حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت ندیم، جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور

جن خوش نصیبوں نے ایمان کے ساتھ حضور ﷺ کی صحبت پائی چاہے
یہ صحبت ایک لمحہ کی ہی کیوں نہ ہو اور ایمان کی حالت میں ہی ان کا خاتمہ ہوا
انہیں صحابی کہا جاتا ہے یوں تو تمام صحابہ کرام ہی عادل متقی اور پرہیزگار اپنے
پیارے آقا پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الہٰی کی خوش خبری پانے کے ساتھ ساتھ
بےشمار فضائل و کمالات رکھتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں ان میں سر فہرست وہ
عظیم ہستی ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ کے بعد(اس امت
کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟فرمایا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ۔ (بخاری، 2/522،
حدیث: 3671)
اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہ کو قرآن پاک میں صاحبہٖ یعنی
نبی کے ساتھی اور ثانی اثنین دو میں دوسرا فرمایا اور یہ فرمان کسی دوسرے کے حصہ
میں نہیں آیا۔ (پ 10، التوبۃ: 40)
رسول اللہ ﷺ نے صدیق اکبر سے فرمایا:تم میرے صاحب ہو حوض
کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔ (ترمذی، 5/378، حدیث: 3690)
حضور ﷺ کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بہت شدید محبت تھی اور
تمام صحابہ کرام میں سے آپ رضی اللہ عنہ ہی حضور ﷺ کے زیادہ قریب تھے اس لئے آپ ﷺ
کے بعد خلافت کے حق دار بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔
روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماتی ہیں جب نبی
کریم ﷺ سخت بیمار ہوئے تو حضرت بلال آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے فرمایا
کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ اس زمانے میں ابو بکر نماز
پڑھاتے پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن پایا تو کھڑے ہوئے کہ دو
شخصوں کے درمیان لے جائے جاتے تھے اور آپ کے قدم زمین پر گھسٹتے تھے حتی کہ آپ مسجد
میں تشریف لائے جب صدیق اکبر نے آپ کی آہٹ محسوس کی تو آپ پیچھے ہٹنے لگےحضور ﷺ نے
انہیں اشارہ کیا کہ نہ ہٹو پس آپ تشریف لائے اور حضرت صدیق کی بائیں جانب بیٹھ گئے
کہ صدیق اکبر کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے اور نبی کریم ﷺ بیٹھ کر اور صدیق اکبر
حضور ﷺ کی نماز کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ صدیق اکبر کی نماز کی۔
حضور ﷺ نے اپنے مرض وصال میں بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو
ہی نماز پڑھنے کے لئے منتخب فرمایا کسی دوسرے صحابی کو اجازت نہ تھی۔
فرمان رسول اللہ ﷺ: اگر میں اپنا خلیل بناتا تو ضرور ابو
بکر کو ہی خلیل بناتا۔ (ترمذی، 5/373، حدیث: 3680)
حضور ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد سعید عطاریہ، E1 بلاک جوہر ٹاؤن لہور

پیاری پیاری اسلامی بہنو! حضور اکرم ﷺ حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے اس بات کا اندازہ اس حدیث پاک سے لگایا
جا سکتا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کی:یا رسول
اللہ ﷺ لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟تو آپ نے فرمایا:عائشہ،میں نے
عرض کیا:عورتوں میں سے نہیں بلکہ مردوں میں سے پوچھ رہا ہوں؟تو آپ نے فرمایا:ان کے
والد ابو بکر۔(بخاری، 2/519، حدیث:3662)
جو یار غار محبوب خدا صدیق اکبر ہیں وہی یار مزار مصطفےٰ صدیق اکبر ہیں
عمر سے بھی وہ افضل ہیں وہ عثماں سے بھی ہیں اعلیٰ یقیناً پیشوائے مرتضیٰ صدیق اکبر
ہیں
اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو عورتوں میں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محبوب تھیں اور مردوں میں ان کے والد یعنی حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ محبوب تھے۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو! حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو
محبوب رب اکبر دو عالم کے تاجور ﷺ سے بےپناہ عشق و محبت تھی اسی طرح رسول رحمت
سراپا جود و سخاوت ﷺ بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت و شفقت فرماتے تھے۔اعلیٰ
حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ رضویہ
جلد 8 صفحہ نمبر 610 پر وہ احادیث مبارکہ جمع فرمائی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے
اپنے پیارے صدیق اکبر سے اپنی بےمثال محبت کا اظہار فرمایا ہے۔چنانچہ اس ضمن میں
دو روایات ملاحظہ فرمائیے:
(1) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ایک تالاب میں تشریف لے گئے حضور ﷺ نے ارشاد
فرمایا:ہر شخص اپنے یار کی طرف پیرے(یعنی تیرے)سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف
رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ باقی رہ گئے رسول اللہ ﷺ صدیق
اکبر کی طرف پیر یعنی تیر کے تشریف لے گئے اور انہیں گلے لگا کر فرمایا:اگر میں
کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر صدیق کو بناتا لیکن وہ میرے یار ہیں۔ (المعجم الکبیر،
11 /208)
(2)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
میں نے حضور ﷺ کو امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوئے
دیکھا اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے حضور پرنور ﷺ نے ان سے
مصافحہ فرمایا اور گلے لگایا اور ان کے دہن یعنی منہ پر بوسہ دیا حضرت علی رضی
اللہ عنہ نے عرض کی:کیا حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیق کا منہ چومتے ہیں؟فرمایا:اے ابو
الحسن! ابو بکر کا مرتبہ میرے یہاں ایسا ہے جیسا میرا مرتبہ میرے رب کے حضور۔ (فتاویٰ
رضویہ، 8/610 تا 612)
بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہے یار غار محبوب خدا صدیق
اکبر کا
الٰہی!رحم فرما خادم صدیق اکبر ہوں تیری رحمت کے صدقے واسطہ صدیق اکبر کا
پیاری پیاری اسلامی بہنو! یقیناً تمام صحابہ کرام ہی چمکتے
دمکتے ستارے ہیں جن کی شان و عظمت ایسی بے مثال ہے کہ کوئی بھی امتی ان کے مقام و
مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا،لیکن تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان میں صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کا مقام سب سے نمایاں ہے،آپ رضی اللہ عنہ انبیائے کرام علیہم السلام کے
بعد سب سے افضل و اعلیٰ ہیں، اللہ کریم نے آپ کو کئی خصوصیات سے نوازا ہے۔ حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی وہ صحابی ہیں جو سرکار ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ آئیے!حضور
کی آپ سے محبت کے مزید چند واقعات ملاحظہ کرتی ہیں، چنانچہ
آقائے نامدار ﷺ نے اپنے مرض وصال میں حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کو ہی نماز پڑھانے کے لئے منتخب فرمایا حضرت ابو بکر صدیق نے حضور ﷺ کی
حیات ظاہری میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کو 17 نمازیں پڑھائی اور کسی دوسرے صحابی
کو اس کی اجازت نہ دی۔ (اسلامی بیانات، 11/160)
حضور ﷺ نے مدینۃ المنورہ کی طرف جب ہجرت کرنے کا ارادہ
فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی اپنے ہم سفر کے طور پر مختص
فرمایا اور آپ ﷺ نے باقی صحابہ کرام علیہم رضوان کو ہجرت کا حکم دے دیا لیکن آپ کو
اپنے پاس ہی روکے رکھا یہ شرف تمام صحابہ کرام میں سے صرف اور صرف حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی حاصل ہوا۔
علمائے کرام نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی اور تمام صحابہ کرام میں سے آپ ہی
حضور ﷺ کے زیادہ قریب تھے اس لئے حضور ﷺ کے بعد خلافت کے حقدار بھی حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ (فقہ السیرۃ، ص 244)

حضور اکرم ﷺ کے سب سے قریبی ساتھی اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ان کا اصل نام عبد اللہ تھا اور ان کی کنیت ابو بکر تھی۔انہیں
صدیق کا لقب دیا گیا،جس کا مطلب ہے سچائی کی تصدیق کرنے والا کیونکہ انہوں نے سب
سے پہلے محمد ﷺ کی نبوت اور رسالت کی تصدیق کی تھی۔
یہ اسی طرح سے ہے جیسے ایک باکمال استاد جو کہ بہت سی
خوبیوں کا جامع ہوتا ہے اپنے جس شاگرد میں جو ممتاز صلاحیت پاتا ہے اسی خوبی میں
اس کو باکمال بناتا ہے جیسے کہ جس شاگرد میں فقیہ بننے کی صلاحیت کو پاتا ہے اس کو
فقیہ بناتا ہے ٫ جس میں مقرر بننے کی صلاحیت واضح ہوتی ہے اس کو کامیاب مقرر بناتا
ہے تو ایسے ہی ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنے جس صحابی میں جس خوبی کی ممتاز صلاحیت
پائی اسی وصف خاص میں کامل بنایا لہذا اپنے پیارے صحابی حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ میں صدیق بننے کی صلاحیت کو واضح طور پر محسوس فرمایا تو اسی وصف میں ان
کو ممتازوکامل بنایا۔اور صدیق ہونا ایسا وصف ہے جو بہت سی خوبیوں کا جامع ہے اور
اس وصف خاص کے سب سے زیادہ مستحق صرف ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی تھی
اسی لئے وہ اس سے سرفراز فرمائے گئے۔
اصدق الصادقیں سید المتقیں چشم
و گوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام
حضور کی صدیق اکبر سے محبت: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضور ﷺ سے محبت ایک
لازوال اور بے مثال محبت تھی،ایسے ہی حضور ﷺ کی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے
محبت بھی سب سے زیادہ تھی جو تاریخ اسلام کا ایک روشن باب ہے۔حضرت ابو بکر صدیق نہ
صرف حضور ﷺ کے قریبی ساتھی تھے بلکہ ان کے سچے اور وفادار دوست بھی تھے۔ان کی محبت
میں سچائی،ایثار اور قربانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ حضور ﷺ کی ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت کے چند پہلو درج ذیل ہیں:
غار ثور میں ساتھ: ہجرت کے وقت جب حضور ﷺ مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
آپ کے ساتھ تھے اور وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی تھے جن کو ہجرت کی رات سنگتِ رسول ﷺ
کی ہی بدولت ثانى اثنين یعنی کہ دو میں سے دوسرا ہونے کا شرف ملا۔ (پ 10، التوبۃ: 40)
نماز کی امامت: یہاں تک کہ ابن زمعہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ وہ حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھیں مگر اتفاق سے حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ اس وقت موجود نہ تھے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے تاکہ وہ
لوگوں کو نماز پڑھائیں لیکن حضور ﷺ نے فرمایا: نہیں نہیں، اللہ اور مسلمان ابو بکر
ہی سے راضی ہیں،وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔ (تاريخ الخلفاء، ص 43)
مال و دولت کی قربانی: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام کی راہ میں اپنا مال و دولت خرچ کیا اور
کبھی بھی کسی چیز کی پرواہ نہ کی۔اسی طرح سے ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ سرکار اقدس ﷺ
نے فرمایا: کسی شخص کے مال نے مجھ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ کہ ابو
بکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ (ابن ماجہ، 1 / 17، حدیث: 94)
ان تمام چیزوں سے حضور خاتم النبیین ﷺ کی صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کے لئے محبت جھلکتی ہے اسی طرح سے ایک اور روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ابو بکر
رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ابو بکر سے محبت رکھنا اور ان کی تعظیم و توقیر
کرنا میرے ہر امتی پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 40)
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضور ﷺ سے محبت ایک ایسی مثال
ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ رہے گی۔
حضور ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت شبیر احمد، E1 بلاک جوہر ٹاؤن لاہور

آپ کا نام عبد اللہ بن عثمان ہے۔ آپ کی کنیت ابو بکر، لقب
عتیق اور صدیق ہے۔ آپ عام الفیل کے اڑھائی سال کے بعد اور سرکار ﷺ کی ولادت کے دو
سال اور چند ماہ بعدپیدا ہوئے۔ آپ چھ ماہ شکم مادر میں رہے اور دو سال اپنی والدہ
کا دودھ پیا۔ آپ کی جائے پرورش مکہ مکرمہ ہے۔آپ صرف تجارت کی غرض سے باہر تشریف لے
جاتے۔ آپ اپنی قوم میں بڑے مالدار بامروت، حسن اخلاق کے مالک اور نہایت ہی عزت و
شرف والے تھے۔
صدیق اکبر سے حضور کی محبت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر
ادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 44)
یار غار محبوب خدا: نبی کریم ﷺ نے ابو بکر الصدیق سے فرمایا: غار ثور میں تم میرے ساتھ رہے اور
حوض کوثر پر بھی تم میرے ساتھ رہوگے۔ (ترمذی،5 / 378 ،حدیث: 3690)
بیان ہو کس زبان سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہیں یار غار،محبوب
خدا صدیق اکبر کا
بابِ صدیق پر بارانِ نور: حضرت مقدام سے روایت ہے کہ ابو بکر صدیق سے حضرت عقیل بن ابی طالب نے کچھ سخت کلامی کی مگر ابو بکر صدیق نے نبی کریم ﷺ کی قرابت داری کا خیال کرتے ہوئے
حضرت عقیل بن ابی طالب کو کچھ نہیں کہا
اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا۔ابو بکر صدیق سے پورا ماجرا سن کر نبی کریم ﷺ مجلس میں کھڑے
ہوئے اور فرمایا: اے لوگو سن لو!میرے دوست کو میرے لئے چھوڑ دو تمہار ی کیا حیثیت
ہے؟اور ان کی کیا حیثیت ہے؟تمہیں کچھ معلوم ہے؟خدا کی قسم!تم لوگوں کے دروازے پر
اندھیرا ہے مگر ابو بکر کے دروازے پر نور کی بارش ہورہی ہے خدا کی قسم!تم لوگوں نے
مجھے جھٹلایا اور ابو بکر نے میری تصدیق کی تم لوگوں نے مال خرچ کرنے میں بخل سے
کام لیا ابو بکر نے میرے لئے اپنا مال خرچ کیا اور تم لوگوں نے میری مدد نہیں کی
مگر ابو بکر نے میری غمخواری کی اور میری اتباع کی۔ (تاریخ الخلفاء، ص 41)
حاصل کلام: اس سے حضور ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت ظاہر ہوتی ہے، آپ کی محبت کا اندازہ اس بات
سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ یارغار و یار
مزار ہیں اور بروز قیامت بھی اس حال میں تشریف لائیں گے کہ صدیق اکبر کا ہاتھ آپ ﷺکے
ہاتھ میں ہوگا۔حضور نے ان کی جتنی مدح و توصیف بیان فرمائی ہے کسی اور صحابی کی
نہیں کی۔آپ فقط رسول خدا ﷺکے نہیں بلکہ
خود خدا تعالیٰ کے بھی محبوب بندے ہیں کہ پورا عالم خدا کی رضا چاہتا ہے اور خدا
آپ کی رضا چاہتا ہے۔
سبھی اصحاب سے بڑھ کر مقرب ذات ہے ان کی رفیقِ سرورِ ارض و سما
صدیق اکبر ہیں
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد اسماعیل قادری،فیضان رضا سرجانی ٹاؤن کراچی

خلیفہ اول،جانشین محبوب رب قدير،امير المؤمنين حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ کا نام نامی اسم گرامی عبداللہ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو بکر
اور صدیق و عتیق آپ رضی اللہ عنہ کے القاب ہیں۔سبحان اللہ!صدیق کا معنی ہے:بہت
زیادہ سچ بولنے والا۔آپ رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت ہی میں اس لقب سے ملقب ہو گئے
تھے کیونکہ ہمیشہ ہی سچ بولتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ قریشی ہیں اور ساتویں پشت میں
شجرہ نسب رسول اللہ ﷺ کے خاندانی شجرے سے مل جاتا ہے۔
صدیق اکبر کا بارگاہ رسالت میں مقام و مرتبہ: جس طرح عاشق اکبر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو نبی پاک ﷺ
سے بے پناہ عشق و محبت تھی،اسی طرح رسول رحمت،سرا پا جو دو سخاوت ﷺ بھی صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ سے محبت و شفقت فرماتے، جگہ بہ جگہ آپ رضی اللہ عنہ کو دعاؤں سے نوازتے
آپ کے فضائل کو بیان فرماتے اور آپ کو اخروی انعامات کی بشارت دیتے جس کا ثبوت کئی
احادیث کریمہ سے دیکھنے کو ملتا ہے، جیسا کہ
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے
دیکھا کہ خاتم المرسلين ﷺ حضرت على المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے تھے
اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ
کر ان سے مصافحہ فرمایا پھر گلے لگا کر آپ رضی اللہ عنہ کے منہ کو چوم لیا اور
حضرت على المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:اے ابو الحسن!میرے نزدیک ابو
بکر کا وہی مقام ہے جو اللہ کے ہاں میرا مقام ہے۔ (الریاض النضرة،1/185)
اس متعلق اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن میں سے چند کا
ذکر پیش خدمت ہے، چنانچہ
بارگاہ رسالت میں صدیق اکبر کی اہمیت: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ
احد میں حضرت ابو بكر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبدالرحمن کو(جو اس وقت
مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے) مقابلے کے لئے للکارا تو
رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بیٹھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔آپ رضی اللہ عنہ نے سرکار ﷺ کی
بارگاہ میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ!مجھے اجازت عطا فرمائیں،میں ان کے اول دستے میں
گھس جاؤں گا تو نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے آپ سے ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!ابھی تو
ہمیں تمہاری ذات سے بہت سے فائدے اٹھانے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں کہ میرے نزدیک
تمہاری حیثیت بمنزلہ کان اور آنکھ کے ہے۔ (تفسیر روح البیان،9/413)
سرکار نامدار کا سچا یار: حضرت عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ اور حضور
ﷺ کے صحابہ ایک تالاب میں تشریف لے گئے،حضور نے ارشاد فرمایا:ہر شخص اپنے یار کی
طرف تیرے، سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اللہ ﷺ اور ابو بكرصديق باقی رہے،رسول
اللہ ﷺ صديق اکبر کی طرف تیر کے تشریف لے گئے اور انہیں گلے لگا کر فرمایا:میں کسی
کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔ (المعجم الكبير، 1/208)
امت پر تین چیزوں کا وجوب: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں جس نے اپنی دوستی اور
مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کیے وہ ابو بکر صدیق ہیں،پس ان سے محبت
رکھنا،ان کا شکر یہ ادا کرنا اور ان کی حفاظت کرنا میری امت پر واجب ہے۔ (فيضان
صديق اكبر،ص 581، 582)
محبوبِ حبيبِ خدا: حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض
کیا:یارسول اللہ ﷺ!لوگوں میں آپ کو سب سے بڑھ کر کون محبوب ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: عائشہ انہوں نے دوبارہ عرض کیا: مردوں میں سے کون ہے؟فرمایا:عائشہ کے والد۔
(بخاری،3/126، حدیث:4358)
ابو بکر پر کسی کو فضیلت نہ دو: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم
مہاجرین و انصار حضور نبی رحمت شفیع امت ﷺ کے دروازہ کے پاس بیٹھے کسی بات پر بحث
کر رہے تھے(غالبا مسجد میں آپ کے دروازے کے قریب بیٹھے تھے کیونکہ آپ کا درواز
مسجد میں کھلتا تھا دوران بحث آوازیں بلند ہو گئیں تو آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور
ارشاد فرمایا: کس بات پہ بحث کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ!فضیلت پر
بحث ہورہی تھی۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ابو بکر پر کسی کو فضیلت مت دو کہ وہ دنیا و
آخرت میں تم سب سے افضل ہے۔ (فيضان صديق اكبر،ص 585)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد آصف،فیضان خدیجۃ الکبری پی آئی بی کالونی
کراچی

افضل البشر بعد الانبیا کل جہاں میں سب سے مقبول محبوب رب
اکبر کے محبوب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں آپ کو حضرت صدیق اکبر سے اتنی
محبت تھی کہ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق کو یار مزار بننے کی سعادت سے بھی نوازا۔ شاعر
کہتے ہیں کہ
محبتوں کا صلہ کون ایسے دیتا ہے سنہری جالیوں میں یار غار آپ سے ہے
آئیے چند احادیث مبارکہ پڑھ کر مزید فیوض و برکات حاصل کرتی
ہیں، چنانچہ
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،میں نے
حضور اقدس ﷺ کو امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے دیکھا،اتنے میں
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے حضور پرنور ﷺ نے ان سے مصافحہ فرمایا
اور گلے لگایا اور ان کے دہن(یعنی منہ)پر بوسہ دیا مولا علی کرم اللہ پاک وجہہ
الکریم نے عرض کی کیا حضور ﷺ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا منہ چومتے ہیں؟ فرمایا:
اے ابو الحسن! میرے ہاں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مرتبہ ایسا ہے جیسا کہ میرا
مرتبہ میرے رب کے حضور۔ (فتاویٰ رضویہ، 8/210 تا 212)
پیغام نبی یہ دیتے ہیں صدیق اکبر میرے ہیں جو حق پر ہیں وہ
کہتے ہیں صدیق اکبر میرے ہیں
صدیق اکبر کے گھر حضور کی روزانہ آمد: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضور ﷺ کے مابین ایسی
گہری دوستی تھی کہ رسول اللہ ﷺ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر روزانہ تشریف
لاتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کوئی دن ایسا نہ
گزرتا تھا جس کی صبح و شام رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں۔ (بخاری، 1/180،
حدیث: 476)
حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضور
ﷺ کے صحابہ ایک تالاب میں تشریف لے گئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:ہر شخص اپنے دوست کی
طرف تیرے سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ باقی رہے رسول اللہ ﷺ صدیق اکبر کی طرف تیر کر تشریف لے گئے اور انہیں
گلے لگاکر فرمایا میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔
(المعجم الکبیر، 11 /208)
بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہے یار غار
محبوب خدا صدیق اکبر کا
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد وزیر خان،فیض مدینہ نارتھ کراچی

آپ رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ ہے اور ابو بکر سے جو آپ مشہور
ہیں تو یہ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ہےاور صدیق و عتیق آپ رضی اللہ عنہ کا لقب
ہےاور آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ
محترمہ کا نام سلمی ہے جن کی کنیت ابو الخیر ہے۔ (اسد الغابۃ، 3/315)
آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں مرہ بن کعب پر
حضور ﷺ کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے آپ رضی اللہ عنہ واقعہ فیل کے تقریبا ڈھائی برس
بعد مکہ شریف میں پیدا ہوئے۔ (الاکمال فی اسماء الرجال، ص 587)
حضور کی صدیق اکبر سے محبت پر احادیث مبارکہ:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد ابو بکر اور عمر کی
پیروی کرنا۔ (ترمذی، 5/374، حدیث: 3682)
مسجد میں ابو بکر صدیق کے دروازے کے علاوہ سارے دروازے بند
کر دو۔ (بخاری، 1/177، حدیث: 466) علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مبار کہ آپ رضی
اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ آپ اس دروازے سے تشریف لاکر
مسلمانوں کو نماز پڑھایا کریں گے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 46)
حضورﷺ کی ہجرت مدینہ کے واقعہ میں جو بات سب سے اہم اور
واضح ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے اس سفر کے لئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے
ہمسفر کے طور پر مختص فرمایا یہی وجہ ہے کہ آپ نے باقی صحابہ کرام کو ہجرت کا حکم
دے دیا لیکن آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس ہی روکے رکھا یہ شرف تمام صحابہ کرام میں
سے صرف اور صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی حاصل ہوا ہے۔
علمائے کرام نے اس سے یہ حکم مستنبط کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ
کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی اور تمام صحابہ کرام میں سے آپ
رضی اللہ عنہ ہی حضور ﷺ کے زیادہ قریب تھے اس لئے آپ کے بعد خلافت کے حقدار بھی
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی تھے اس کے علاوہ بھی کئی ایسے واقعات ہیں جن سے
یہ حکم مزید مضبوط ہوتا ہے، مثلا حضور ﷺنے اپنے مرض وصال میں حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کو ہی نماز پڑھانے کے لئے منتخب فرمایا اور کسی دوسرے صحابی کو اس کی
اجازت نہ دی اسی طرح ایک صحیح حدیث میں آپ ﷺ کا ایک قول وارد ہوا ہے: اگر میں اپنا
خلیل بناتا تو ضرور ابو بکر کو ہی اپنا بناتا۔ (ترمذی، 5/373،حدیث:3680)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور کی نظر میں جو
اتنےمحبوب اور مکرم ہوئے یہ سب کچھ اسی وجہ سے تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ حضورﷺ کے مثالی اور سچے ساتھی تھے جنہوں نے اپنا مال اپنی جان اور اپنا سب کچھ
حضور اقدسﷺ پر قربان کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
حوض کوثر کے ساتھی: حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ محبوب،داناےغیوب ﷺ نے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:اے ابو بکر تم سفر ہجرت میں
غارمیں میرے ساتھی تھے لہذا حوض کوثر پر بھی میرے ساتھی ہوگے۔ (ترمذی،5 / 378 ،حدیث:
3690)
ارشاد فرمایا: اے ابو الحسن! (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ)
میرے نزدیک ابو بکر کا وہی مقام ہے جو اللہ پاک کے ہاں میرامقام ہے۔ (الریاض
النضرة، 1/185)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت طفیل الرحمان ہاشمی،فیض مدینہ نارتھ کراچی

جن خوش نصیبوں نے ایمان کے ساتھ سرکار عالی وقار ﷺ کی صحبت
بابرکت پائی،ان میں مایہ ناز شخصیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کو
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت تھی کہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان
میں آپ ہی حضور ﷺ کے سب سے زیادہ قریب تھے۔ حضور ﷺ کی آپ سے بے حد محبت کا اندازہ
آپ کی حضور کے ساتھ حاصل خصوصی اور امتیازی رفاقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے،سفر و
حضر کی رفاقت،غارثور کی رفاقت اور آخر میں پہلوئے مصطفی ﷺ میں تدفین کے ذریعے
رفاقت قبر کا نصیب ہونا پوری امت میں آپ رضی اللہ عنہ کے عظیم المرتبہ ہونے اور آپ
سے پیارے آقا ﷺ کی بے حد محبت کو واضح کرتا ہے پیارے آقا ﷺ کی صدیق اکبر رضی اللہ
عنہ سے مثالی محبت کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجیے۔
صبح و
شام ملاقات فرمانا: حضور ﷺ صبح و شام صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں:میں نے ہوش سنبھالا تو والدین دین اسلام پر عمل کرتے تھے،کوئی دن نہ
گزرتا مگر رسول اللہ ﷺ دن کے دونوں کناروں صبح و شام ہمارے گھر تشریف لاتے۔ (بخاری،
1/180، حدیث:476)
رب کے
سوا خلیل: پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل
بناتا تو میں ضرور ابو بکر کو ہی خلیل بناتا۔ (ترمذی، 5/373،حدیث:3680)
سب کو
ایک لقمہ اور صدیق اکبر کے لئے تین لقمے: ایک مرتبہ
نبی کریم ﷺ نے کھانا تیار کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلایا،سب کو ایک
لقمہ عطا فرمایا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تین لقمے عطا کیے حضرت عباس
رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا:جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت
جبرائیل علیہ السلام نے کہا:اے عتیق!تجھے مبارک ہو،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت
میکائیل علیہ السلام نے کہا:اے رفیق! تجھے مبارک ہو،جب تیسرا لقمہ دیا تو اللہ
کریم نے فرمایا:اے صدیق!تجھے مبارک ہو۔ (الحاوی للفتاویٰ، 2/51)
رفیق
ہجرت: جب کفار مکہ کے ظلم و ستم اور تکلیف رسانی کی وجہ سے نبی
اکرم ﷺ نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ ﷺ نے اس سفر کے لئے حضرت صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کو اپنے ہم سفر کے طور پر مختص فرمایا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو
ہجرت کا حکم دے دیا لیکن صدیق اکبر کو اپنے پاس ہی روکے رکھا اور خود ان کے ساتھ
مدینے کی جانب سفر فرمایا،یہ شرف تمام صحابہ کرام علیم الرضوان میں سے صرف اور صرف
صدیق اکبر کو ہی حاصل ہوا ہے۔
شفیع امت ﷺ نے حضرت جبرائیل امین علیہ السلام سے استفسار
فرمایا:میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟تو جبرائیل امین نے عرض کی:ابو بکر(آپ کے ساتھ
ہجرت کریں گے)وہ آپ کے بعد آپ کی امت کے معاملات سنبھالیں گے اور وہ امت میں سے سب
سے افضل اور امت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔ (جمع الجوامع، 11/39، حدیث:160)
یار غار: اسی ہجرت کے موقع پر صرف آپ رضی اللہ عنہ کو ہی رسول اللہ ﷺ کے یار غار ہونے
کی سعادت حاصل ہوئی تین دن تک صدیق اکبر حضور ﷺ کے ساتھ غار ثور میں قیام پذیر رہے۔
حوض
کوثر پر رفاقت: حضور ﷺ نے ایک دفعہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم
میرے صاحب ہو حوض کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔ (ترمذی،5 / 378 ،حدیث:
3690)
مرض وفات میں یاد فرمانا: جب آپ ﷺ مرض وفات میں مبتلا تھے اس وقت بھی آپ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو
یاد فرمایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صدیق اکبر اور آپ کے صاحبزادے کو اپنے
پاس بلوایا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض
میں مجھ سے فرمایا:میرے پاس اپنے والد ابو بکر اور اپنے بھائی کو بلاؤ،حتی کہ میں
تحریر لکھ دوں،مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے اور کوئی کہنے والا
کہے کہ میں(خلافت کا مستحق)ہوں،حالانکہ اللہ اور مسلمان صرف ابو بکر کو ہی قبول
کریں گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/415، حدیث:6021)
یار
مزار: جہاں ہم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو یار غار کے اعزاز سے
بہرور دیکھتے ہیں وہیں بعد از وفات بھی آپ یار مزار کی عظیم شرف سے سرفراز دکھائی
دیتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ کا مزار پر انوار حضور ﷺ کے مزار کے پہلو میں موجود ہے
کہ یہ خوبصورت محبت بعد از وفات بھی جاری و ساری ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں جو اتنے محبوب
اور مکرم تھے بے شک اسی وجہ سے تھا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے مثالی اور
سچے ساتھی تھے،جنہوں نے اپنا مال،اپنی جان اور اپنا سب کچھ حضور اقدس ﷺ پر قربان
کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عشق رسول ﷺ ایسا مثالی ہے
جسے اللہ اور رسول پر ایمان رکھنے والے ہر شخص پر اختیار کرنا لازم و ضروری ہے ۔
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت طاہر احمد عطاری،فیض مدینہ نارتھ کراچی

آپ کا نام عبد اللہ ہے اور ابو بکر سے آپ مشہور ہیں تو یہ
آپ کی کنیت ہے اور صدیق و عتیق آپ رضی اللہ عنہ کا لقب ہے آپ کے والد کا نام عثمان
اور کنیت ابو قحافہ ہے اور آپ کی والدہ کا نام سلمہ ہے جن کی کنیت ابو الخیر رضی
اللہ عنہا ہے آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں مرہ بن کعب پر حضور پاک
ﷺ کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے آپ رضی اللہ عنہ واقعہ فیل کی تقریباً ڈھائی برس بعد
مکہ شریف میں پیدا ہوئے۔ (خلفائے راشدین، ص 43)
ایسے تو تمام صحابہ کرام ہی چمکتے دمکتے ستارے ہیں جن کی
شان و عظمت ایسی بے مثال ہے کہ کوئی بھی امتی ان کے مقام و مرتبے کو نہیں پہنچ
سکتا ، لیکن تمام صحابہ کرام میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام سب سے نمایاں ہیں
آپ رضی اللہ عنہ انبیائے کرام کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ حدیث
شریف میں ہے کہ سرکار اقدس ﷺ نے فرمایا: سوائے نبی کے اور کوئی شخص ایسا نہیں کہ
جس پر آفتاب طلوع اور غروب ہوا ہو اور وہ صدیق اکبر سے افضل ہو۔ ایک اور مقام پر
ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے بہتر ہیں علاوہ اس
کے کہ وہ نبی نہیں۔ (کنز العمال، 3/248، حدیث: 2545، جزء: 11)
رسل اور انبیاء کے بعد جو افضل ہو عالم سے یہ عالم میں ہے
کس کا مرتبہ صدیق اکبر کا
حضور پاک ﷺ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت فرماتے
تھے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں ایک دن صحابہ
کرام پیارے آقا ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے تو آقا ﷺ نے فرمایا:سارا دن نہ بیٹھا کرو
بلکہ وقفے سے آیا کرو وقفے سے ملا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ بھی صحابہ کرام کے ساتھ قریب بیٹھے سن رہے تھے راوی فرماتے ہیں ظہر سے پہلے
بات ہوئی ظہر میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے نماز ادا کی اور
چلے گئے پھر عصر میں نماز پڑھی حضور ﷺ سے ملے بغیر چلے گئے پھر مغرب میں تشریف
لائے نماز ادا کی اور حضور پاک ﷺ سے ملے بغیر چلے گئے حضور پاک ﷺ نے پوچھا ابو بکر
صدیق نہیں آئے، پیارے آقا ﷺ نے یہی سوال ظہر کے بعد عصر اور مغرب کے بعد بھی کیا،
حضرت انس فرماتے ہیں: مغرب کے بعد میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے پر گیا
دستک دی کہا حضور پوچھتے ہیں کہ آج ابو بکر نہیں آئے؟ حضرت انس فرماتے ہیں صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ دوڑ کے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کی حضور حکم فرمائیں
حضور پاک ﷺ نے فرمایا: آج آپ آئے نہیں نظر نہیں آئے عرض کی حضور آپ نے فرمایا کہ
وقفے سے ملو محبت بڑھتی ہے حضور ﷺ فرمانے لگے آپ سے تو نہ فرمایا تھا آپ نہ جایا
کریں یہی رہا کریں آپ ہوتے ہیں تو میرا دل لگا رہتا ہے۔
حضور پاک ﷺ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اتنی محبت کرتے تھے
کہ فرمایا:مسجد نبوی میں جس کا دروازہ کھلتا ہے بند کر دو مگر صدیق اکبر رضی اللہ
عنہ کا دروازہ بند نہ کرنا آج بھی مسجد نبوی شریف سے منسوب کوئی دروازہ بند کیا جا
سکتا ہے مگر باب ابی بکر بند نہیں ہوتا۔
آپ نے پڑھا ہوگا کہ اللہ پاک نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی
شان و عظمت کو قرآن کریم میں بیان فرمایا:اور امتیوں سے محبت فرمانے والے آقا مکی
مدنی مصطفی ﷺ کے کئی احادیث مبارکہ میں آپ کی شان اور آپ کی فضیلت کو بیان فرمایا:اور
کئی احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں پیارے آقا ﷺ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اپنی
محبت کو ظاہر فرمایا ہے ایسی چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:
حضور پاک ﷺ نے فرمایا:ابو بکر کی محبت اور شکر میری امت پر
واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، 1 / 49)
حضور پاک ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:مجھے کسی کے مال نے
اتنا فائدہ نہیں دیا جتنا ابو بکر صدیق کے مال نے فائدہ پہنچایا ہے یہ سن کر حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ ہی تو میری جان اور
آپ ہی میرے مال کے مالک ہیں۔ (ابن ماجہ، 1 / 17، حدیث: 94)
میرے تو آپ ہی سب کچھ ہیں رحمت عالم میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کے لئے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بھی کیا بات ہے کہ حضور
پاک ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ سے اس قدر محبت کی کہ آپ رضی اللہ عنہ صرف اس جہاں میں
نہیں بلکہ دونوں جہاں میں پیارے آقا ﷺ کے سنگ رہے، حدیث مبارکہ میں ہے: تم حوض
کوثر پر بھی میرے ساتھ ہو اور غار ثور میں بھی میرے ساتھ ہوگے۔ (ترمذی،5 / 378 ، حدیث:
3690)
حضور پاک ﷺ نے فرمایا:جس شخص نے مجھ پر اپنی محبت اور مال
سب سے زیادہ احسان کیے ہیں وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اگر میں خدا کے سوا
کسی اور کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بناتا لیکن اخوۃ
اسلام اب موجود ہے۔ (بخاری، 2/591،حدیث:3904)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ مقدس ہستی ہیں جن سے ہمارے آقا ﷺ
نے اتنی محبت فرمائی کہ وہ اس مختصر مضمون میں نہیں سما سکتی آپ کی یہ شان ہے کہ
آپ یار غار بھی ہیں یار مزار بھی آپ پیارے آقا ﷺ کے ساتھ غزوات میں بھی شریک ہوئے
اور بھی بہت سے نسبتیں آپ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہیں وہ شاعر کہتے ہیں کہ
بیاں ہوں کس زبان سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہے یار
غار محبوب خدا صدیق اکبر کا
الہی رحم فرما خادم صدیق اکبر ہوں تیری رحمت کے صدقے واسطہ صدیق
اکبر کا
اللہ پاک ہمیں حضور پاک ﷺ کی سچی غلامی عطا فرمائے، سچا
عاشق صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بنائے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت الحاج محمود اسلام،فیض مدینہ نارتھ کراچی

حضور اکرم ﷺ کو صدیق اکبر سے بے حد محبت تھی اور کیوں نہ ہو
کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ کے یار غار ہیں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے
حضور ﷺ کی خاطر اپنے وطن مال و دولت اپنے بیٹے اور بیٹی سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔
اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء و مرسلین
علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں،جنوں اور فرشتوں سے افضل آپ یعنی صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ ہیں۔ (شان صدیق اکبر، ص 11)
حضور اکرم ﷺ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اتنی محبت فرماتے
تھے کہ آپ نے خود صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو علم سکھایا یعنی تعلیم دی اور احکامات
سکھائے چنانچہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے خوابوں کی تعبیر بتانے کا حکم دیا
گیا ہے اور یہ کہ میں یہ ابو بکر کو سکھاؤں۔ (تاریخ الخلفاء، ص 33)
عظیم تابعی بزرگ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: حضور نبی کریم ﷺ کے پاس سورہ فجر کی آیت مبارکہ تلاوت کی گئی: یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ(۲۷) ارْجِعِیْۤ اِلٰى
رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ(۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ(۲۹) وَ ادْخُلِیْ
جَنَّتِیْ۠(۳۰) (پ 30، الفجر:27 تا 30)ترجمہ
کنز الایمان:اے اطمینان والی جان اپنے رب کی طرف واپس ہو لو کہ تو اس سے راضی ہو
اور وہ تجھ سے راضی پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو اور میری جنت میں آ۔ تو حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کتنا اچھا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تمہاری موت کے
وقت فرشتہ ضرور یہی کہے گا۔ (تفسیر طبری،42 /581)
حضور ﷺ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ
آپ نے اپنی ظاہر حیات میں ہی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ اولیٰ ہونے کی طرف
اشارہ فرما دیا تھا، چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک
عورت نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور آپ سے کسی چیز کے بارے میں کلام کیا
نبی کریم نے اس عورت کو کسی اور وقت لوٹنے کا حکم ارشاد فرمایا،اس عورت نے عرض کیا
یا رسول اللہ اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو؟(اس عورت کا ارشاد آپ کے ظاہری
پردہ فرمانے کی طرف تھا)نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر تم مجھے نہ پاؤ تو صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آ جانا۔ (بخاری، 4/ 480 ، حدیث : 7220)
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہے کہ حضور پاک ﷺ کا اشارہ آپ کے
وصال ظاہری کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ
نے ہی اپنی امت کے لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو چنا۔
حضور کی صدیق اکبر سے محبت پر احادیث مبارکہ:
جسے دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا ہو وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔ (معجم
اوسط، 6 / 456، حدیث 9384)
ابو بکر کی محبت اور ان کا شکر میری تمام امت پر واجب ہے۔ (شان
صدیق اکبر، ص 9)
حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے ابو الحسن! میرے نزدیک ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہی مقام ہے جو اللہ پاک کے ہاں میرا مقام ہے۔ (الریاض
النضرۃ،1 / 185)
ارشاد فرمایا:مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ
چکا دیا ہے مگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ
اللہ پاک روز قیامت انہیں عطا فرمائے گا۔ (ترمذی،5/374،حدیث:3681)
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر کسی کو فضیلت مت دو کی وہ
دنیا و آخرت میں تم سب(صحابہ)سے افضل ہے۔ (الریاض النضرۃ، 1/137)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت اسماعیل عطاریہ،شاہ لطیف ٹاؤن کراچی

نبی کریم ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین قیامت تک کے لئے
تمام لوگوں کے لئے روشن ستاروں کی مانند ہیں،انہی میں سے روشن و تابندہ ہستی خلیفۃ
المسلمین،خلیفہ اول،یار غار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہیں
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے آقا ومولی تاجدار
کائنات سید المرسلین ﷺ کے ساتھ وفاداری و جانثاری کا تعلق ایک روشن و منور گوشہ ہے
،اور آقا کریم کو بھی صدیق اکبر سے بے انتہا محبت تھی،جس کا اندازہ ذیل میں موجود
روایات سے لگایا جا سکتا ہے۔
نگاہ حضور میں خاص مقام: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ
حضرت علی المرتضی شیر خدا کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ کھڑے تھے اتنے میں
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر ان سے
مصافحہ فرمایا پھرگلے لگاکر آپ رضی اللہ عنہ کے منہ کو چوم لیا اور حضرت علی
المرتضی شیر خدا کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ارشاد فرمایا:اے ابوالحسن!میرے
نزدیک ابو بکر کا وہی مقام ہے جو اللہ کے ہاں میرا مقام ہے(1)
حوض کوثر پر رفاقت:پیارے نبی ﷺ نے ایک دفعہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم میرے صاحب ہوحوض
کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔(2)
محسن کائنات کے محسن: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:مجھ پر
جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیاہے،مگر ابو بکر کے مجھ پر وہ
احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک روز قیامت انہیں عطا فرمائے گا۔ (3)
سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے: پیارے آقا ﷺ نے ایک مرتبہ یوں ارشاد فرمایا:جس شخص کی صحبت
اور مال نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ فائدہ پہنچایا وہ ابو بکر ہے اور اگر میں اپنی
امّت میں سے میں کسی کو خلیل(گہرا دوست)بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن اسلامی
اخوت قائم ہے۔(4)
تین لقمے اور تین مبارک بادیں:ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم کو بلایا،سب کو ایک ایک لقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کو تین لقمے عطا کئے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد
فرمایا:جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے کہا:اے عتیق!تجھے مبارک
ہو،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہ السّلام نے کہا:اے رفیق!تجھے مبارک ہو،تیسرا
لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا:اے صدیق!تجھے مبارک ہو۔(5)
صدیق اکبر کے حق میں جنت کی دعا: حضرت امام ابو نعيم احمد بن عبد اللہ اصبہاني قدس سرّہ
النّورانی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غار ثور میں موجود
تمام سوراخ اپنے کپڑے کے ذریعے بند کردیئے، جب صبح ہوئی تو حضور ﷺ نے استفسار
فرمایا:اے ابو بکر! تمہارا کپڑا کہاں ہے؟ انہوں نے سوراخ بند کرنے والا سارا ماجرا
بیان کردیا تو سرکار ﷺ نے ان کے حق میں یوں دعا فرمائی: اے اللہ! قیامت کے دن ابوبکر
کو جنت میں میرے ساتھ جگہ عطا فرما۔
اللہ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی طرف وحی فرمائی کہ بےشک آپ کے
رب نے آپ کی دعا قبول فرمالی ہے۔
اللہ پاک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صدقے ہمیں بھی
آقا کریم ﷺ کا حقیقی وفادار بنائے۔
حوالہ جات
1۔ الریاض النضرۃ،1/185
2۔ ترمذی، 5/378، حدیث:3690
3۔ ترمذی،5/374،حدیث:3681
4۔بخاری، 2/591،حدیث:3904
5۔الحاوی للفتاویٰ، 2/51
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت قربان، جامعۃ المدینہ فاروق آباد شیخوپورہ

پیارے آقا ﷺ سے محبت ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے اور ہر مومن
کو ہی نبی کریم ﷺ سے محبت ہوتی ہے مگر قربان جائیے ان مبارک ہستیوں کے جن سے خود
پیارے آقا ﷺ محبت فرمائیں ان میں عاشق اکبر حضرت صدیق اکبر کا نام سر فہرست ہے۔ جس
طرح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اسی طرح رسول اللہ ﷺ
بھی آپ رضی اللہ عنہ سے محبت فرماتے۔آپ رضی اللہ عنہ محبوبِ حبیب خدا ہیں، جیسا کہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: یا
رسول اللہ ﷺ لوگوں میں آپ کو سب سے بڑھ کر کون محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عائشہ۔
انہوں نے عرض کیا:مردوں میں سے کون ہے؟فرمایا:عائشہ کے والد (یعنی حضرت صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ)۔ ¹
جنت میں رفاقت کی دعا: پیارے آقا ﷺ صدیق اکبر سے اس قدر محبت فرماتے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لئے جنت
میں رفاقت کی دعا فرمائی۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رحمت عالم ﷺ نے صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے اللہ!میں نے غار میں
صدیق کو اپنا رفیق بنایا تھا تو اسے جنت میں میرا رفیق بنا دے۔²
سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے: دو عالم کے مالک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی صحبت و مال
نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ نفع پہنچایا وہ ابو بکر بن ابی قحافہ ہے اور اگر میں
دنیا میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت قائم ہے۔³
حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک
کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں کہ خلیل یا تو خلّت سے بنا ہے بمعنی دلی دوست جس کی
محبت دل میں اتر جائے پیارے نبی ﷺ کا ایسا محبوب صرف اللہ ہی ہے یا بنا ہے خلّت سے
بمعنی حاجت یعنی وہ دوست جس پہ توکل کیا جائے ضرورت کے وقت اس سے مشکل کشائی، حاجت
روائی کروائی جائے اور آپ ﷺ کا کارساز و محبوب خدا کے سوا کوئی نہیں۔ ورنہ اصل
محبت حضور ﷺ کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بہت تھی۔⁴
(1) بخاری،3/ 126،حدیث:4358
(2) فیضان صدیق اکبر، ص 591
(3) بخاری، 2/591،حدیث:3904
(4) مراۃ المناجیح، 8/342