خلیفہ اول،جانشین محبوب رب قدير،امير المؤمنين حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نام نامی اسم گرامی عبداللہ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو بکر اور صدیق و عتیق آپ رضی اللہ عنہ کے القاب ہیں۔سبحان اللہ!صدیق کا معنی ہے:بہت زیادہ سچ بولنے والا۔آپ رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت ہی میں اس لقب سے ملقب ہو گئے تھے کیونکہ ہمیشہ ہی سچ بولتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ قریشی ہیں اور ساتویں پشت میں شجرہ نسب رسول اللہ ﷺ کے خاندانی شجرے سے مل جاتا ہے۔

صدیق اکبر کا بارگاہ رسالت میں مقام و مرتبہ: جس طرح عاشق اکبر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو نبی پاک ﷺ سے بے پناہ عشق و محبت تھی،اسی طرح رسول رحمت،سرا پا جو دو سخاوت ﷺ بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت و شفقت فرماتے، جگہ بہ جگہ آپ رضی اللہ عنہ کو دعاؤں سے نوازتے آپ کے فضائل کو بیان فرماتے اور آپ کو اخروی انعامات کی بشارت دیتے جس کا ثبوت کئی احادیث کریمہ سے دیکھنے کو ملتا ہے، جیسا کہ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ خاتم المرسلين ﷺ حضرت على المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے تھے اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ فرمایا پھر گلے لگا کر آپ رضی اللہ عنہ کے منہ کو چوم لیا اور حضرت على المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:اے ابو الحسن!میرے نزدیک ابو بکر کا وہی مقام ہے جو اللہ کے ہاں میرا مقام ہے۔ (الریاض النضرة،1/185)

اس متعلق اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن میں سے چند کا ذکر پیش خدمت ہے، چنانچہ

بارگاہ رسالت میں صدیق اکبر کی اہمیت: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ احد میں حضرت ابو بكر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبدالرحمن کو(جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے) مقابلے کے لئے للکارا تو رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بیٹھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔آپ رضی اللہ عنہ نے سرکار ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ!مجھے اجازت عطا فرمائیں،میں ان کے اول دستے میں گھس جاؤں گا تو نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے آپ سے ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!ابھی تو ہمیں تمہاری ذات سے بہت سے فائدے اٹھانے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں کہ میرے نزدیک تمہاری حیثیت بمنزلہ کان اور آنکھ کے ہے۔ (تفسیر روح البیان،9/413)

سرکار نامدار کا سچا یار: حضرت عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ اور حضور ﷺ کے صحابہ ایک تالاب میں تشریف لے گئے،حضور نے ارشاد فرمایا:ہر شخص اپنے یار کی طرف تیرے، سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اللہ ﷺ اور ابو بكرصديق باقی رہے،رسول اللہ ﷺ صديق اکبر کی طرف تیر کے تشریف لے گئے اور انہیں گلے لگا کر فرمایا:میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔ (المعجم الكبير، 1/208)

امت پر تین چیزوں کا وجوب: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں جس نے اپنی دوستی اور مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کیے وہ ابو بکر صدیق ہیں،پس ان سے محبت رکھنا،ان کا شکر یہ ادا کرنا اور ان کی حفاظت کرنا میری امت پر واجب ہے۔ (فيضان صديق اكبر،ص 581، 582)

محبوبِ حبيبِ خدا: حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!لوگوں میں آپ کو سب سے بڑھ کر کون محبوب ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عائشہ انہوں نے دوبارہ عرض کیا: مردوں میں سے کون ہے؟فرمایا:عائشہ کے والد۔ (بخاری،3/126، حدیث:4358)

ابو بکر پر کسی کو فضیلت نہ دو: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مہاجرین و انصار حضور نبی رحمت شفیع امت ﷺ کے دروازہ کے پاس بیٹھے کسی بات پر بحث کر رہے تھے(غالبا مسجد میں آپ کے دروازے کے قریب بیٹھے تھے کیونکہ آپ کا درواز مسجد میں کھلتا تھا دوران بحث آوازیں بلند ہو گئیں تو آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: کس بات پہ بحث کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ!فضیلت پر بحث ہورہی تھی۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ابو بکر پر کسی کو فضیلت مت دو کہ وہ دنیا و آخرت میں تم سب سے افضل ہے۔ (فيضان صديق اكبر،ص 585)

سبحان اللہ!یہ تمام احادیث کریمہ رسول اکرم ﷺ کی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت کو نہایت ہی عمدہ انداز میں بیان کرتی ہیں کہ کہیں رسول اکرم ﷺ نے یار غار رضی اللہ عنہ کی فضلیت کو بیان فرمایا تو کہیں ان کے سب سے بڑھ کر محبوب ہونے کو اور یہی نہیں بلکہ ان سے محبت کو اپنی امت پر لازم قرار فرما دیا لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی جان و مال سے بڑھ کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت کرے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے ہر دم بیزار رہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عشق و محبت میں ہی موت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامين ﷺ