حضور اکرم ﷺ کے سب سے قریبی ساتھی اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ان کا اصل نام عبد اللہ تھا اور ان کی کنیت ابو بکر تھی۔انہیں صدیق کا لقب دیا گیا،جس کا مطلب ہے سچائی کی تصدیق کرنے والا کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے محمد ﷺ کی نبوت اور رسالت کی تصدیق کی تھی۔

یہ اسی طرح سے ہے جیسے ایک باکمال استاد جو کہ بہت سی خوبیوں کا جامع ہوتا ہے اپنے جس شاگرد میں جو ممتاز صلاحیت پاتا ہے اسی خوبی میں اس کو باکمال بناتا ہے جیسے کہ جس شاگرد میں فقیہ بننے کی صلاحیت کو پاتا ہے اس کو فقیہ بناتا ہے ٫ جس میں مقرر بننے کی صلاحیت واضح ہوتی ہے اس کو کامیاب مقرر بناتا ہے تو ایسے ہی ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنے جس صحابی میں جس خوبی کی ممتاز صلاحیت پائی اسی وصف خاص میں کامل بنایا لہذا اپنے پیارے صحابی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں صدیق بننے کی صلاحیت کو واضح طور پر محسوس فرمایا تو اسی وصف میں ان کو ممتازوکامل بنایا۔اور صدیق ہونا ایسا وصف ہے جو بہت سی خوبیوں کا جامع ہے اور اس وصف خاص کے سب سے زیادہ مستحق صرف ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی تھی اسی لئے وہ اس سے سرفراز فرمائے گئے۔

اصدق الصادقیں سید المتقیں چشم و گوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام

حضور کی صدیق اکبر سے محبت: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضور ﷺ سے محبت ایک لازوال اور بے مثال محبت تھی،ایسے ہی حضور ﷺ کی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے محبت بھی سب سے زیادہ تھی جو تاریخ اسلام کا ایک روشن باب ہے۔حضرت ابو بکر صدیق نہ صرف حضور ﷺ کے قریبی ساتھی تھے بلکہ ان کے سچے اور وفادار دوست بھی تھے۔ان کی محبت میں سچائی،ایثار اور قربانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ حضور ﷺ کی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت کے چند پہلو درج ذیل ہیں:

غار ثور میں ساتھ: ہجرت کے وقت جب حضور ﷺ مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی تھے جن کو ہجرت کی رات سنگتِ رسول ﷺ کی ہی بدولت ثانى اثنين یعنی کہ دو میں سے دوسرا ہونے کا شرف ملا۔ (پ 10، التوبۃ: 40)

نماز کی امامت: یہاں تک کہ ابن زمعہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھیں مگر اتفاق سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت موجود نہ تھے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے تاکہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں لیکن حضور ﷺ نے فرمایا: نہیں نہیں، اللہ اور مسلمان ابو بکر ہی سے راضی ہیں،وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔ (تاريخ الخلفاء، ص 43)

مال و دولت کی قربانی: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام کی راہ میں اپنا مال و دولت خرچ کیا اور کبھی بھی کسی چیز کی پرواہ نہ کی۔اسی طرح سے ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ سرکار اقدس ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے مال نے مجھ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ کہ ابو بکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ (ابن ماجہ، 1 / 17، حدیث: 94)

ان تمام چیزوں سے حضور خاتم النبیین ﷺ کی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے محبت جھلکتی ہے اسی طرح سے ایک اور روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ابو بکر سے محبت رکھنا اور ان کی تعظیم و توقیر کرنا میرے ہر امتی پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 40)

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضور ﷺ سے محبت ایک ایسی مثال ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ رہے گی۔