

ایک روایت حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ آپ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ امیر المومنین حضرت علی المرتضی شیر خدا کرّم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ کھڑے تھے اور آپ خوش طبعی فرما رہے تھے، ہم نے ان سے عرض کیا: اپنے دوستوں کے بارے میں کچھ ارشادفرمائیے؟فرمایا:رسول اللہ ﷺ کے تمام اصحاب میرے دوست ہیں۔ہم نے عرض کی:حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتائیے؟ فرمایا: ان کے تو کیا کہنے! یہ تو وہ شخصیت ہیں جن کا نام اللہ پاک نے جبریل امین اور پیارے آقا ﷺ کی زبان سے صدّیق رکھا ہے۔ (مستدرک، 4/4، حدیث:4462)

حوض کوثر پر رفاقت:پیارے نبی ﷺ نے ایک دفعہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم میرے صاحب ہوحوض کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔(ترمذی،5 / 378 ،حدیث: 3690)

سب سے زیادہ مہربان:شفیع امّت ﷺ نے حضرت جبریل امین علیہ السّلام سے استفسار فرمایا:میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟تو جبریل امین علیہ السّلام نے عرض کی:ابو بکر(آپ کے ساتھ ہجرت کریں گے)،وہ آپ کے بعد آپ کی امّت کے معاملات سنبھالیں گے اور وہ امّت میں سے سب سے افضل اورامّت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔

مزید برآں،رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو۔(بخاری، 2/591،حدیث:3904)اس سے بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے آپ ﷺ کی محبت اور اہمیت کا پتا چلتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں صدیق اکبر سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین