جن خوش نصیبوں نے ایمان کے ساتھ سرکار عالی وقار ﷺ کی صحبت بابرکت پائی،ان میں مایہ ناز شخصیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت تھی کہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان میں آپ ہی حضور ﷺ کے سب سے زیادہ قریب تھے۔ حضور ﷺ کی آپ سے بے حد محبت کا اندازہ آپ کی حضور کے ساتھ حاصل خصوصی اور امتیازی رفاقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے،سفر و حضر کی رفاقت،غارثور کی رفاقت اور آخر میں پہلوئے مصطفی ﷺ میں تدفین کے ذریعے رفاقت قبر کا نصیب ہونا پوری امت میں آپ رضی اللہ عنہ کے عظیم المرتبہ ہونے اور آپ سے پیارے آقا ﷺ کی بے حد محبت کو واضح کرتا ہے پیارے آقا ﷺ کی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مثالی محبت کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجیے۔

صبح و شام ملاقات فرمانا: حضور ﷺ صبح و شام صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے ہوش سنبھالا تو والدین دین اسلام پر عمل کرتے تھے،کوئی دن نہ گزرتا مگر رسول اللہ ﷺ دن کے دونوں کناروں صبح و شام ہمارے گھر تشریف لاتے۔ (بخاری، 1/180، حدیث:476)

رب کے سوا خلیل: پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو میں ضرور ابو بکر کو ہی خلیل بناتا۔ (ترمذی، 5/373،حدیث:3680)

سب کو ایک لقمہ اور صدیق اکبر کے لئے تین لقمے: ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے کھانا تیار کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلایا،سب کو ایک لقمہ عطا فرمایا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تین لقمے عطا کیے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا:جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:اے عتیق!تجھے مبارک ہو،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہ السلام نے کہا:اے رفیق! تجھے مبارک ہو،جب تیسرا لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا:اے صدیق!تجھے مبارک ہو۔ (الحاوی للفتاویٰ، 2/51)

رفیق ہجرت: جب کفار مکہ کے ظلم و ستم اور تکلیف رسانی کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ ﷺ نے اس سفر کے لئے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنے ہم سفر کے طور پر مختص فرمایا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہجرت کا حکم دے دیا لیکن صدیق اکبر کو اپنے پاس ہی روکے رکھا اور خود ان کے ساتھ مدینے کی جانب سفر فرمایا،یہ شرف تمام صحابہ کرام علیم الرضوان میں سے صرف اور صرف صدیق اکبر کو ہی حاصل ہوا ہے۔

شفیع امت ﷺ نے حضرت جبرائیل امین علیہ السلام سے استفسار فرمایا:میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟تو جبرائیل امین نے عرض کی:ابو بکر(آپ کے ساتھ ہجرت کریں گے)وہ آپ کے بعد آپ کی امت کے معاملات سنبھالیں گے اور وہ امت میں سے سب سے افضل اور امت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔ (جمع الجوامع، 11/39، حدیث:160)

یار غار: اسی ہجرت کے موقع پر صرف آپ رضی اللہ عنہ کو ہی رسول اللہ ﷺ کے یار غار ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تین دن تک صدیق اکبر حضور ﷺ کے ساتھ غار ثور میں قیام پذیر رہے۔

حوض کوثر پر رفاقت: حضور ﷺ نے ایک دفعہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم میرے صاحب ہو حوض کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔ (ترمذی،5 / 378 ،حدیث: 3690)

مرض وفات میں یاد فرمانا: جب آپ ﷺ مرض وفات میں مبتلا تھے اس وقت بھی آپ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو یاد فرمایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صدیق اکبر اور آپ کے صاحبزادے کو اپنے پاس بلوایا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض میں مجھ سے فرمایا:میرے پاس اپنے والد ابو بکر اور اپنے بھائی کو بلاؤ،حتی کہ میں تحریر لکھ دوں،مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے اور کوئی کہنے والا کہے کہ میں(خلافت کا مستحق)ہوں،حالانکہ اللہ اور مسلمان صرف ابو بکر کو ہی قبول کریں گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/415، حدیث:6021)

یار مزار: جہاں ہم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو یار غار کے اعزاز سے بہرور دیکھتے ہیں وہیں بعد از وفات بھی آپ یار مزار کی عظیم شرف سے سرفراز دکھائی دیتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ کا مزار پر انوار حضور ﷺ کے مزار کے پہلو میں موجود ہے کہ یہ خوبصورت محبت بعد از وفات بھی جاری و ساری ہے۔

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں جو اتنے محبوب اور مکرم تھے بے شک اسی وجہ سے تھا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے مثالی اور سچے ساتھی تھے،جنہوں نے اپنا مال،اپنی جان اور اپنا سب کچھ حضور اقدس ﷺ پر قربان کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عشق رسول ﷺ ایسا مثالی ہے جسے اللہ اور رسول پر ایمان رکھنے والے ہر شخص پر اختیار کرنا لازم و ضروری ہے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عشق رسول ﷺ سے حصہ نصیب فرمائے اور آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے زندگی گزارنا نصیب فرمائے۔ آمین